تحریر: سجاد گل
ایک لطیفہ سنا کر آپ کو ایک نقطہ سمجھانا چاہتا ہوں ، کہا جاتا ہے کہ ایک عدالت میں امجد نامی ایک شخص پر دو مقدمات دائر تھے پہلا مقدمہ اسکی بیوی کی جانب سے تھا، کہ امجد نامرد ہونے کی وجہ سے بچے پیدا نہیں کر سکتا لہذا اسکی بیوی خلع (ایسی طلاق جو عورت مرد سے عدالت کے ذریعے حاصل کرے) کا مطالبہ کر رہی تھی، دوسرا مقدمہ اسی عدالت میں امجد پر ایک اور عورت نے دائر کروایا کہ اسکا ایک بچہ ہے جو امجد کی ناجائز اولاد ہے،اس عورت کا مطالبہ یہ تھا کہ امجد اس عورت کو ہر ماہ بچے کی کفالت کے لئے خرچ دیا کرے، کچھ عرصہ بعد عدالت نے پہلے مقدمے کا فیصلہ امجد کے خلاف دے دیا کہ میڈیکل رپورٹ اور دیگر شوائد کی بنیادپر واقعی امجد نامرد ہے اور بچے پیدا نہیں کر سکتا
لہذا امجد سے اسکی بیوی کو خلع دلا دی گئی، کچھ عرصے بعد دوسرے مقدمے کا فیصلہ بھی آ گیا جس میں یہ مئوقف اختیار کیا گیاکہ DNA رپورٹ اور دیگر گواہوں کے شوائد کی بنا پر عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ یہ بچہ امجد کی ہی ناجائز اولاد ہے لہذا امجد اسکی کفالت کا پابند ہے کیا خوب انصاف ملا بیچارے امجد کو۔ لگے ہاتھوںایک اور لطیفہ بھی سن لیں،ایک دوکاندار کا ملازم اسکے ١٩ لاکھ روپے لے کر فرار ہو گیا کچھ عرصے بعد پولیس نے اسے گرفتار کر لیا مقدمہ عدالت میں چلا تو چور نے کہا میں تمام پیسے خرچ کر چکا ہوں ،عدالت نے یہ انصاف کیا کہ اس چور کے پاس وہ رقم موجود نہیں لہذا یہ قسط وار ہر ماہ رقم دوکاندار کو ادا کیا کرے گا اور قسط کی رقم ایک ہزار روپے ہو گی،یعنی ایک لمحے میں لوٹی گئی رقم کی واپسی ١٩٠٠ مہینوں میں ہو گی، ١٩٠٠ سو مہینوں کی تقسیم سالوں پر کی جائے تو ١٥٨سال اور ٤ ماہ بنتے ہیں۔
اسکا مطلب یہ کہ دوکاندار کی تین نسلیں پیدا ہو جائیں گی اور وہ خود دنیا سے بستر گول کر جائے گا پھر اسکے بعد اسکا مقدمہ اختتام پزیر ہوگا ،آپ خود بتائیں یہ انصاف ہے یا پھر مذاق، ہمارے ملک کا عجیب ہی نظام ِانصاف ہے مجرم خود اقبالِ جرم کر بھی لے تو اس کا مقدمہ ٢٠ ،،٢٥ سال سے پہلے ختم نہیں ہوتا،اسکی مثال بھی پیشِ خدمت ہے،١٩٩٨ ء میں ایک ایسا مجرم منظر عام پر آیا جسکا نام جاوید تھا اور اس نے اعتراف کیا کہ وہ ١٠٠ سے زیادہ بچوں کا قاتل ہے وہ ہر بچے کو قتل کرنے کے بعد تیزاب کے ڈرم میں ڈال دیتا تھا،اقبالِ جرم کے باوجود اسکا مقدمہ چلتا رہا یہاں تک کہ اس نے ٢٠٠١ ء میں جیل میں خودکشی کر لی،مجھے یقین ہے۔
اگر وہ خودکشی نہ کرتا تو آج تک اسکا مقدمہ چل رہا ہوتا، پٹھانوں کے ہاں ایک پشتو کا مقولہ مشہور ہ جسکا اردو ترجمہ یہ ہے کہ ،،اگر کسی مجرم کو تحفظ دینا ہو تو اسے عدالت کے دروازے پر لے جائو ،،حقیقت یہی ہے کہ ہمارے نظامِ انصاف میں مجرموں کے تحفظ کے لئے ان گنت راہیں موجود ہیں، ہمارے ملک کے عدالتی نظام کی حالت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص قتل کا ارتقاب کر دے اور اسکا مقدمہ عدالت میں چلا جائے تو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اب وہ محفوظ ہے بس تھوڑے بہت عدالتوں کے طواف کرنے پڑیں گے،اس کے برعکس آپ عرب کا عدالتی نظام دیکھیںاس پر رشک آ تے ہوئے سر شرم سے جھک جائے گا،آج جرم ہوا دو چار دنوںمیں مجرم گرفتار،اور اگلے دو چار روز میں سزا ،یہی وجہ ہے کہ دنیا میں سب سے کم جرم عرب ممالک میں ہوتے ہیں۔
جہاں قتل کی سزا قتل ہے نہ کہ ٥٢٣ عدالتی چکر ، چوری کی سزا ہاتھ کا تن سے جدا ہونا ہے نہ کہ ٢٠ ہزار دے کر دوبارہ چوری کا دھندہ شروع کرنا،یہی وجہ ہے کہ ہمارے جرائم میں آئے دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ آپ ایک دن کے اخبار دیکھ لیں بے شمار قتل،چوری ، ڈکیتی اور چھینا چھپٹی کی وارداتیں ملیں گی، اسکا سبب یہی بوگس نظام ہے، اس لئے ہمارے اس ظلم کے نظام کونظامِ انصاف کہنا انصاف کی توہین کے مترادف ہے،یہ انگریز کا دیا مجرموں کے تحفظ کا فرسودہ ،اندھا ظلم کا ناکام نظامِ انصاف ہے۔
تحریر: سجاد گل
dardejahansg@gmail.com
Phon# +92-316-2000009
D-804 5th raod satellite Town Rawalpindi