تحریر: ملک محمد سلمان
سوشل میڈیا بیک وقت رحمت بھی ہے اور زحمت بھی ،ایک طرف تو بچھڑے ہوئوں کو ملانے اور فاصلے ختم کر نے کا سبب بن رہا ہے تو دوسری طرف اس کے بے جا استعمال سے ہمارے پاس گھر کے افراد سے بات چیت کا بھی وقت نہیں،انہی کے پاس بیٹھ کے انٹرنیٹ چیٹنگ ہورہی ہوتی ہے ،یوں قریبی رشتوں کے سامنے ہو کر بھی دوری پیدا ہو رہی ہے۔انسان کی بنائی ہوئی ہرچیز میں فائدے ہیں وہیں نقصانات بھی موجود ہیں، سوشل میڈیا میں بھی فوائد کے ساتھ نقصانات بھی ہیں اور سب سے بڑا نقصان ہے آزادی۔ سوشل میڈیا پر ہر انسان اپنے خیالات کا اظہار کرنے میں آزاد ہوتا ہے، میں یہ نہیں کہتاکہ یہ آزادی غلط ہے، مگر چیک اینڈ بیلنس ضرور ہونا چاہئے ،آزادی کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ آزادی کی آڑمیں آپ دوسروں کی عزت نفس مجروع کریں،لوگوںکے احساسات کی ساتھ کھیلنا شروع کر دیں۔
اپنی ذاتی دشمنی اور حسد کے ہاتھوں مجبور ہو کر کسی پر انتہائی سنگین ااور غلیظ لزامات لگا کر اس کو بدنام اور رُسوا کرنے کیلئے سوشل میڈیا پر تشہیر کرنا آزادی نہیں بلکہ ذہنی غلامی اور تنگ نظری کا ثبوت ہے کہ آپ کس قدر کم ظرف ہیں۔اگر مان بھی لیا جائے کہ سوشل میڈیاپر کسی کے متعلق کہ آپکی کہی ہوئی بات ٹھیک بھی ہے تب بھی اس کا شمار غیبت میں ہوگا اور یہ وہ گنا ہ ہے جس کی معافی اس وقت تک نہیں ملتی جب تک وہ شخص معاف نہ کردے جس کی غیبت کی ہو اور سنگین الزام کے متعلق تو نبیۖ نے واضح فرمایا ہے کہ بہتان گناہ ِعظیم اور ہلاک کردینے والا عمل ہے۔
جدید ٹیکنالوجی نے انسان کو بے خبری کے اندھیرے سے باہر نکال کرآ گاہی کی روشنی میں پہنچادیا ہے۔ یاد کیجئے جب انٹرنیٹ کا استعما ل عام نہیں ہوا تھا اور اینڈرائڈ موبائل لوگوں کے پاس نہیں تھے تو ان کے پاس خبروں کا ذریعہ صرف اور صرف پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا تھا،جہاں ہر کسی کی پہنچ ممکن نہیں ہوتی تھی،۔
کیا اس وقت کسی نے سوچا تھا کہ آنے والا وقت ایک عام آدمی کا ہوگا جہاں اسکی بات دور دور تک سنی جاسکے گی؟ا سمارٹ فونز اور سوشل میڈیا نے اس خواب کو سچ کردکھایا اور اورآج یہی سوشل میڈیا ایک طاقتور عوامی آواز بن کر ابھرا ہے جہاں ہر خاص و عام اپنی رائے کا بلاجھجک اظہار کر سکتا ہے۔کچھ سال پہلے جب صرف الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا عوام کی آواز سمجھے جاتے تھے۔الیکٹرانک میڈیا میں تو جیسے ریٹنگ اور کمرشل کی ایک دوڑ سی لگی ہے جس کے نتیجہ میں عوامی مسائل پس منظر میں جاتے نظرآرہے ہیں ۔
ایسے میں سوشل میڈیا ایک عوامی پلیٹ فارم بن کر ابھر رہا ہے جہاںعام آدمی سے لیکر شوبز،سیاست اور کھیل سمیت تمام شعبہ جات کی شخصیات موجود ہیں،جہاں ہر کوئی اپنے مسائل سے میڈیا اور حکومت کو اگاہ کرسکتا ہے۔سوشل میڈیا جہاں بہت موثر ثابت ہورہا ہے وہاں اس کا غلط استعمال اسے نقصان بھی پہنچارہا ہے۔ سوشل میڈیا خاص طور پر فیس بک پرجعلی اکائونٹس کی بھرمار ہے۔ماں باپ بیٹے کی پیدائش کیلئے اللہ تعالیٰ سے رو رو کر دعائیں مانگتے نہیں تھکتے ہیں اور وہ فیس بک پر”پرنسز ”اور” باربی ڈول”بنا ہوتا ہے۔ منفی سوچ اور پروپیگنڈابھی سوشل میڈیاکاباقاعدہ حصہ بن رہے ہیں ، ایسی صورت حال میں عام آدمی بھی اس مہم کا حصہ اس طرح بن جاتا ہے وہ بغیر تصدیق کئے پوسٹ کوشئیرکرلیتاہے۔
چاہیے تو یہ تھاکہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ کو ہم محبت ، رواداری اور امن و امان کے فروغ کا زریعہ بناتے ،اس کے زریعے اپنے مسائل سے اگاہی اور تعمیر وطن کا کام لیتے ،لیکن اس کے برعکس سوشل میڈیا (فیس بک) پر موجود فیس بک کے دہشت گردوں نے اپنی شرپسند اور منفی سوچ کے زریعے اس کو لوگوں کو زلیل کرنے اور شرفاء کی پگڑیاں اچھالنے کا زریعہ بنا لیا ہے۔سیاست ،معاشرت اور دین کسی کو نہیں بخشا،اپنی انتہا پسندانہ سوچ کی بدولت سب کو خوب لتاڑا،گھٹیا الزامات اور بہتان بازی میں شرم و حیا کی حدود پار کرنے والوں کی بہادری کا یہ عالم ہے کہ ایسی گھٹیا کاروائی ڈالنے کیلئے فیک آئی ڈیز اور جعلی اکائونٹ استعمال کرتے ہیں۔فیس بک کے ان دہشت گردوں کو لگام دینے کیلئے سائبر کرائم پر قانون سازی کی گئی ،جس کے نتیجے میں پہلی دفعہ سائبرکرائم ایکٹ کا نفاظ 31 دسمبر 2007 کو مشرف گورنمنٹ میں ہوا،بعد ازاں اپریل 2015میں قومی اسمبلی نے ایک ترمیمی بل ”پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز آرڈیننس ”پاس کیا جس میں تین ماہ سے عمر قید اور پچاس ہزار سے لیکر پانچ کروڑ تک جرمانے کی سزا کا تعین کیا گیا۔پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز آرڈیننس نامی اس قانون کا اطلاق موبائل کے زریعے بھیجے گئے پیغام پر بھی ہوگا۔
اس قانون کے نفاظ کے بعداب کسی اور شخص کے نام پر جعلی اکائونٹ بنانے پر جرمانے اور قید کی سزا ہوسکتی ہے۔سیکشن 21کے تحت کسی کی تصویر ،آڈیو یا ویڈیو متعلقہ شخص کی اجازت کے بغیر سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر شائع کرنے والے کو ایک سال تک قید اور دس لاکھ تک جرمانہ یا دونوں سزائیں بیک بھی دی جاسکتی ہیں۔سائبر کرائم ایکٹ کے سیکشن 17اور 18کے مطابق سیاستدانوں کی کارٹون، بلاگ،تجزیہ میںتضحیک کرنا بھی قابل گرفت جرم ہے۔اسی طرح مذہبی منافرت اورملکی مفاد کے خلاف کوئی مواد شائع کرنے اورخوف و ہراس پھیلانے والے کو 14سال قید اور پانچ کروڑ جرمانہ کی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔سیکشن 31میں پاکستان ٹیلی کمیونکشن اٹھارٹی کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ غیر اخلاقی اور قابل اعتراض مواد رکھنے والی کسی بھی ویب سائٹ یا اکائونٹ کو بلاک کر سکتا ہے۔سائبر کرائم ایکٹ کے تحت کسی بھی خلاف ورزی کے مرتکب شخص یاادرے کو بغیر وارنٹ فوری گرفتار کیا جاسکتا ہے اور کیس کی پیروی سات رکنی بینچ کرے گا ۔ فیصلے کے خلاف صرف ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔
اس قانون کا اطلاق صرف انٹرنیٹ پر ہی نہیں بلکہ تصویر کشی اور پیغام رسانی کیلئے استعمال ہونے والے تمام برقی آلات مثلاًکیمرہ اور موبائل فون وغیرہ پر بھی ہو گا۔قانون پر عملدرآمد کا اختیار ”فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی”(ایف آئی اے) کو دیا گیا ہے جو کسی بھی مشکوک شخص یا ادارے کا کمپیوٹر ،لیب ٹاپ ،موبائل فون اور کیمرہ وغیرہ تحویل میں لیکر گرفتار کرسکتی ہے۔ان قوانین کے نفاظ سے یقینی طور پر سماجی اور اخلاقی اقدار کو پامال کرنے والے سوشل میڈیا کے دہشت گردوں کا قلع قمع ممکن ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی اصلاح کرتے ہوئے آئندہ کسی بھی ایسی سرگرمی کا حصہ نہ بنیں جس سے ہم اس قانون کی پکڑ میں آجائیں،اگر ہم نے ابھی بھی اپنی سوچ کو درست سمت میں استعمال نہ کیا تو پھر پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں۔بحثیت محب وطن شہری ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم منفی پروپیگنڈااور اشتعال انگیز موادپھیلانے والے ایسے تمام شر پسندعناصر کی نشان دہی کریں۔
نیشنل رسپانس سینٹر فار سائبرکرائم کے ای میل ایڈریس Helpdesk@Nr3c.Gov.Pk اور ہیلپ لائن 0336-6006060 , 051- 9106384 پر فوری شکایت درج کروائی جائے تاکہ سماجی رابطے کی ویب سائٹس سے ان دہشت گردوں کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔ قانون نافظ کرنے والے اداروں اور ایف آئی اے کی ذمہ داری ہے کہ وہ ”پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز آرڈیننس ”پر عمل درآمد کویقینی بناتے ہوئے سوشل میڈیا کے غلط استعما ل کی روک تھام کیلئے ایسے تمام عناصر جو اپنی ذہنی غلاظت کے ہاتھوں مجبور ہوکر شرفاء کی پگڑیاں اچھال رہے ہیںاورمذہبی و مسلکی منافرت پھیلانے والے شرپسند افراد کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جائے تاکہ وطن عزیز پاکستان میں مثبت اور تعمیری سوچ کو فروغ دیا جا سکے اور سب مل کر اس کی تعمیروترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکیں۔
تحریر: ملک محمد سلمان