تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
چناب نگر کے قومیائے گئے تعلیمی ادارے قادیانیوں کو واپس کرکے قومی خزانے کو کروڑوں کا نقصان ،سینکڑوں اساتذہ کا مستقبل مخدوش اور ہزاروں طلباء کو قادیانیوں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑا جائے۔ گستا خان رسول سے متعلق عدالتی فیصلوں پرفوری عمل درآمد کرایا جائے۔ حکومت اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے مطابق ارتداد کی شرعی سزا نافذ کرے ۔اور چناب نگر میں سر کاری رٹ قائم کرکے قادیانیوں کوملکی قانون کا پابند کیا جائے۔ملک بھر میں امتناع قادیانیت آرڈیننس پر عملدرآمد کرایا جائے۔قادیانی اوقاف سرکاری تحویل میں لیے جائیں ۔سکولز اور کالجز کے داخلہ فارموں میںعقیدہ ختم نبوت کے حلف نامہ اور نصاب تعلیم میںمضامینِ ختم نبوت شامل کیے جائیں۔قادیانی تخریب کارادارے اور عسکریت پسند تنظیمیںخدام الاحمدیہ ،انصار اللہ،لجنہ امأاللہ اور تنظیم اطفال احمدیہ پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔اور انبیأعلیہم السلام کے کردار پربننے والی فلموں پر مکمل بین ہونا چاہیے۔قادیانی گروہ نے مظلومیت کا سہارا لے کر ہمیشہ عالمی سطح پرپاکستان کوبدنام کیا۔
قادیانی بیوروکریٹس ڈاکٹرعبدالسلام قادیانی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایٹمی راز افشاں کر رہے ہیں۔حکومت کو اپنی پوزیشن واضح کرنا چاہیے کہ ایٹمی توانائی کے شعبوں اورکلیدی آسامیوں پر کتنی تعداد میں ملک دشمن قادیانی تعینات ہیں ۔اور حرمین شریفین میں قادیانیوںکا داخلہ روکنے کے لیے پاکستانی وزارت مذہبی امور نے آج تک کیا اقدامات اختیار کیے ہیں ۔ جبکہ رابطہ عالم اسلامی کے فیصلے کے مطابق بھی قادیانیوںکا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ۔لیکن حکمرانوں نے قادیانیوں کو ٹریول ایجنسیاں دے رکھی ہیں۔قادیانی سعودی عرب کے کون کونسے شہروں میں داخل ہو کرحرمین شریفین کے تقدس کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں جبکہ قادیانیوں کا حرمین شریفین میں داخلہ روکنے کے لیے ضروری ہے کہ شناختی کارڈ میں مذہب کے خانہ کا اضافہ کیا جائے ۔تاکہ مسلم اور غیر مسلم کی شناخت میں آسانی ہو سکے۔مسئلہ ختم نبوت تو روز روشن کی طرح عیاں ہے جبکہ ایمان کے تحفظ کاآزمودہ نسخہ صُلحااور اہل حق سے روحانی وا صلاحی تعلق جوڑنا ہے۔قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا فیصلہ صرف علمائے اکرام اور مفتیانِ عظام کا نہیں تھا۔ بلکہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی ، سیشن کورٹس ،ہائی کورٹس،سپریم کورٹس اور وفاقی شرعی عدالت سے لے کرکینیا،رابطہ عالم اسلامی، انڈو نیشیا اور جنوبی افریقہ کی عدالتوں نے بھی قادیانیوں کے ارتداد پر مہر تصدیق ثبت کی۔جبکہ خیبرپختونخواہ کی حکومت نے تعلیمی نصاب سے خلفائے راشدین کے مضامین حذف کرکے قادیانی اورسامراجی ایجنڈے کی تکمیل کی ہے۔
