(اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)
بھارت میں ہندو انتہا پسند مذہبی رہنما کھلے عام بھارت میں مسلمانوں کی میانمار طرز کی نسل کشی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔قلیتوں کو بھارت میں اس سے پہلے اپنی بقا کے خدشات اتنے شدید نہ تھے جتنے موجودہ بی جے پی حکومت نے وزیراعظم مودی کی قیادت میں پیدا کر دیے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ حکمران جماعت آر ایس ایس کے ساتھ مل کر بھارت سے تمام اقلیتوں کو ختم کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ کئی مقامات پر مسلمانوں، مسیحیوں اور سکھوں کے علاوہ دلت افراد کو ہندو تشدد پسند ہجوم کا سامنا کرتے ہوئے جانوں سے ہاتھ دھونے پڑے ہیں اور اس سلسلے میں قانون کا نفاذ کرنے والے ادارے خاموش تماشائی بنے رہے۔ ہندو انتہا پسند مسلمانوں کی آبادی بڑھنے کی شرح کو مبالغہ آمیزی کے ساتھ بڑھا چڑھا کر عام ہندوؤں کو اپنے ملک میں اقلیت بن جانے کے امکان سے خوفزدہ کرنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں اور حکومت ان بے بنیاد خدشات کو دور کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھا رہی اور نہ ہی حکومت حجاب کرنے والی معصوم مسلمان طالبات کو ان کے ہم جماعتوں کی ہراسانی سے محفوظ رکھ پا رہی ہے۔
اس بلا روک ٹوک مذہبی تشدد سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارتی ریاست ان پُرتشدد مذہبی جنونیوں کے ساتھ مل کر بھارت کو ہندو اکثریتی ملک بنانے کے منصوبے پر کام کر رہی ہے مسلمانوں کے پاس بظاہر دو راستے دکھائی دیتے ہیں۔ پہلا راستہ اسی طرح مظالم کا شکار رہنا اور کسی معجزے کا انتظار کرنا ہے جس میں سیکولر سیاسی جماعتیں اور عدلیہ اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے ان کی مدد کے لیے میدان میں اتریں۔
دوسرا راستہ ایک منظم مزاحمت کا ہے جس کے ذریعے مسلمان اپنی سیاسی قوت بڑھاتے ہوئے ان مظالم کا سیاسی اور قانونی مقابلہ کر سکیں۔ مسلمان بھارت کی سب سے بڑی اقلیت ہیں۔ ان کی تعداد 20 کروڑ سے بھی زیادہ ہے اور وہ بھارت کے ہر حصے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کو اپنی بقا کے اس خطرے سے نمٹنے کے لیے اپنی حکمت عملی جلد از جلد طے کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ آر ایس ایس کے انتہا پسند دہشت گرد مسلمانوں کی نسل کشی کرنے کو تیار نظر آتے ہیں۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ’جینوسائیڈ واچ‘ نے پہلے ہی اس سامنے نظر آنے والے خطرے کی نشاندہی کر دی ہے۔ آسام میں دو لاکھ مسلمانوں کو شہریت سے بےدخل کر کے حراستی مراکز میں رکھا گیا ہے، بالکل اس طرز پر میانمار میں حکومت نے روہنگیا مسلمانوں کے حقوق پر شب خون مار کر انہیں ملک سے بعد میں ہجرت کرنے پر مجبور کردیا تھا , نسل کشی محض ہلاک کرنا نہیں ہوتا بلکہ ایک قوم کو نسلی، مذہبی اور لسانی طور پر ختم کرنا ہوتا ہے جس کی تصویر بھارت میں ملتی ہے۔ عالمی برادری نےاگر اس کا شدید نوٹس نہیں لیا تو بھارت کے 20 کروڑ اقلیتیں اپنی زمین، شہریت اور انسانی حقوق سے محروم ہوسکتی ہیں۔ جینوسائیڈ ’نسل کشی ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ ایک عمل ہے جو ایک منظم منصوبے کے تحت شروع کیا جاتا ہے۔ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بھارت نے جموں و کشمیر اور آسام میں مسلمانوں کی نسل کشی شروع کر دی ہے
بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے موجودہ اقدامات سے نسل کشی کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔ہندوز فار ہیومن رائٹس واچ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سنیتا وشواناتھن نے کانفرنس میں ہجوم کے تشدد کے ان واقعات کی تفصیل پیش کی جن کے دوران مسلمان، دلت، آدی واسی، خواتین، ایل جی بی ٹی کیو اور تارکین وطن کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ انہوں نے حالیہ دنوں میں ہری دوار میں دھرم سنسدوں یا مذہبی مجالس کا ذکر کیا جن میں ایک ہندو رہنما یتی نرسنگ آنند نے مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے ہتھیار اٹھانے کی ترغیب دی تھی ایمنسٹی انٹرنیشنل میں بھارتی امور کے ماہر گوند آچاریہ نے خبردار کیا ہے کہ گذشتہ برس سے جو دھرم سنسدھ یا مذہبی اجلاس بلائے جا رہے ہیں وہ محض اتفاق نہیں ہے بلکہ ایک مربوط منصوبہ ہے تاکہ ہندووں میں اپنی شناخت، مذہب اور وجود کے بارے میں جنونی جذبات بھڑکائے جائیں اور خبردار کیا جائے کہ وہ مسلمانوں کے تشدد کا نشانہ بن سکتے ہیں حالانکہ بھارتی مسلمان آبادی کا صرف 14 فیصد ہیں۔ گذشتہ برس سے ’لو جہاد‘ کی مہم کے بعد بھارت کی بیشتر ریاستوں میں مذہب تبدیل کرنے سے متعلق سخت قوانین بنائے گئے ہیں
جو خود ہندوستانی آئین اور انسانی حقوق کے عالمی قوانین کے آرٹیکل 18 کی خلاف ورزی بتائے جاتے ہیں عالمی ادارے جینوسائیڈ واچ نے ایک رپورٹ میں بھارت میں جاری اقلیتوں کے ساتھ مظالم کی تفصیل بتاتے ہوئے ایسے نکات کی نشاندہی کی جو نسل کشی کے آغاز کی علامت بتائی جاتی ہیں۔ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف 2017 میں ہونے والے ظلم و ستم کو نسلی صفائی اور نسل کشی قرار دیا گیاسٹوکس وائیٹ نے کہا کہ میٹروپولیٹن پولیس کے جنگی جرائم کے سیکشن میں مستند دستاویز جمع کرائی گئی ہیں جس میں فوج کے سربراہ اور وزیر داخلہ کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا کہ ان کی سربراہی میں کشمیر میں انسانی حقوقکی کارروائیاں جاری ہیں نسل کشی سے متعلق اس کانفرنس کے ایک ہفتے بعد برطانیہ کی انسانی حقوق کی ایک لا فرم سٹوکس وائیٹ نے میٹروپولیٹن پولیس میں ایک کیس دائر کیا جس میں کشمیر میں جنگی جرائم میں ملوث بھارتی فوج کے سربراہ اور وزیر داخلہ کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا گیا 25 اگست 2017 کو “کلیئرنس آپریشن” شروع ہونے کے بعد سے میانمار کی فوج اور مقامی بدھسٹوں کے ذریعہ 24،000 سے زیادہ روہنگیامسلمان ہلاک ہوئے ۔میانمار میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کی ایک تاریخ موجود ہے جو آج تک جاری ہےمیانمار میں روہنگیا لوگ ایک بہت بڑا مسلم گروہ ہے۔
میانمار کی فوجی حکومت کے تحت روہنگیا سب سے زیادہ ستم زدہ گروہ میں شامل رہے ہیں اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ روہنگیا دنیا کے سب سے زیادہ ستم زدہ گروہوں میں سے ایک ہیں۔ 1948 کے بعد، یکے بعد دیگرے حکومتوں نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف 13 فوجی آپریشن کیے ان کارروائیوں کے دوران میانمار کی سیکیورٹی فورسز نے روہنگیاؤں مسلمانوں کو ان کی سرزمین سے ہٹادیا، ان کی مساجد کو جلایا اور روہنگیا مسلمانوں پر بڑے پیمانے پر لوٹ مار، آتش زنی اور عصمت دری کا ارتکاب کیا۔بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں حالات کی سنگینی کے باوجودعالمی برادری کی پراسرار خاموشی سوالیہ نشان ہےعوام پر خوف سا طاری ہے۔ اس کے برعکس خطے کی صورت حال پر امریکہ، برطانیہ اور دیگر مغربی ملکوں میں خاموشی ہےپاکستان سفارتی محازوں پر آئے روز عالمی برادری کی توجہ مبذول کرانےاور تشویش کا اظہار کرتےکوشاں نظر آتاہےاس سال جنوری میں برطانیہ کی ایک لا فرم نے کشمیر میں جاری جنگی جرائم سے متعلق امریکی کانگریس میں ممکنہ نسل کشی کے خدشات پر حال ہی میں کانفرنس کا انعقاد کیاتھا امریکی کانگریس میں سول سوسائٹی، انسانی حقوق، نسل کشُی سے متعلق عالمی ادارے جینوسائیڈ واچ اور تھنک ٹینکس سے وابستہ دانشوروں کی یہ پہلی کانفرنس تھی کانفرنس کا مقصد بھارت میں ’ممکنہ نسل کشُی کے خدشات‘ پر اظہار خیال کرنا تھا جس کی تنبیہ عالمی ادارے جینوسائیڈ واچ نے اپنی ایک رپورٹ میں دی ہے اور کہا ہے کہ روانڈا اور میانمار کے بعد بھارت میں ممکنہ نسل کشی کا ایک مربوط عمل شروع ہونے کا خدشہ ہے جس پر نوٹس نہ لینے کی صورت میں حالات پر قابو پانا مشکل ہوسکتا ہے۔ادارے نے اپنی رپورٹ میں بھارت میں گذشتہ ایک دہائی سے جاری اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے مبینہ مظالم کی تفصیل بتاتے ہوئے دس ایسے نکات کی نشاندہی کی ہے جو نسل کشی شروع ہونے کی علامت بتائی جاتی ہیں۔جینوسائیڈ واچ کے سربراہ گریگری سٹانٹن نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے دہائیوں قبل عالمی برادری کو وارننگ دی تھی۔ اس کا آغاز سن 2002 میں گجرات میں قتل عام سے ہوا ہے جس میں ایک ہزار سے زائد مسلمان ہلاک کر دیے گئے تھے۔بقول سٹانٹن ’ہندوستان کے موجودہ وزیراعظم کی مسلم مخالف پالیسی کی بنیاد پر بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنی سیاسی ساخت مضبوط بنا دی ہے۔ بی جے پی نے اس سلسلے میں دو اہم اقدامات اٹھائے ہیں: ایک جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنا اور دوسرا ملک کے اندر شہری ترامیم کا قانون بنانا۔ دونوں کا مقصد مسلمانوں کو بےاختیار اور اپنے حقوق سے بےدخل کرنا ہےامریکی اخبار دا واشنگٹن پوسٹ نے اس سلسلے میں اپنی ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ سٹوک وائیٹ نے اپنی دستاویز میں تقریبا دو ہزار شواہد کا حوالہ دیا ہے جو انہوں نے 2020 اور 2021 کے دوران جمع کی ہیں۔ دستاویز میں آٹھ سینیئر نامعلوم افسران کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ جنگی جرائم اور تشدد کے واقعات میں براہ راست ملوث ہیںقانونی ادارے کا کہنا ہے کہ اس نے عالمی دائرہ کار کے اصول کے تحت لندن پولیس میں درخواست دائر کی ہے جو مختلف ملکوں کو ایسے افراد کو سزا دینے کا اختیار دیتا ہے جو جنگی جرائم یا انسانیت کے خلاف تشدد کرنے کے مرتکب ثابت ہوتے ہیں۔ امید ظاہر کی گئ ہے کہ رپورٹ پڑھ کر برطانوی پولیس شواہد کی بنیاد پر تحقیقات شروع کرے گی اور مجرموں کو سزا دلانے میں لیت و لعل سے کام نہیں لے گی2018 میں اقوام متحدہ کے سربراہ نے بھی کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی شدید پامالیوں کی تحقیقات کرانے کی اپیل کی تھی جہاں قانون افسپا کے تحت بھارتی افواج کو خصوصی اختیارات حاصل ہیں جس کی آڑ میں خطے میں تشدد اور ہراساں کرنے کی خبریں روزانہ موصول ہوتی ہیں۔ بھارتی حکومت کو بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں کے خلاف بڑھتا ہوا تشدد انہیں اس بات پر مجبور کر سکتا ہے کہ وہ بھی اپنی نسل کشی کا مقابلہ کرنے کے لیے تشدد کا راستہ اختیار کریں۔ اس قسم کے تشدد کی ابتدا بھارتی سلامتی کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ثابت ہوسکتی ہے۔ امریکی کانفرنس اور برطانیہ کے قانونی ادارے نے اپنی رپورٹوں میں تشویش ظاہر کی ہے کہ پانچ اگست 2019 کے اندرونی خود مختاری ختم کرنے کے بھارتی فیصلے کے بعد کرفیو، انٹرنیٹ پر پابندی، میڈیا بلیک آوٹ اور پھر کرونا وائرس کے لاک ڈاؤن کے دوران کشمیر میں تشدد کے واقعات میں بے تحاشا اضافہ ہواہے جس پر عالمی برادری کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے.