تحریر: کہکشاں صابر
ہر جگہ سوشل میڈیا کا چرچا عام ہے گاؤں ہو یا شہر اس تفریق کو سوشل میڈیا نے کافی حد تک ختم کر دیا ہے ہر طرح کی خبر اچھی ہو یا بری پلک چھپکتے ہی سوشل میڈیا کی زینت بن کر آپ کو باخبر کر دیتی ہیں۔
کچھ لوگوکا کہنا ہے کہ فیس بک کا زیادہ استعمال نوجوانوں اور بچوں کی بیگاڑ کا باعث بن رہا ہے نوجوان بچے بچیاں غلط دوستیاں بنا لیتے ہیں جو آگے چل کر ان کی ذات کے ساتھ ساتھ ان کے خاندان کو بھی کئی ذیادہ متاثر کرتا ہے۔
اگر غور کریں تو جہاں فیس بک کے استعمال میں کچھ برائی ہے تو وہی اس میں کئی اچھائیاں بھی پو شیدہ ہیفیس بک میں کئی ادبی اخلاقی اور اسلامی گروپس اور پیجیز ملتے ہیں جو دن با دن ہمارے علم میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔
کچھ تحریریں، کچھ الفاظ، کچھ پیغامات، ہماری نظر کے سامنے سے ایسی بھی گزارتے ہیں جو ہمارے ذہین ہمارے دل ہماری شخصیت پر بہت گہرا اثر کرتے ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ اچھے الفا ظ خودبخود ہماری زبان سے ادا ہونے شروع ہو جاتے ہیں جو ہماری شخصیت کی نکھار میں اضافہ باعث بناتا ہے کچھ لوگ اپنے دل کی بات دل میں رکھنے کی عادی ہوتے ہیں عام زبان میں جن کو ہم کم گو یا پراسرار طبیعت کا مالک کہتے ہیں۔
ان لوگوں کو بولنے کے لیے الفاظ نہیں بلکہ لکھنے کے لیے قلم تھامانا چاہیے جو ان کے اچھی سوچ کی زباں بن کر دوسروں تک پہنچے اور گروپوں میں ادبی مقابلے ایک طرح کا میشن ہی ہوتا۔ ایسا میشن جو دوسروں کو قلم اٹھانے پر مجبور کر دیتا ہے اپنے اندر چھپی سوچ کو اپنے علم کو بانٹنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
ادبی مقابلے دل ودماغ کو بہتے دریا کا سا احساس دلاتا ہے جو مسلسل حرکت میں رہ کر کچھ نہ کچھ کرنے کی لگن میں کچھ حاصل کرنے کی لگن میں لگا رہتا ہے بہت سے لوگو اس وجہ سے بھی قلم نہیں اٹھاپاتے کہ ان کی سوچ ان کے اندازو بیان کی اصلاح اور درست رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔
سوشل میڈیا اب اس قید سے آزاد ہے آپ کی ایک تحریر کی اصلاح کے لیے کئی نامور شخصیت، کئی دانشوار میدان میں اتر کر آپ کی درست سمت میں رہنمائی کرتے ہیں۔
آپ کی سوچ کے لیے نئے در وا کرتے ہیں مقابلے میں فرسٹ سیکیڈ کی جگہ اصلاح کو اہمیت دینی چاہیے مقابلے کے انقعاد کرنے والوں سے میری چھوٹی سی گزارش ہے کہ مہربانی کرکے جہاں اپ لوگ اس ایونٹ کے انقعاد میں اتنی محنت کرتے ہیں وہی تھوڑی محنت اور کر کے ہر تحریر کے ساتھ اصلاحی تبصرہ بھی کریں کہ کس بنا پر تحریر لکھنے والا فرسٹ اور سیکینڈ پوزیشن میں نہیں آسکاتاکہ اس خامی اس کمی کو لکھنے والا اگلی مرتبہ ناں کرسکیں اور اس کی تحریر میں نکھار اور جان پیدا ہوتی جائیں۔۔۔
تحریر: کہکشاں صابر