تحریر : عبدالرزاق
ایک خبر نظروں سے گزری کہ ایک ٹریفک وارڈن کو سڑک پر گرے 12لاکھ روپے ملے جو اس نے رقم کے اصل مالک کے حوالے کر دئیے۔یہ خبر اتنی خوش آئند ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے ۔میں دل کی گہرائیوں سے اس ایماندار اور روشن ضمیر ٹریفک وارڈن کو اس قابل فخر کارنامہ پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ایک ایسے دور میں جہاں پائی پائی کے لیے جنگ و جدل کا میدان سرگرم ہو 12لاکھ کی خطیر رقم کو آنکھ آٹھا کر نہ دیکھنا قابل ستائش عمل ہے۔ انسان ایماندار ہوتا ہے یا پھر بے ایمان ۔میرا مشاہدہ ہے جتنا ایک کرپٹ اور بے ایمان شخص کو کرپشن کر کے دولت اکٹھی کرنے میں مزہ آتا ہے اس سے کئی درجہ بڑھ کر ایک ایماندار آدمی کو اپنے ایمان کی حفاظت کرنے میں لطف آتا ہے۔
بے ایمان شخص کا ضمیر مردہ ہوتا ہے جبکہ ایماندار شخص ضمیر کی معمولی سی خلش پر بھی چونک اٹھتا ہے ۔ بے ایمان جائز و ناجائز کی تمیز روا رکھے بنا دولت کے ڈھیر جمع کرنے میں مگن رہتا ہے جبکہ صاحب ایمان کو یہ تشویش کھائے جا رہی ہوتی ہے کہ کہیں کوئی حرام کا لقمہ میری اور میرے بچوں کی رگوں میں نہ اتر جائے ۔بے ایمان کا رشتہ صرف دولت سے استوار ہوتا ہے باقی رشتوں کی اس کے ہاں کوئی اہمیت نہیں ہوتی جبکہ ایماندار کو رشتہ دار اس لیے چھوڑ جاتے ہیں کہ وہ ان کی خاطر ناجائز کام کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔
بے ایمان زندگی کی پرلطف لذتوں سے سر شار تکبر،غرور اور خود پسندی کی علامت بن جاتا ہے جبکہ ایماندا ر عاجزی و انکساری کا مرقع دکھائی دیتا ہے اور خوش اسلوبی سے زندگی کے کٹھن شب و روز سے نبرد آزما۔ بے ایمان کو قدم قدم پر پر آسائش زندگی خوش آمدید کہتی ہے جبکہ ایماندار کوہر جگہ محرومی کا سائن بورڈ دیکھنا پڑتا ہے ۔اسے معمولی سے معمولی دلی خواہش کو قربان کرنا پڑتا ہے ۔ عمدہ لباس،اچھے جوتے ،پر آسائش رہن سہن ،بچوں کی مہنگے سکولوں میں تعلیم،گاڑی،کوٹھی جیسے بنیادی معاملات زندگی پر بھی سمجھوتا کرنا پڑتا ہے ۔ اگرچہ یہ نقشہ ہر ایماندار کے گھر کا نہیں ہے مگر اایمانداروں کی واضح تعداد ان ہی حالات کی عکاس ہے۔
یہ حقیقت اپنی جگہ درست لیکن ایک بات جو کم و بیش سب کے مشاہدے میں ہے کہ جو ایمان دار ہے ،صر اط مستقیم کا راہی ہے۔ حق گو ہے اور سچ کا ساتھی ہے۔ باطل کو جھٹلانے والا ہے ۔صادق ،امین اور شکر گزار ہے۔ وہ قلبی سکون جیسی انمول دولت سے مالا مال ہے ۔دکھ درد کی موجودگی کے باوجود مطمن ہے اور کسی حد تک مہلک بیماریوں سے بھی محفوظ ہے ۔لیکن کرپٹ اور بے ایمان شخص جس کا مقصد ہی دوسروں کی دولت ہتھیانا ہے ۔ دوسروں کا حق چھیننا ہے بے چینی، اضطراب اور مہلک بیماریوں کا شکار ہے ۔ہر قسم کے وسائل کی دستیابی کے باوجود دل کا سکون عنقا ہے اور زندگی کی حقیقی خوشی و مسرت کی حرارت سے تہی دامن ہے۔
ماہی بے آب کی طرح تڑپتے اس کردار کو پھر بھی دولت سے عشق ہے اور لالچ کی پٹی اس کی آنکھوں سے اترنے کا نام ہی نہیں لیتی ۔ اگرچہ موجودہ دور میں دولت کی قدرو قیمت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ۔ زندگی کے ہر موڑ پر انسان اس کا محتاج دکھائی دیتا ہے لیکن اگر یہ جائز طریقوں سے میسر ہو تو اس کے حصول میں کوئی امر مانع نہیں ہے جبکہ اسی دولت کو حاصل کرنے کی خاطر ایمان اور ضمیر کا سودا کرنا پڑے تو گھاٹے کا سودا ہے۔ کیا ضرورت ہے ذلت کا کلنک ماتھے پر لگوا کر دولت کے پہاڑ استوار کیے جائیں۔