قادیانی دین اسلام اور پاکستان کے خلاف مسلسل سازشوں میں مصروف ہیں ۔پاک فوج کا ماٹو جہاد ہے۔فوج میں ان کاداخلہ ممنو ع قرار دیا جانااشد ضروری ہے کہ یہ تو اکھنڈ ہندوستان کے حامی ہیں۔اور قادیانیوںکو جہاد کے منکر ہونے کی وجہ سے فوج کے تمام اہم عہدوں سے نکالاجائے۔سامراجی طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلمانوں کو اپنی صفوں میں نظم و ضبط اور اتحاد پیدا کرنا ہوگاپاکستان میں مسلمان اکثریتی اعتبار سے جانے پہچانے جاتے ہیں لیکن پورا نظام قادیانی اقلیت اور چند باقی اقلیتوں کے ہاتھوں میں یر غمال بن چکا ہے گستاخیٔ رسول کے واقعات کابروقت نوٹس لیا جاتاتو غازی ممتاز قادری جیسے لوگ عشق رسالت میں اشتعال پذیر نہ ہوتے۔میڈیا اسلام مخالف قوتوں کو اہمیت دیتا ہے۔ ختم نبوت کی پاسبانی کرنیوالوں پر اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتوں کا نزول ہوتاہے۔عقیدہ توحید کا دفاع کرناگواہان نبوت کا دفاع کرنا ہے۔مرزا قادیانی کی کتب کذب بیانی اور تضادات سے بھری پڑی ہیں۔ جن کومیرے1972 میں لکھے گئے مختصر پمفلٹ “آئینہ مرزائیت” میں دیکھا جاسکتا ہے۔ جسے1974میں اس وقت کے ربوہ(چناب نگر) اسٹیشن پر نشتر کے طلباء پر حملہ کرنے اور انہیں شدید زخمی کر ڈالنے کے بعد بننے والے لاہور ہائیکورٹ کے تین رکنی بینچ(جس کی سربراہی جسٹس صمدانی کر رہے تھے)میں پیش کیا گیا تھااور اس کمیشن نے اس پمفلٹ کے مندرجات کو ہو بہومکمل درست قرار دیا تھا۔اسی لیے توقومی اسمبلی میں قادیانیت پر بحث کے دوران( جس میں قادیانیوں کا پاکستانی سربراہ بھی بمعہ قادیانی لٹریچرطلب کیا گیاتھا) اس وقت کے جید علمائے کرام جو کہ ممبران اسمبلی بھی تھے نے اس پمفلٹ میں درج شدہ ریفرنسزکو دلائل کا موضوع بنایا تھا۔اسلام کے تحفظ کے ساتھ ملک کے دفاع کا فریضہ بھی ہر مسلمان پر عائد ہوتا ہے۔قادیانی گروہ اپنے اکھنڈ بھارت کے الہامی عقیدہ پر قائم ہے۔
ملک میں قتل و غارت گری پر یقین رکھنے والوں کی خالص لسانی جماعتیں قادیانی عقائد کو تغیانی دے ہی ہیں ۔اکابرین ختم نبوت کی دینی و ملی جدوجہدتاریخ کا درخشاں باب ہے۔ آزاد کشمیر سمیت ملک کے سرحدی علاقہ جات میں قادیانی سادہ لوح مسلمانوں کوروشن مستقبل اور بیرون ملک جانے کے سبز باغات دکھاکراسلام سے برگشتہ کر رہے ہیں۔ قادیانی تھرپارکر ،کراچی ،پنجاب بھر اور بالخصوص بھیرہ کے گردو نواح میںجال پھیلا رہے ہیں۔ غریب مسلمانوں کورقم ، روزگار اور خوبصورت لڑکیوں ( جنھیں مرتدین قادیانی حوریں کہتے ہیں ) سے شادی کی لالچ دے کربیعت فارم پر کر کے مرتد بنا یا جارہا ہے۔ انہوں نے خود مرتد و زندیق ہونے کے باوجود دیگر مسلمانوں کو مرتد (قادیانی ) بنانے کی سرگرمیاں تیز کردی ہیں جب قادیانی بھاری رقوم دیتے ہیں تو بیعت فارم لازماً پر کرواتے ہیں ۔قادیانی اپنی قانونی حیثیت تسلیم کر لیں اور اقلیت میں رہتے ہوئے اپنے مُردوں کومسلمانوں کے قبرستانوں میں دفنانے سے گریز کریں۔کلیدی آسامیوں پر براجمان سکہ بند قادیانی قومی خزانہ سے قادیانیت کوشیلٹر مہیا کر رہے ہیں ۔مغربی ممالک اور افریقی ریاستوں میں قادیانی گروہ کی کفریہ سرگرمیوں کو روکنے کے لیے ایک وسیع اور مضبوط پلیٹ فارم اور متحرک اور باصلاحیت رجالِ کار تیار کرنا ہوں گے۔ قادیانی عبادت گاہوں پرکلمہ طیبہ ، قرآنی آیات اور اسلامی شعائر کا استعمال قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی کا واضع ثبوت ہے۔ شدت پسند قادیانیوں نے آئین پاکستان کی روشنی میں اپنے آپ کو اقلیت تسلیم کرنے کی بجائے حربی باغیوںکا کرداراپنایا ہوا ہے بیرون ممالک اور میڈیا پر مظلومیت کا جھوٹا واویلاکرنے اورمغربی مراعات حاصل کرنے والے قادیانیوں کے خلاف عدالتی کاروائی عمل میں لائی جائے۔ قادیانی پاکستان اور مسلمانوں کی کردار کشی کرنے کے شرمناک عمل میں مصروف ہیں۔
