تحریر :شاہ بانو میر
شاندار کار میں سے برآمد ہونے والا ایک انسان جس کے بیش قیمت لباس کی قیمت عام انسان اندازہ نہیں کر سکتا گھڑی کی چمک دور سے نگاہوں کو خِیرہ کئے دے رہی تھیـ آنکھوں پر لگا سیاہ چشمہ اتار کر بڑے انداز سے کی رنگ کو دو انگلیوں میں گھماتا ہوا یہ انسان ہر کسی کی توجہ کا یکبارگی مرکز بن گیاـ کیا میزبان کیا مہمان سب ہی ستائشی نگاہوں سے اس قدرت کی فیاضی سے لبریز پیکر انسانی کو دیکھ رہے تھےـ جو بادی النظر میں تو انہی جیسا بشر تھا لیکن دولت کی فراوانی اور اس پر شکل و صورت کا پر برستا رنگ و روپ جیسے اسے عام انسانوں میں کچھ الگ کچھ منفرد دکھا رہا تھاـ
سیاہ ڈنر سوٹ اور سیاہ اٹالین شوز کی شان ہی الگ تھیـ محفل کے اختتام تک شائد ہی کوئی ایسا ہو کہ جس نے حسرت سے یہ نہ سوچا ہو کہ اس کی جگہہ وہ ہوتاـ یہ وہ اللہ کی جانب سے چنے ہوئے لوگ ہیں جن پر خاص رحمت کرتا ہے اور اسی کی رحمت کی بدولت یہ عام لوگوں سے برعکس بلند و بالا دکھائی دیتے ہیںـ پیسے کی بہتات انسان کا اعتماد کروڑوں گنا بڑہا دیتا ہےـ اور ایسے ہی لوگ دوسروں کو احساس کمتری میں مبتلا کر کے خود رونقِ محفل بن جاتے ہیںـ یہ تو تھے وہ لوگ جن کے اوپر رب عظیم کا خاص کرم ہےـ آئیے تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہیںـ اسی دنیا میں صرف روزی روٹی کیلیۓ دن بھر مشقت کر کے بڑی مشکل سے دو وقت کے کھانے کا انتظام کرنے والے لاکھوں نہیں کروڑوں لوگ ہیںـ جن کے حسین چہرے دھوپ کی تمازت سہتے سہتے سیاہ ہو جاتے ہیںـ اور نصیبوں کی بندش نہیں کھلتیـ کسی سیاہ فام دیو کی طرح غربت اور افلاس ان کے اوپر اپنا طویل القامت سایہ کئے موت تک لے جاتی ہےـ
یہ وہ لوگ ہیں جن کے بچے بھی آخر میں یہی کہتے سنے گئے کھِلا نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہو؟ عمر بھر در در کی ٹھوکروں میں گزار کا آزاد ملک کے غلام شہری خاموش ہو کر دنیا سے چلے جاتےاور کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتاـ ماسوا ان افراد کے جن کے منہ میں روٹی ان کی وجہ سے جاتی تھیـ آئیے اب اس جانب جو تصویر کا تیسرا رخ ہے اور آج میں اِن سے معافی کی طلبگار ہوں ـ یہ ہم جیسے وجود ہیں مگر جن کے پاس نہ امارت ہے نہ ہی غربت نہ لاکھوں کے دلوں کی دھڑکناور نہ ہی کئی اداروں کی پہچان ہیں ـ نہ ہی کسی افلاس زدہ جھونپڑے کے عسرت زدہ غریب کنبے کے افراد یہ کچھ بھی نہیں ہیں ـ صرف نمبرز ہیں یا ممبران ہیں ـ یہ وہ لوگ ہیں جو بیحد حساس تھے ـ جو معاشرتے کی چیِرہ دستیاں نہیں سہہ سکے اور گھٹن کا شکار ہوکر آخر کار گھٹ گھٹ کر بے بسی سے اپنی ذات کو تباہ کر گئے ـ یہ سوچے بغیر کہ یہ ظالم تیز رفتار دنیا ایسی ہےـ
کہ یہ کاروانِ ہستی ہے تیز گام ایسا قومیں کچل گئی ہیں اس کی روا روی میں پھر یہ کس کھیت کی مولی تھے جو اپنی حساس طبیعت کو لے کر اپنے چھوٹے سے دماغ کو اتنا تھکا گئے کہ ہوش و ہواس سے بیگانہ ہو گئے ـ ذہن کا توازن برقرار رکھنے کا قدرتی مآخذ کیمیکل جو ہماری حرکات و سکنات کو سوچ کو عمل کو توازن دیتا ہے ـ اس کی مقدار میں شدید جزباتی دھچکوں سے ایسی تباہی مچتی ہے کہ وہ اپنی مقدار کو کھو دیتا ہے اور یہیں سے ایک انسان سپیشل انسان بن جاتا ہے ـ قدرت جسے نوازے وہ انسانوں کا بھی پیارا ہوتا ہے اور اللہ ربّ العزت جس کو آزمائش میں ڈالے اور نہ نکالنا چاہے کسی بھی مصلحت کی وجہ سے تو اسے دنیا کا کوئی حکیم لقمان یا بڑا طبیب بھی شفا یاب نہیں کر سکتا ـ قدرت کے یہ وہ اسباق ہیں جو ہم جیسے انا کے زعم میں بپھرے ہوئے اپنی کارکردگی پے نازاں انسانوں کیلیۓ وجہ فکریہ ہےـ