حق داروں کا حق چھین کر اور اللہ کی مخلوق کا استحصال کر کے اپنے صحن میں خوشحالی کا دیا روشن کیا جائے اور دوسروں کی امید کا چراغ بھی گل کر دیا جائے۔ اطمینان قلب اس طرح کیسے نصیب ہو۔ قبرستان ایسے ہزاروں ،لاکھوں افراد سے بھرے پڑے ہیں جنہوں نے اپنی ساری عمر دولت کے ڈھیر جمع کرنے میں صرف کر دی اور پھر جب دولت کے مینار تعمیر ہو گئے تو خود دنیا سے رخصت ہو گئے ۔ان لوگوں نے نہ جانے کتنے ناجائز کاموں کی بدولت حسب منشا دولت اکھٹی کی اور جب اپنے مطلوبہ ٹارگٹ دولت کے مینار تک پہنچے تو خدا نے رسی کھینچ لی اور اپنے پاس بلا لیا اور یوں ان کی زندگی کی گاڑی چھوٹ گئی۔ان کے کام تو صرف وہ پیسہ آیا جو کھا پی گئے یا اللہ کی راہ میں خرچ کر گئے ۔ باقی تو ساری دولت دوسروں کی ہے۔
کم بخت ساری عمر دوسروں کی خاطر جہنم خریدتے رہے اور اربوں،کھربوں دوسروں کے لیے چھوڑ گئے ۔دولت تو آئی دوسروں کے حصہ میں اور جہنم کا طوق ان کے گلے پڑ گیا۔اب جمع شدہ دولت پر آل اولاد باہم جنگ و جدل میں مصروف ہے اور ایک دوسرے سے دست و گریبان ہے ۔ یہ وہی اولاد ہے جو ان کی موجودگی میں یک جان تھی ۔ ان میں سے ہوا کا گزر بھی ممکن نہ تھا اب یہ ایک دوسرے کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے اور کہیں کہیں تو نوبت قتل و غارت تک جا پہنچی ہے اور کورٹ ،کچہری میں بیٹھے ہزاروں وکلا کے گھر کا چولہا ان ہی لوگوں کی فیسوں کے دم سے گرم ہے۔
اگر ہم لالچ ،حرص اور طمع کی گرد صاف کر کے عقل و ادراک کی کھڑکیوں کو کھول کر سوچیں تو معلوم ہو گا کہ ایک ایماندار محنتی انسان حلال رزق کو اپنا شعار بنا لے تو بلا شبہ اتنا تو کما سکتا ہے کہ عزت و آبرو سے زندگی کے شب و روز بسر کرے مگر جناب گڑ بڑ تب ہوتی ہے جنب انسان دوسروں کی دیکھا دیکھی اپنے دل و دماغ میں لامحدود خواہشوں کا سمندر جمع کر لیتا ہے اور ہمیشہ بے چینی کی لہروں کا شکار رہتا ہے ۔بدقسمی سے ہماری قوم کا ایک بہت بڑا طبقہ اخلاقی و ایمانی پستی کا شکار ہو کر ایماندار ی جیسے وصف سے محروم ہو چکا ہے جبکہ معاشرے میں کرپٹ اور بے ایمان کو معزز کا درجہ حاصل ہے اور ایماندار کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ مظلوم کا ساتھ دینے کو کوئی تیار نہیں۔ ڈاکو لٹیروں اور کرپٹ افراد کا بازو بننے کو ایک بھیڑ جمع ہے۔
اخلاقی گراوٹ کے اس دور میں مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھنے والے ایک ٹریفک پولیس وارڈن کا بارہ لاکھ روپے سے بھرا بیگ اس کے مالک تک پہنچانا اس بات کا عکاس ہے کہ یہی وہ گوہر نایاب لوگ ہیں جنہوں نے ہماری گرتی ہوئی اخلاقی دیوار کو سہارا دیا ہوا ہے جبکہ سوسائٹی میں ایسے افراد کی تعداد اب آٹے میں نمک کے برابر ہے اگر کل کلاں کو خدانخواستہ ایسی ایمان افروز ہستیاں بھی رخصت ہو گئیں تو صاحب خرد افراد کے لیے اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ ہماری قوم کی حالت کیا ہو گی۔
تحریر : عبدالرزاق