ناموس رسالت اور عقیدہ ختم نبوت کے دفاع کے لیے علمائے حق، خانقاہوں کے روحانی اثرات اور پیران عظام کے عملی کردار کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا اسرائیلی فوج میں شامل ہو کر600تربیت یافتہ قادیانی پاکستان میں دوبارہ واپس آچکے ہیں انھیں فوراً گرفتار کیا جانا اشد ضروری ہے۔قادیانیوں نے توہندوستان میں اپنا ترکہ نہ چھوڑنے کے باوجود پاکستان میں ہندو ترکہ حاصل کیا ہے تمام ہندوئوں کی جائدادیں جو انھیں الاٹ کی جاچکی ہیں وہ واپس لی جائیں ۔یورپی یونین کی طرف سے پاکستان کے آئین میں تحفظ ناموس انبیاء قانون کے خاتمے کا مطالبہ قابل مذمت ہی نہیں بلکہ ناقابل قبول ہے موجودہ حکومت ِپاکستان قادیانیوں کی در پردہ سرپرستی ترک کرے اور یورپی یونین کو تنبیہ کرے کہ وہ آئندہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے باز رہے قادیانی جماعت ایک عرصہ سے اس تگ و دو میں لگی ہوئی ہے کہ 1974کی قادیانیت کے متعلقہ آئینی ترامیم کو ختم کرایا جائے۔قادیانی جماعت کے افراد مسلمانوں سے جدا گانہ تشخص ، کفریہ عقائد و نظریات رکھنے کے باوجوداپنے آپ کو مسلمان کہلانے پر بضد ہیں جبکہ ان کے غیر اسلامی ہی نہیں بلکہ اسلام دشمن عقائد رکھنے کی ہی بنیاد پریہ جماعت اسلام سے کٹ چکی ہے۔ آئینی طور پر انھیں غیر مسلم قرار دیا جاچکا ہے مگر وہ اپنی روائتی سر کشی و باغیانہ فطرت کے باعث اپنے آپ کو مسلمان کہلانے اور باور کرانے پر بضد ہیں ۔اسلامی شعائر کی بے حرمتی ،آئین پاکستان کی توہین و تضحیک ان کا روزمرہ کا معمول بن چکا ہے مگر پوری دنیا میں جہاں بھی مسلمان بستے ہیں وہ انھیں کافر ہی سمجھتے ہیں اور مُرتدو زند یق قرار دیتے ہیں
اگر اسی طرح ہر قسم کے قادیانی ،لاہوری مرزائی وغیرہ اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت نہ سمجھیں تو پھر اسلامی شریعت اور قوانین خدا وندی اور آئین پاکستان کے تحت ان کے مرتدو زندیق قرار پانے میں کوئی شائبہ تک نہ ہے جس کی کم ازکم سزاگردن ذدنی ہی ہے ۔بنگلہ دیش کی ہائیکورٹ کا قادیانی کتب ، جرائد اور لٹریچر کی اشاعت پر پابندی برقرار رکھناتحفظ ِختم نبوت کی تحریکوں کی فتح ہے۔ ہمارے ہاں بھی قادیانی جرائدو رسائل اور ان کے میڈیا چینل پر پابندی عائد کی جائے۔ چناب نگر میں قادیانیوں کے اسلحہ کے ذخائر اور عقوبت خانوں کے خلاف آپریشن شرع کیا جائے قادیانی عبادت گاہوں کی مساجد سے مشا بہت ختم کی جائے ۔یہ بھی واضح رہے کہ 1974میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوانے میں شیعہ سنی دیو بندی بریلوی اہلحدیث سبھی نے مل کر جدو جہد کی تھی اب جہاں کہیں بھی ان مسلمان فرقوں کے معمولی اختلافات کی وجہ سے لڑائی جھگڑا یا سر پھٹول ہوتی ہے اس میں در پردہ انھی مرتدین کامذموم ہا تھ لازمی ہوتا ہے۔
تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری