چہرہ شناسی صدیوں پرانا علم ہے۔ روایت ہے کہ ہزاروں برس قبل جاپان میں چہرہ شناسی کا علم عروج پر تھا اور عام لوگوں کے علاوہ ڈاکٹروں کی اکثریت اس فن میں طاق تھی اور وہ اس فن سے اپنے مریضوں کی جسمانی اور روحانی بیماریاں پہچان کر کامیاب علاج کیا کرتے تھے۔
لاہور: (یس اُردو) ماہرین کا کہنا ہے کہ جسمانی حالت اور چہرے کو دیکھ کر کسی مریض کے خون، ہڈیوں اور عضلات کی حالت کا احسن طریقے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے جبکہ جاپانی ڈاکٹر ایسے مریضوں کی چہرہ شناسی کر کے ان کی جسمانی قوت اور کمزوریوں کے ذریعے ان کے والدین کے متعلق بھی بہت کچھ جان لیا کرتے تھے۔ جاپان میں اس فن کے عروج کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں کے ڈاکٹر اپنے مریضوں کے چہرے پڑھ کر نہ صرف یہ جان لیتے تھے کہ وہ کس ماحول میں رہتے ہیں بلکہ یہ بھی جان لیتے تھے کہ وہ کیا کھا کر آتے ہیں۔ موجودہ صدی کے اوائل میں امریکی جج ایڈورڈ فرسینٹ جونز نے چہرہ شناسی کو کلیدی حیثیت دیتے ہوئے اپنی عدالت میں پیش ہونے والے گواہوں، طرفداروں اور وکیلوں کا بغور مطالعہ کرتے ہوئے ان کے کوائف اور چہروں کی تفصیل کو درج کیا اور ساتھ ہی ان کے رویوں کی تفصیلات بھی جمع کیں۔ ایڈورڈ کی جمع کردہ معلومات کو کیلیفورنیا کے 1050 افراد کے مطالعے کے بعد حاصل کیا گیا تھا۔ امریکی نفسیات دان رابرٹ وہائٹ سائڈ اور ان کے محقق ساتھیوں نے ایڈورڈ کی معلومات کے ذریعے 68 افراد کا تجزیہ کیا تھا جس کے نتیجے میں چہرہ شناسی کے ذریعے 9.2 فیصد مقدمات کا درست فیصلہ کر لیا گیا تھا۔ بیشتر سائنسدانوں کا خیال ہے کہ شخصیات اور چہرے کی بناوٹ کے درمیان کوئی نہ کوئی ربط ضرور ہے۔ نیو میکسیکو یونیورسٹی کے شعبہ علم الحیات کے پروفیسر رینڈی تھورن ہل نے اپنی عمیق تحقیق کے ذریعے، چہروں کی بناوٹ اور جاذبیت کے درمیان ربط کو سمجھنے کی کوشش کی تھی جس کے نتیجے میں انہوں نے اخذ کیا کہچہرے کی متناسب بناوٹ، چہرے کی جاذبیت کا سبب بنتی ہے پروفیسر رینڈی کا کہنا ہے کہ چہرے کے متناسب خدوخال کی بنا پر کوئی شخص مقبول عام، سوشل اور زیادہ جاذب نظر ہو سکتا ہے۔ اس کے برعکس کمتر خدوخال والے شخص میں یہ خصوصیات بھی قدرے کم ہوں گی۔ خدوخال میں تناسب اور عدم تناسب کی وجہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ جاذبیت کی کمی بیشی کا تعلق نسلوں سے ہوتا ہے۔ یہ سلسلہ ارتقاء سے اب تک کی نسلوں کی بقاء کا ذمہ دار بھی ہے۔ دوسرے یہ کہ چہروں کی جاذبیت کا دارومدار صحت پر ہوتا ہے۔ عام خدوخال کے حامل شخص کے صحت مند چہرے کے مقابلے میں خوبصورت نقوش رکھنے والے لیکن خراب صحت کے حامل شخص کے چہرے پر جاذبیت نہیں ہو گی۔ پروفیسر رینڈی کا کہنا ہے کہ دراصل کسی کے چہرے کی حالت سے اس کے جسم کے خود حفاظتی نظام کی کیفیت کا پتہ چلتا ہے۔ آپ کے چہرے کی جاذبیت اس امر کی غماز ہوتی ہے کہ آپ صحت مند ہیں اور اپنے طفیلی کو برداشت کر سکتے ہیں۔ انہوں نے پرندوں کی مثال دے کر سمجھاتے ہوئے کہا کہ آپ غور کریں تو خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ خوبصورت اور جاذب نظر پرندوں کے جسموں کا خود حفاظتی نظام بدصورت پرندوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس بنیاد پر آپ انسانوں کا تجزیہ کریں تو یہ بات وضاحت سے سامنے آ سکتی ہے کہ خوبصورت اور جاذب نظر لوگوں کو بیماریاں بہت کم تنگ کرتی ہیں یا وہ کم بیمار ہوتے ہیں۔ چہرہ شناس سائمن برائون خبردار کرتے ہیں کہ چہرہ شناسی کے علم کو محض چہرے کی جاذبیت یا قوت جانچنے کیلئے استعمال کرنا مناسب نہیں ہے بلکہ چہرہ شناسی کے ذریعے تعلقات کو بہتر سے بہترین کیا جا سکتا ہے اور بہترین دوست اور رفیق حیات بھی تلاش کیا جا سکتا ہے جبکہ غلط فہمیوں کی وجہ سے لا تعداد تلخیاں بھی درگزر کی جا سکتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بہتر ملازم تلاش کرنے کے علاوہ گاہک کی نفسیات اور ضرورت کو بھی پرکھا جا سکتا ہے