تحریر: نادیہ خان بلوچ کوٹ ادو
صابری گھرانہ واحد ایسا گھرانہ ہے جس نے قوالی کی دنیا میں نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں ایک نام پیدا کیا. صابری گھرانے نے قوالی میں ایک نئی روح پھونکی. اسے ایک الگ انداز دیا. مختلف قوم و مذاہب کے لوگ جو قوالی میں گائے جانے والے الفاظ کا مطلب بھی نہیں جانتے مگر وہ صابری گھرانے کی آواز سن کر سر دھنتے آئے ہیں. اس گھرانے کی آواز میں ایک ایسا جادو ہے جو ہر بندے کو مسرور کردیتا ہے. کیا مذہب؟ کیا فرقہ؟۔
انسان سب کچھ بھول کر قوالی کے الفاظوں میں کھو جاتا ہے. اسکا دل اسکے زبان بس قوالی کے لفظ ادا کررہے ہوتے ہیں جو اس کو سکون دیتے ہیں. اگر یہ کہا جائے کہ قوالی کے ذریعے انسان میں عشق حقیقی پیدا کرنے کا وصف صابری گھرانے کے حصے میں آیا ہے تو کچھ غلط نہ ہوگا. مشہور قوال غلام فرید صابری اور انکے بھائی نے دنیا میں بہت نام پیدا کیا. ایسی ایسی بلندیاں چھوئیں کہ شاید اب کسی اور کو مل سکیں. صابری برادر نے اس فن کو اپنی وراثت بنا لیا. اپنا قیمتی اثاثہ. بہت کم دیکھنے میں آتا ہے ایک ڈاکٹر کا بیٹا ڈاکٹر ایک پولیس والے کا بیٹاپولیس والا بننے سے کتراتا ہے. مگر غلام فرید صابری نے اپنے اس فن کو اپنے بیٹے جن کا انکی 11 اولادوں میں 8واں نمبر ہے امجد صابری صاحب میں منتقل کیا. اپنی وراثت کو سنبھالنے والے،باپ چچا کے فن کو آگے بڑھانے مشہور قوال امجد صابری 23 دسمبر 1976ئ کو پیدا ہوئے. بچپن سے ہی باپ چچا کو قوالی گاتا دیکھا تو ان میں بھی قوالی سیکھنے کی لگن پیدا ہوئی۔
8 سال کی عمر میں ہی امجد صابری صاحب نے قوالی سیکھنا شروع کردی اور 12 سال کی عمر میں پہلی بار سٹیج پر قوالی پیش کی اور خوب داد سمیٹی.
اس پذیرائی نے امجد صابری صاحب کو پھر قوالی کے شوق سے نکلنے ہی نہ دیا. اس کو ہی اپنا سب کچھ مان لیا.
اپنے اس ورثے کی خاندانی جائیداد کی طرح جماعت کی. حالات جیسے بھی ہوئے مگر انہوں نے اس سے منہ نہ موڑا.
قوالی کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں اللہ اور اسکے رسول کی محبت جگاتے رہے.
انکی مشہور قوالیوں میں”
“کرم مانگتا ہوں،عطا مانگتا ہوں”،
“بھر دو جھولی میری یا محمد”
“تاجدار حرم” اور میرا کوئی نہیں ہے تیرے سوا شامل ہیں.
یہ قوالیاں پہلے صابری برادران نے کہی ہیں مگر امجد صابری صاحب نے اپنے باپ چچا کی قوالیوں کو اپنے انداز میں پیش کیا اور کئی ایوراڈز بھی جیتے. بین الاقوامی شہرت یافتہ اس انسان نے استطاعت کے باوجود ایک نہایت سادہ زندگی بسر کی. بنگلہ بنانے کی بجائے ایک عام سے گھر میں زندگی گزاری۔
ہمیشہ اللہ والے رہے اور اللہ کی باتیں کرتے رہے. شاید ہی انہوں نے کبھی کسی پر ہاتھ اٹھایا ہو.
وہ قوالی کو نام و پیسے کیلئے نہیں بس دل کی آواز سے پڑھتے. ایسا پڑھتے کہ سننے والے اس کے سحر سے کبھی نکل ہی نہ پاتے. کئی ٹی.وی چینل پر پروگرام پیش کرتے رہے. انکے سینکڑوں کی تعداد میں نہیں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں مداح ہیں. کراچی سے لاہور ملتان تقریبا ہر جگہ کے لوگ انکا کلام سننے کیلئے دور دور سے جاتے. سینکڑوں کی تعداد میں ملک بھر میں انکے شاگرد ہیں.
