counter easy hit

آئیے ایمان تازہ کریں

Story

Story

تحریر : مسز جمشید خاکوانی
کبھی کبھی دل سیاست کی چکربازیوں سے اوب جاتا ہے لگتا ہے کہیں بھی کچھ اچھا نہیں رہا ،کہیں سچ نہیں ہر طرف جھوٹ ہے ریا کاری ہے مکاری ہے سازشیں ہیں بس من چاہتا ہے کہیں ایسی جگہ جایا جائے جہاں ایسا کچھ نہ ہو اور یقین کریں قران مجید واحد کتاب ہے جس میں کھو کر ساری دنیا بھول جاتی ہے ہر داستان ایک الگ ہی جہان رکھتی ہے ایسی ہی ایک داستان اصحاب کہف کی ہے۔

قران پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ،کیا آپ خیال کرتے ہیں کہ غار والے اور پہاڑ والے ہماری عجائبات میں سے کچھ تعجب کی چیز تھے ؟ وہ وقت قابل ذکر ہے جبکہ ان نوجوانوں نے اس غار میں جا کر پناہ لی پھر کہا کہ ہمارے پروردگار!ہم کو اپنے پاس سے رحمت کا سامان عطا فرمائیے اور ہمارے لیے اس کام میں درستی کا سامان مہیا کر دیجئے”سو ہم نے اس غار میں ان کے کانوں پر سالہاسال تک نیند کا پردہ ڈال دیا پھر ہم نے ان کو اٹھایا تاکہ ہم معلوم کر لیں کہ ان دونوں گروہ میں سے کون سا گروہ ان کے رہنے کی مدت سے زیادہ واقف تھا ۔” (سورة کہف)ان آیات میں اصحاب کہف کا قصہ بیان کیا گیا ہے ان آیات کا مطلب یہ ہے کہ کہ اللہ کی قدرت اور سلطنت کے اعتبار سے اصحاب کہف کا معاملہ کوئی زیادہ قابل تعجب نہیں ہے اس لیے کہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش ،شب و روز کا اختلاف ،سورج ،چاند اور ستاروں کا مسخر ہونا سب اللہ تعالی کی قدرت عظیمہ کا پتہ دیتے ہیں کہ اللہ تعالی جو چاہتے ہیں کرتے ہیں ان کو کوئی عاجز نہیں کر سکتا (بے شک) کہف اصل میں پہاڑ کے اندر بنی ہوئی غار کو کہتے ہیں جس میں ان لوگوں نے پناہ لی تھی اور یہ رقیم ایلہ کے قریب ایک وادی ہے۔

حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ رقیم سے مراد کتاب ہے حضرت سعید فرماتے ہیں کہ رقیم پتھر کی وہ تختی ہے جس پر انہوں نے اصحاب کہف کے واقعات لکھ کر غار کے دروازے پر لٹکا دیا تھا اس غار کے پہاڑ کا نام ” بنجلوس ” ہے اور غار کا نام ”حیزم” اور ان کے کتے کا نام ”حمران ” تھا ۔یہ نوجوان اپنے دین کو بچانے کی خاطر اپنی قوم سے بھاگ نکلے تھے اور ایک پہاڑ کے غار میں جاکر پناہ لے لی تھی تاکہ اپنی قوم سے روپوش ہو سکیں غار میں داخل ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ سے اس کی رحمت و لطف کو مانگتے ہوئے کہنے لگے ”اے ہمارے پروردگار! تُو اپنے پاس سے ہم پر رحمت فرما کہ ہم اپنی قوم سے مخفی رہیں اور ہمارا مقدر اور انجام بھی اچھا بنا دے

Paigham-e-Hidayat

Paigham-e-Hidayat

۔”

وہ لوگ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے تھے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ہم نے انکی ہدایت میں اور ترقی کر دی تھی اور ہم نے ان کے دل مضبوط کر دی ے جبکہ وہ پختہ ہو کر کہنے لگے کہ ہمارا رب تو وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے ہم تو اسے چھوڑ کر کسی معبود کی عبادت نہ کریں گے کیونکہ اس صورت میں ہم نے یقیناً بڑی بے جا بات کہی یہ جو ہماری قوم ہے انہوں نے خدا کو چھوڑ کر اور معبود قرار دے رکھے ہیں ۔یہ لوگ ان معبودوں پر کھلی دلیل کیوں نہیں لاتے تو اس شخص سے زیادہ کون غضب ڈھانے والا ہے جو اللہ پہ جھوٹی تہمت لگائے اور جب تم ان لوگوں سے الگ ہو گئے ہو اور ان کے معبودوں سے بھی مگر اللہ سے تو تم غار میں چل کر پناہ لو تم پر تمہارا رب اپنی رحمت پھیلا دے گا اور تمہارے لیے تمہارے اس کام میں بھی کامیابی کا سامان درست کر دے گا ”سورة الکہف)۔

یہ چند نوجوان تھے جو دین حق کو خوب قبول کرنے والے اور ان بوڑھوں سے زیادہ راہراست پر تھے جنھوں نے حد سے تجاوز کیا اور دین باطل میں مبتلا ہوئے ۔حضرت مجاہد فرماتے ہیں مجھے یہ خبر پہنچی کہ بعض کے کانوں میں بالیاں تھیں پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو ہدایت سے نوازہ اور تقویٰ کی دولت عطا فرمائی چنانچہ وہ اپنے رب پر ایمان لائے یعنی خداکی واحدانیت کا اقرار کیا اس بات کی گواہی دی اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے کہا جاتا ہے کہ وہ دین مسیحی پر تھے لیکن بطاہر معلوم یہی ہوتا ہے کہ وہ لوگ ملت نصرانیہ سے پہلے تھے کیونکہ اگر وہ دین نصرانیت پر ہوتے تو یہود کے علماء ان کے واقعات کو محفوظ کرنے کا اہتمام نہ کرتے ۔۔جبکہ ابن عباس فرماتے ہیں قریش نے مدینہ میں یہود کے علماء کے پاس کچھ لوگوں کو چند ایسی باتیں معلوم کرنے کے لیے بھیجا جن کے زریعے وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا امتحان لے سکیں چنانچہ ان علماء نے کہا ان سے اصحاب کہف کا واقعہ،زولقرنین کا قصہ اور روح کی حقیقت پوچھو۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ باتیں اہل کتاب کی کتب میں محفوظ ہیں اور ان کا زمانہ دین عیسوی پر مقدم ہے واللہ علم۔

بہت سے مفسرین نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ یہ لوگ (اصحاب کہف)روم کے شہزادے اور سردار تھے ایک دن وہ قوم کے کسی میلہ پر نکلے جو قوم سال میں ایک دن سب جمع ہوا کرتی تھی اور بتوں کی پوجا اور ان کے نام پر جانور زبح کرتی تھی اس قوم کا ایک ظالم و جابر بادشاہ تھا جس کا نام ” دقیانوس ” تھا جو لوگوں کو بت پرستی کا حکم اور ترغیب دیا کرتا تھا چنانچہ جب لوگ اس میلہ میں نکلے تو نوجوانوں کا یہ گروہ بھی اپنی قوم اور ابائواجداد کے ساتھ نکلا جب انہوں نے اپنی قوم کے عمل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تو تو جان گئے کہ جو بت پرستی اور نذر نیاز کے کام یہ قوم کر رہی ہے اس کے لائق صرف وہ ذات ہے جو زمیں و آسمانوں کی خالق ہے ۔چنانچہ ہر ایک اپنی قوم سے خلاصی حاصل کرنے اور ان سے کنارہ کشی اختیار کرنے لگا ان میں سے ایک آیا اور ایک درخت کے سایہ کے نیچے بیٹھ گیا پھر دوسرا آیا وہ بھی درخت کے نیچے بیٹھ گیا پھر ایک اور آیا پھر اور آیا اور بیٹھتے گئے لیکن کوئی بھی ایک دوسرے کو جانتا نہیں تھا بس ان کو اسی ذات نے اس جگہ جمع کر دیا تھا جس نے ان کے دلوں کو ایمان پر جمع کیا تھا الغرض ہر شخص دوسرے سے اپنا دین و ایمان چھپانے لگا کسی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ بھی اس جیسا ہے یہاں تک کہ ان میں سے کسی نے یہ کہا اے قوم! خدا کی قسم تمہیں تمہاری قوم سے صرف ایک ہی چیز نے الگ کیا ہے۔

اس لیے ہر ایک کو چاہیے کہ اپنی حقیقت ظاہر کر دے چنانچہ ایک نوجوان نے کہا خدا کی قسم میں تو ان سے اس لیے الگ ہو گیا کہ جب مجھے یقین ہو گیا میری قوم باطل پر ہے صرف وہی ذات عبادت کی مستحق ہے جس کا کوئی شریک نہیں یعنی اللہ تعالیٰ ہی عبادت کے لائق ہے جو زمین و آسمان اور ان کے درمیان موجود تمام مخلوقات کا خالق ہے ۔پھر ایک اور نوجوان اٹھا اس نے کہا خدا کی قسم میرا بھی یہی حال ہے حتی کہ وہ سب ایک ہی بات پر متفق ہو گئے اور ایک ہاتھ کی طرح اور مخلص بھائیوں کی طرح ہو گئے پھر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے ایک عبادت خانہ بنایا اس سے ان کی قوم کو معلوم ہو گیا تو انہوں نے اپنے بادشاہ کو مخبری کر دی بادشاہ نے ان کو حاضر کر کے پوچھا تمہارا معاملہ کیا ہے اور تم کس دین پر ہو؟انہوں نے ٹھیک ٹھیک جواب دیا اور اس کو اللہ کی طرف دعوت دی بادشاہ نے دعوت توحید کا انکار کیا ،انہیں ڈرایا دھمکایااور ان کے بدن سے زینت والا لباس اتار دینے کا حکم دیا کہ اپنا برا حال دیکھیں گے تو سابقہ دین پر لوٹ آئیں گے لیکن اللہ کے فضل سے انہوں نے اپنے دین کو اس فتنے سے بچانے کی خاطر وہاں سے راہ فرار اختیار کی ۔وہ ایک غار کی طرف نکلے اور اس میں پناہ لے لی قوم نے ان کو اپنے اندر نہ پایا بادشاہ نے بھی خوب تلاش کروایا لیکن کہتے ہیں کسی کو کامیابی نہ ملی اللہ تعالیٰ نے بادشاہ کو انکی خبر بھلا دی۔

بعض کہتے ہیں کہ انکی قوم کامیاب ہو گئی اس غار کے دروازے پر کھڑے ہوئے جس میں وہ داخل ہوئے تھے اور کہا جس سزا کا ہم ان سے قصد کرتے تھے وہ اس سے زیادہ ہے جو انہوں نے اپنی جانوں کے ساتھ کیا چنانچہ بادشاہ نے حکم دیا غارکا دروازہ بند کر دیا جائے تاکہ یہ لوگ اپنی جگہ پر ہی ہلاک ہو جائیں اور ایسا ہی کیا گیا لیکن یہ بات صحیح نہیں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ سورج کی روشنی صبح و شام ان کے غار میں آتی ہے بعض علماء کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو طویل نیند سلایا تو انکی آنکھیں اس عرصے میں بند نہیں ہوئیں تاکہ ان کو کوئی گزند نہ پہنچے اور تازہ ہوا لگتی رہے تاکہ ان کے اجسام تازہ رہیں اسی لیے ارشاد فرمایا اے مخاطب ! تُو ان کو جاگتا ہوا خیال کرتا ہے حالانکہ وہ سوئے تھے ۔بعض علماء فرماتے ہیں کہ سال میں دو مرتبہ انکی کروٹ بدل دی جاتی تھی کیونکہ اگر انکی کروٹیں نہ بدلی جاتیں تو زمین کی مٹی ان کو ختم کر دیتی۔

ان کا کتا غار کے دروازے پر گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا جیسے کتوں کی عادت ہوتی ہے یہ اس کی طبیعت و فطرت ہے کہ وہ دروازے پر ایسے بیٹھا ہوتا ہے جیسے پہرہ دے رہا ہو ۔اصحاب کہف کی برکات سے ان کا کتا بھی مستفیض ہوا اس کو بھی ان کے ساتھ نیند آگئی بعض کہتے ہیں یہ ان میں سے کسی کا شکاری کتا تھا اور بعض کہتے ہیں یہ بادشاہ کے باورچی کا کتا تھا جو ان نوجوانوں کے ساتھ شامل تھا ۔اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسا ذی ہیبت و جلال بنا دیا تھا کہ جو دیکھتا مرعوب ہو جاتا تاکہ کوئی شخص ان کے قریب نہ جائے اور انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچے حتی کہ ان نوجوانوں نے اپنی مقررہ مدت پوری کی اور جب تک اللہ کو منظور ہوا وہ سوئے رہے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں جس طرح ہم نے ان کو سلایا تھا اسی طرح ان کو اٹھایا کہ ان کے بدن صحیح و سالم تھے اور ان کے جسم کے بال اور آنکھیں سب کچھ ٹھیک تھا ان کی ظاہری حالت میں کوئی فرق نہ آیا حالانکہ 309 سال کا طویل عرصہ گذر چکا تھا جب وہ بیدار ہوئے تو ایک دوسرے سے پوچھنے لگے تم کس قدر سوئے رہے؟بعضوں نے کہا کہ غالباً ایک دنیا ایک دن سے بھی کچھ کم سوئے رہے ہونگے اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ غار میں دن کے ابتدائی حصے میں داخل ہوئے تھے اور انکی بیداری دن کے آخری حصے میں ہوئی تھی۔

اسی لیے انہوں نے کہا کہ شائد ایک دن سے بھی کچھ کم عرصہ سوئے ہونگے گویا ان کو زیادہ سونے کے معاملے میں ایک طرح کا تردد ہوا پھر وہ اہم چیز کی طرف متوجہ ہوئے یعنی کھانے پینے کی احتیاج ،کہنے لگے کسی کو اس شہر کی طرف بھیجو جہاں سے تم نکل کر آئے ہو اور اس کو چاندی کے یہ سکے دو تاکہ وہ پاکیزہ اور حلال کھانا خرید لائے اصل میں جب وہ اپنے گھروں سے نکلے تھے تو کچھ پیسے اپنے ساتھ لے لیے تھے کچھ رقم تو صدقہ کر دی اور کچھ ان کے پاس رہ گئی تھی بحرحال انہوں نے کسی کو وہ پیسے دے کر بھیجا اور اس کو یہ بھی کہا آنے جانے اور خرید وفروخت کے وقت کسی کو بھی ہمارے ٹھکانے کی خبر نہ ہو جس قدر ممکن ہو سارا معاملہ پردہ اخفا میں رہے کیونکہ اگر دقیانوس کے ساتھیوں کو تمہارے ٹھکانے کا پتہ چل گیا تو وہ طرح طرح کا عذاب دے کر یا تو سابقہ دین میں لوٹا لیں گے یاتم مارے جائو گے اگر خدانخواسطہ تم نے ان کی بات مان لی ان کے مذہب کو دوبارہ اختیار کر لیا تو تم نہ دنیا میں کامیاب رہو گے نہ آخرت میں۔

اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے یعنی ہم نے لوگوں کو ان پر مطلع کر دیا تاکہ وہ لوگ اس بات کا یقین کر لیں کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے اور یہ کہ قیامت میں کوئی شک نہیں ۔بہت سے علماء کہتے ہیں کہ اس زمانے میں لوگوں کو مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے اور قیامت کے معاملے میں شک پیدا ہو گیا تھا ۔حضرت عکرمہ فرماتے ہیں ان کا ایک گروہ کہتا تھا کہ ارواح کو تو دوبارہ زندہ کیا جائے گا مگر اجسام کو نہیں ،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس پر حجت و دلالت اور نشانی کے طور پہ اصحاب کہف کو دوبارہ زندہ کیا علماء نے یہ بھی ذکر کیا کہ جب وہ خوردونوش کے لیے ایک آدمی خریداری کرنے شہر گیا تو اسے باہر کی دنیا عجیب سی نظر آئی ۔ادھر ادھر چلتے ہوئے شہر پہنچا کہتے ہیں اس کا نام افسوس تھا وہ سمجھتا تھا کہ ابھی زمانہ کچھ زیادہ نہیں گذرا حالانکہ صدیاں بیت چکی تھیں اور کئی نسلیں گذر چکی تھیں لوگوں میں تبدیلی آچکی تھی وہ علاقے بھی بدل چکے تھے جب شہر پہنچا تو اس کو شہر کی وہ علامات نظر نہ آئیں جن کو وہ جانتا تھا۔

