تحریر: محسن شیخ
فصل آباد عمران خان کے پلان سی سے بند ہونا تھا مگر بند ہونے کے بجائے ایک دن پہلے ہی میدان جنگ بن گیا، فصل آباد پر امن طور پر بند ہونا تھا، مگر گلو بٹوں نے اپنی بد معاشیوں گندے انڈوں ڈنڈوں اور ٹماٹروں سے گندہ کردیا، فصل آباد میں ن لیگی گلو بٹوں نے ایک دن پہلے ہی پی ٹی آئی کے کارکنان کا انڈوں ڈنڈوں اور ٹماٹروں سے استفبال کیا، جس کی وجہ سے فصل آباد میدان جنگ بنا، پر امن احتجاج کرنا ہر سیاسی مذہبی جماعتوں کا جمہوری حق ہوتا ہے، مگر شریف خاندان نے ہمیشہ طاقت کا استعمال کیا، ماڈل ٹائون میں بھی شریف خاندان نے ظلم و بربریت کی انتہا کی، اور دھرنوں کے شروع میں بھی طاقت کا استعمال کرنے کی بہت کوشش کی مگر عوامی طاقت کو دیکھ کر اپنے عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکی۔
عمران خان پلان اے بی کرچکے تو پلان سی بھی مکمل کرنے دیا جاتا، مگر یہ کیا ن لیگی گلو بٹوں نے اپنی بد معاشیوں کے جوہر دیکھانے شروع کردیے، یہ ن لیگی گلو بٹ اتنے بے لگام کیوں ہوگے ہیں، یہ کیسی جمہوریت ہے کہ دوسری جماعت عوام کے حقوق کے لیے احتجاج کرے تو ظلم و بربریت کردی جائے، جب بھی کہیں سے دھواں اٹھتا ہے، تو اسے بے حسی کے ڈنڈوں سے بجھانے کی کوشش کی جاتی ہے، یہ ہمارا دستور بن چکا ہے، حالانکہ دھواں پھونکوں سے ختم نہیں ہوتا پھونکوں سے آگ اور بڑھ جاتی ہے، ہمیشہ اسے صلح کے پانی سے ختم کیا جاتا ہے، ورنہ پلک جھچکتے ہی آگ کی شکل اختیار کرجاتا ہے، ہماری سیاست بھی اب آگ بن چکی ہے۔
گالی گلوچ ہاتم پائی ڈنڈوں گندے انڈوں کا فیشن چل نکلا ہے، ایک دوسرے پر بھتان تراشیاں کرنا کیچڑ اچھالنا محبوب مشغلہ ہوگیا ہے، میڈیا پر ایک دوسرے پر ایسے انگلیاں اٹھاتے ہیں، جسے کوئی اہم معرکہ سر کررہے ہیں۔ ایک طرف گو نواز گو دوسری طرف رو عمران رو کے نعرے لگتے ہیں، مگر اسکا نتیجہ صفر رہتا ہے، نہ عمران ہار مانتا ہے، نہ نواز گو ہوتے ہیں، تماشائی عوام بنے بیٹھے ہیں، ہاں طاہرالقادری صاحب چار ماہ دھرنا دے کر تھک چکے ہیں، اور اب علیل ہے، اللہ انہیں صحت عطا فرمائے، بر سر اقتدار میں آنے والی حکومت کو صرف اپنے ووٹوں کا زعم ہوتا ہے، حکومت عوام کا ذکر تو کرتی ہے مگر عوام کو ریلیف نہیں دیتی، اب عوام بھی ایسی جمہوریت اور حکمرانوں سے تنگ آچکی ہیں۔
جمہوری حکومتوں کی ہمیشہ ہی سے یہ مجبوری رہی ہے کہ اقتدار میں آتے ہی پرانے مہرے چلانے شروع کردیتی ہے، وہ تمام سرکاری افسران جنہیں انکی عدم موجودگی میں معطل کیا گیا تھا، انہیں بحال کردیا جاتا ہے، پھر انہی کی مشاورت سے موجودہ حالات کو ٹھیک کرنے میں ناکام رہتی ہے، غور طلب بات ہے، جو ماضی میں عہدوں پر براجمان رہے کر مسائل کو حل نہیں کرسکے تو وہ دوبارہ بحال ہوکر بھلا کیا کریں گے، ایک اور اہم بات آج تک کوئی جمہوری حکومت اپنی پارٹی میں کوئی تھنک ٹینک نہیں بنا پائی، جو کسی بھی قومی ایشوز پر سوچ سکے سروے کرسکے اور بحرانوں کا بر وقت حل پیش کر سکے۔