مگر قرآن پاک میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ اور تم کم ہی غور کرتے ہو یہی تو وجہ ہے کہ ہم نے ایسا بے حس معاشرہ تشکیل دے دیا کہ جس میں کسی کے ساتھ کیا ہو گیا ـ ہمیں کیا؟ ہاں جب وہی آفت قیامت خود پے ٹوٹتی ہے تو پھر ہماری آہ و بکاہ کا شور آسمان تک جاتا ہے ـ آئیے ذرا اس طبقے کا تصور کریں کہ ان کی ہم میں سے کسی کو ضرورت نہیں حتیٰ کہ ان کے گھر والوں بچوں کو بھی نہیںـ کیونکہ یہ جزباتی طور پے بکھرے ہوئے ناکام یا بہت ہی زیادہ کامیاب انسان تھےـ جو دونوں طرح کی کیفیت کو برداشت نہیں کر سکےـ میری مراد فاؤنٹین ہاؤس میں موجود ان ممبران سے ہے جو کبھی ممبران نہیں تھےـ ہماری آپکی طرح نام تھے کسی کے رشتے تھے کسی خاندان کی پہچان تھے کسی شہر کے باسی تھے ـ کسی محلے میں اٹھتے بیٹھتے تھےـ لیکن آج تنِ تنہا ان اداروں میں پڑے پڑے زندگی کو خود سے دور ہوتا دیکھ رہے ہیںـ
عجیب سے مایوسی اداسی گہری پرچھائی ان کے بیمار ذہن نے ان کے چہروں پر ہویدا کر رکھی ہے جو کسی صورت ہلکی نہیں ہو رہی ـ قدرت نے جب انہیں عام سے خاص اور وہ بھی محرومی کی صف میں لا کھڑا کیا تو ہماری کیا مجال ہے کہ ان کو کسی بھی طور برابری دے سکیں ـ قانونِ فطرت ہے قدرت کے آگے حضرتِ انسان بے بس ہیں ـ لیکن آج فیس بک پر کچھ ان جیسے لوگوں کو دیکھ کر خود کو بہت ملامت کی ـ میرا قلم جو دعویدار ہے کہ پاکستان کا نمائیندہ قلم ہے ـ پھر اتنا عرصہ یہ لوگ اور ان سے منسلک مسائل کو تحریر کرنے کی سوچ کیوں نہی آئی ـ شائد اسی لئے کہ قدرت نے انہیں گمنام کر دیا ـ بچہ بھی وہی توجہ پاتا ہے جو بہت چُلبُلا ہو ـ خاموش بچے بھی توجہ حاصل نہیں کرتے ـ یہی وجہ ہے آپ کی خاموشی مایوسی اور گمنامی نے کبھی اس جانب دیکھنے ہی نہیں دیاـ
لیکن کچھ تصاویر اور افراد دیکھ کر جیسے کل رات سے دل میں ایک پھانس سی چبھی ہوئی ہے کہ ان کو عید مُبارک ہم میں سے کسی نے نہیں دی ؟ جو لوگ ان اداروں کے قریب رہائش رکھتے ہیں ـ وہ عید کو کچھ وقت نکال کر اپنے بچوں کو باشعور قوم بنانے کیلئے ان اداروں میں جاتے تو سوچئے کتنے درجے بلند کرتے اللہ پاک کو ایسے لوگ بہت پسند جو اس کے بندوں کا احساس کرتے ہیں ـ لوگوں کو یہ شعور دلانا قلمکاروں کا کام ہے جزبہ، انسانیت جگانا اہل قلم کی ذمہ داری ہے ـ میں اپنی کوتاہی کو سر عام تسلیم کرتے ہوئے شرمندہ ہوں اور آپ سب سپیشل بہن بھائیوں سے معافی چاہتی ہوں ـ ہمیشہ ہی دوسرے عوامل پر نگاہ رکھی آپ کو فراموش کئے رکھاـ حتیٰ کہ عید پر بھی مجھے معاف کیجیۓ گاـ
انشاءاللہ آپ کے اہل خانہ کے ناقابل تلافی رویے اور وہ تازیانے جن کی چبھن آپ کو دنیا سے بیگانہ کر گئی ـ وہ ناکامیاں جو دوسروں نے چھین کر آپ کو مایوسی کی گہری دلدل میں پھینک دیا اس کے ساتھ ساتھ ہ ہماری بے حسی اب انشاءاللہ یہ قلم احاطہ کرے گا ـ تا کہ گھروں میں موجود رشتوں کو شدید جزباتی دھچکوں سے بچایا جا سکے اور احساس کی سوچ کو بڑھا کر کمزور سوچ کے مالک بہن بھائیوں کو اعتماد تحفظ فراہم کر کے پاکستان کے کارآمد شہری بنایا جا سکے نا کہ ایسے لاغر وجود جو ہمیشہ سہاروں کے متلاشی اور مقروض رہیںـ حق تلفی کی ہے آپ کی اس پر دل سے شرمندہ ہوں آپ مجھے معاف کیجیۓ گاـ
تحریر :شاہ بانو میر