وہ شہر کے کسی آدمی کو بھی نہیں پہچان رہا تھا دل میں حیران ہو کر کہنے لگا کہیں میں خواب تو نہیں دیکھ رہا ہوں یا کہیں مجھے جنون تو لاحق نہیں ہو گیا ہے پھر کہنے لگا مجھے یہاں سے جلدی نکل جانا چاہیے پھر ایک آدمی کے پاس گیا جو کھانے کی اشیا بیچ رہا تھا اس کو وہ پیسے دیے جو اس کے پاس تھے اور کہا مجھے اس کے عوض کھانا دے دو آدمی نے ان پیسوں کو دیکھا تو اسے عجیب لگے اس نے وہ پیسے اپنے ہمسائے کو دیے کرتے کرتے وہاں کے لوگ ان سکوں کو دیکھنے لگے اور کہنے لگے ہو سکتا ہے اس شخص کو خزانہ ملا ہے۔ چنانچہ انہوں نے پوچھا تمہیں یہ پیسے کہاں سے ملے ؟ہو سکتا ہے یہ خزانہ ہو اور تم کون ہو؟ وہ کہنے لگا میں اسی شہر کا رہنے والا ہوں میرا زمانہ وہ ہے جب یہاں دقیانوس بادشاہ حکومت کیا کرتا تھا لوگ اسے دیوانہ سمجھ کر اپنے حاکم کے پاس لے گئے حاکم نے حقیقت حال معلوم کی تو اس نے ساری حقیقت اس کو بتائی معلوم پڑنے پر بادشاہ اور شہر کے سب لوگ اس کے ساتھ اس غار کی طرف نکلے جب وہ انہیں لے کر اس غار تک پہنچا تو انہیں کہا مجھے ذرا پہلے جانے دو تاکہ میں اپنے ساتھیوں کو بتادوں ۔وہ غار میں داخل ہوا کہا جاتا ہے۔

لوگوں کو معلوم نہ ہو سکا وہ غار میں کیسے گیا اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر غار والوں کا حال مخفی رکھا۔۔۔ کہا جاتا ہے وہ لوگ بھی اس کے ہمراہ غار میں داخل ہوئے تھے اور ان کو دیکھا اور ان کے بادشاہ نے غار والوں کو سلام بھی کیا اور ان سے معانقہ بھی کیا ایک قول کے مطابق وہ بادشاہ مسلمان تھا اس کا نام ”تندوسیس ” تھا کہتے ہیں بادشاہ سے گفتگو کر کے ان کو بڑی انسیت محسوس ہوئی پھر الوداعی سلام کہہ کر اپنی خواب گاہوں کی طرف لوٹ گئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو وفات دے دی واللہ علم ،اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے ان کے غار کا دروازہ بند کر دو اور ان کو انکے حال پر چھوڑ دو بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے یہ بات کہی تھی وہ اہل حکومت تھے ۔۔ابن عباس فرماتے ہیں وہ سات افراد تھے ان کے سونے سے لے کر دوبارہ زندہ ہونے اور اہل زمانہ کے مطلع ہونے کے درمیان جو عرصہ اصحاب کہف کا گذرا قمری سال کے مطابق تین سو نو سال کا تھا اور شمسی سال کے مطابق تین سو سال کا تھا!

Mrs Jamshed Khakwani

Mrs Jamshed Khakwani

تحریر : مسز جمشید خاکوانی