ہر آنے والی حکومت صحافت لفافہ اور اپنے پسندیدہ اہل قلم کاروں کا سہارا لیتی ہے، اہل قلم کا کام رائے عامہ کو استوار کرنا ہوتا ہے، لیکن جب کوئی قلم کار ایک ہی شخصیت کو لکھے تو عوام کو پتہ چل جاتا ہے، حکومتوں کو ہمیشہ ہی غیر جانب داروں کی ضرورت ہوتی ہے، بر سر اقتدار حکومت کے پاس کوئی موثر دلیل نہیں ہوتی، ہر حکومتی وزیر شذیر میڈیا پر بیٹھ کر اپنے لیڈر کی بلا وجہ تعریفیں کرتے ہیں، پھر گالی گلوچ اسکے بعد اپوزیشن پر تابڑ طور حملے کرتے ہیں، عوام کو پہلے یہ تماشہ تفریح لگتا تھا، مگر اب عوام ان حکمرانوں اور انکی حرکتوں سے تنگ آچکی ہیں، آج تک بر سر اقتدار کوئی نئی جماعت نہیں آئی، وہی پرانے حکمران اقتدار پر گھوم پھیر کر آجاتے ہیں، تو بھلا وہ کیسے ملکی بحرانوں کو حل کرسکتے ہیں، وہ کیسے سیاسی تعطل کو توڑ سکتے ہیں،
جنہوں نے ماضی میں کچجھ نہیں کیا وہ اب کیا کرسکتے ہیں، ایسے سیاست دانوں کا بار بار اقتدار میں آنا ملک اور عوام کے لیے نقصان کا سبب بنتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج ملک شدید بحران میں مبتلا ہے، پاکستان کے سیاسی لیڈروں میں سمجھ بوجھ اور ویژن نہیں ہے۔ یہ سب سیاسی سودا گر نئے نہیں پرانے ہے، حالانکہ کئی بار اقتدار میں رہے چکے ہیں، انکو تو تجربہ کار نکتہ دان ہونا چاہیے، مگر انہوں نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا۔ عمران خان کنٹینر کی سیاست کررہے ہیں، تو حکومت کو بھی کنٹینر کی سیاست کرنا چاہیے، نواز شریف اپنے ساتھیوں کو لے کر عمران خان کے کنٹینر پر تشریف لے جانا چاہیے، خوشگوار ماحول بنایا جائے گلے ملا جائے گب شب کے ساتھ کھانا کھایا جائے، تو عمران خان بھی لچک کا مظاہرہ کریں گے۔
اپنی بات منوانے کے لیے دوسروں کی دس بات ماننا پڑتی ہے، جب خیر خواہ نتیجہ نکلتے ہیں، عمران خان نے 30 نومبر کو احتجاج کی بات بڑے جارحانہ انداز میں کی تھی، بہت شور شرابہ تھا کہ پتہ نہیں 30 نومبر کو کیا ہوگا، پھر اللہ کے فضل سے سب کچھ احسن طریقہ سے اپنے انجام کو پہنچا، اور اسے عمران کی کامیابی قرار دیا گیا، دونوں پارٹیوں میں کوئی گڑ بڑ نہ ہوئی۔ اگر یہ دھرنا اسلام آباد کی بجائے فیصل آباد میں ہوتا تو پھر کیا ہوتا۔ چار مہینے کا دھرنا دھرے کا دھرا رہے گیا، ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب نے بہت خوب کہا کہ فیصل آباد میں ن لیگیوں نے مرچ مصالحہ کچھ تیز کردیا جس سے لوگ سی سی کررہے ہیں، پہلے جنون پی ٹی آئی پر تھا اب ن لیگ بھی نیم پاگل ہوگئی ہے، جنونی پی ٹی آئی کو فیصل آباد بند کرانے میں ن لیگ کا حائل ہونا سمجھ میں نہیں آیا۔
پی ٹی آئی کو دکانیں بند کرانے کا شوق پورا کرنے دیا جاتا وہ سڑکوں پر ٹائر ہی جلاتے ن لیگ کو تیل ڈالنا ضروری تھا، تصادم اس لیے ہوا کہ ن لیگ درمیان میں حائل ہوئی، ورنہ عمران کے دیوانے دیوانیاں ٹائر جلا کر گو نواز گو کے نعرے لگا کر دن گزار لیتے، دل کا بوجھ ہلکا ہوجاتا، دھینگا مستی اور کشتی کی کیا ضرورت تھی، ایک بندہ میڈیا پر پستول چلاتے ہوئے دیکھایا گیا جیسے وہ کسی بارات میں آیا ہوں، خوشی منا رہا ہوں، کچھ دیر کے بعد ن لیگی بھاگ گئے، قتل کے بعد کوئی نظر نہیں آیا، رانا ثناء اللہ کے گھر کے باہر تحریک انصاف والوں کا پہرہ تھا تو اسے پہلے کارروائی کرنے کی کیا ضرورت تھی، ن لیگ کو چاہیے کہ وہ عمران کو جو مرضی کرے کرنے دیا جائے، اسکی چاہت میں اپنی مرضی شامل نہ کرے تو بہتر ہوگا، ویسے ن لیگی جو اپنے لیے بہتر سمجھتی ہے وہی کرتی ہے۔
تحریر: محسن شیخ