جس مقام پہ کبھی صابری برادران تھے ایسا لگتا تھا کہ ایک وقت آئے کا امجد صابری صاحب بھی اس مقام پر پہنچ جائیں گے. امجد صابری صاحب نے ورثے میں ملی اس دولت یعنی قوالی کا پورا پورا حق ادا کیا. امجد صابری صابری گھرانے کی آخری آواز ہیں.کیونکہ انکے خاندان میں اور کوئی ایسا نہیں جو قوالی کے فن سے منسلک ہو. مگر ہائے افسوس صد افسوس صابری گھرانے کی اس آخری آواز کو بھی ہمارے ملک کے نام نہاد ٹھیکداروں نے ملک میں چھپی دہشت گرد قوتوں کے ساتھ ملکر اس آخری آواز کو بھی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاموش کردیا۔
22 جون بروز بدھ جب امجد صابری صاحب دوپہر کے وقت کسی پروگرام میں شرکت کیلئے جارہے تھے تو راستے میں موٹرسائیکل سوار دہشت گردوں نے کار روک کر ان پر حملہ کردیا. اور 5 گولیاں انکے سینے میں اتار دیں. جسکی وجہ سے وہ زخموں کی تاب نہ لا سکے اسپتال جانے سے پہلے ہی راستے میں اللہ کو پیارے ہوگئے. انکے بالکل پاس بیٹھے سلیم صابری صاحب محفوظ رہے جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ واقعہ ٹارگٹ کلنگ کا ہی ہے۔
کراچی کی مشہور جماعتوں نے اس حادثے کے بعد ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھانا شروع کردیں. کراچی شہر کی مالک ایم قیو ایم کہتی ہے امجد صابری صاحب پر پی ایس پی نے حملہ کرایا. جبکہ پی ایس پی کہتی ہے یہ ایم قیو ایم کی سازش ہے وہ کراچی میں حالات خراب کرنا چاہتی ہے. تمام سیاسی جماعتیںاس واقعے پر پوائنٹ اسکورنگ کرنے میں مصروف ہیں. مگر جانے والا چلا گیا. ماضی میں بھی کئی ڈاکٹرز اور ایسے کئی لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ ہوتی رہی ہے. یہ معاملہ بھی ڈاکٹر محمد سعید کے معاملے سے ملتا ہے. کیونکہ ایک فنکار کی کسی سے کیا دشمنی ہوسکتی ہے؟ وہ تو خوشیاں بانٹتا ہے. اداسیاں دور کرتا ہے. مگر سوال یہ ہے کہ کب تک ملک کا امن نشانہ بنتا رہے گا؟ کب تک ایسے سر عام خون بہتے رہے گا؟ اصل چہرے کیوں نہیں پکڑے جاتے؟ امجد صابری کے گھر والے کس کے خلاف رپورٹ کرائیں؟ سیکورٹی اداروں؟ صوبائی حکومت؟ یا پھر وفاقی حکومت؟۔
کب تک ہم ہر ایسے واقعہ پر مذمت کرکے دو روزہ یا تین روزہ سوگ کا اعلان کرکے سمجھتے رہیں گے کہ ہم نے اپنا فرض پورا کردیا. ہم مانتے ہیں موت کا وقت برحق ہے. اسے کوئی نہیں ٹال سکتا. قدرتی موت آتی رو کر آنسو بہا کر سب چپ کر جاتے مگر ایسی موت مارنے کا حق انہیں کس نے دیا؟
وہ شہید ہوگیا. شہید ہوکے اپنا رتبہ بلند کر گیا مگر اپنے پیچھے اپنے بچے یتیم کر گیا. ایک بیوہ چھوڑ گیا. اسکا جواب کون دے گا؟ 23 جون کو جب اس شہید کی نمازجنازہ ادا کی کئی تو نمازجنازہ میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی. ہر آنکھ اشک بار تھی. شہید کو پاپوش نگر قبرستان میں والد کے قدموں میں دفن کیا گیا. یوں ایک اور چراغ بجھ گیا. رہ گئیں تو پیچھے صرف یادیں. نہ حکمرانوں کا کچھ گیا نہ مارنے والوں کا. اجڑ تو پاکستان کا باغ گیا. ایک پھول سارے گلشن کو روتا چھوڑ گیا۔
خدا مرحوم کے درجات بلند کرے اور ہمارے حکمرانوں کو بھی کچھ توفیق دے وہ ملک کے ان اثاثوں کے بارے میں بھی سوچیں اور جو کہتے ہیں نہ امجد صابری شہید نہیں. یہ بھانڈی تھا، تو ان سے میرا ایک سوال ہے تمہارا اگر کوئی حادثاتی موت بھی مزے تو وہ شہید؟ یہ کیوں شہید نہیں؟ گاتا تو اللہ کا کلام تھا. فرقہ پرست بن کے مسلمان کو کبھی کافر تو نہیں کہتا تھا؟؟ مسلک کی بات تو نہیں کرتا تھا. . . بس یہ کافر کافر کی لڑائی مسلمانوں کو ہی لے ڈوبے گی. فائدہ اٹھائے گی تیسری قوت. کیونکہ موجودہ حالات اسی طرف ہی اشارہ کرتے ہیں۔
تحریر: نادیہ خان بلوچ کوٹ ادو