یک دفعہ حضرت عیسٰی علیہ السلام بارش کی دعا مانگنے کے لئے نکلے۔ جب آپ علیہ السلام صحرا میں پہنچے تو اعلان فرمایا کہ میرے ساتھ ایسا شخص نہ آئے جس نے کوئی گناہ کیا ہو۔ یہ سن کر سوائے ایک شخص کے سب پلٹ گئے۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام نے اس سے پوچھا تم نے کوئی گناہ نہیں کیا؟اس نے جواب دیا: حضور! مجھے اپنا کوئی گناہ یاد نہیں سوائے اس کے کہ ایک دن میں نماز پڑھ رہا تھا پاس سے ایک عورت گزری تو میں نے اُسے اِس آنکھ سے دیکھا، اس کےگزر جانے کے بعد ندامت مجھے پر غالب آئی اور میں نے انگلی سے وہ آنکھ نکال کر اُس عورت کے پیچھے پھینک دی۔ یہ سن کر حضرت عیسٰی علیہ السلام نے فرمایا تم اللہ عزوجل سے دعا کرو میں تمھاری دعا پر آمین کہوں گا۔ جب انہوں نے دعا مانگی تو آسمان پر بادل چھا گئے بارش برسنے لگی اورلوگ سیراب ہو گئے ۔(سبحان اللہ )(احیاء العلوم جلد اول)آج کے دور میں تو یہ حال ہو چکا ہے کہ ہم کسی کی ماں، بہن ، بیٹی پر بری نظر ڈالنے کو گناہ سمجھتے ہی نہیں۔ اس وقت ایک لمحہ کے لئے بھی یہ نہیں سوچتے کہ ہماری بری نظر اللہ عزوجل کی ناراضگی کا باعث بان سکتی ہے۔ کسی کی ماں، بہن بیٹی پر بری نظر ڈالنے سے پہلے صرف اتنا سوچ لیا جائے کہ اگر یہی کام کوئی اور ہماری اپنی ماں بہن یا بیٹی کے لئے کرے گا تو ہمیں کیسا لگے گا۔واضح رہے حضرت عیسی علیہ السلام کے دوبارہ آنے یا نہ آنے کا معاملہ ان کی زندگی سے مشروط نہیں ہے۔ جو قادر مطلق انھیں ایک بار زندگی دے سکتا ہے وہ انھیں دوبارہ بھی زندگی دے سکتا ہے۔ جس نے انھیں بغیر باپ کے پیدا کیا تھا کیا یہ اس کے لیے ممکن نہیں کہ وہ انھیں دوبارہ زندگی دے کر زمین پر بھیج دے۔ اس لیے ان کے آنے کو اس حقیقت سے مجرد ہو کر دیکھنا چاہیے کہ آپ زندہ ہیں یا نہیں۔وہ زندگی تو انھیں بہرحال حاصل ہے جو شہدا کی زندگی ہے۔پہلی بات تو یہ واضح ہے کہ قرآن مجید میں صریح الفاظ تو کیا ضمنی پہلو سے بھی کہیں حضرت عیسی علیہ السلام کے دوبارہ آنے کا ذکر نہیں ہے۔ اس کے برعکس دو مقامات ایسے ہیں جہاں ان کے دوبارہ آنے کا ذکر ہونا چاہیے لیکن حیرت کی بات ہے کہ وہاں بھی اس بات کا ذکر نہیں ہے۔سورۂ مائدہ میں حضرت عیسی علیہ السلام کا ایک مکالمہ منقول ہے جو ان کے اور اللہ تعالی کے بیچ قیامت کے دن ہوگا۔ اس میں ان سے سوال کیا گیا ہے کہ کیا انھوں نے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو خدا کے سوا معبود بناؤ۔ اس کے جواب میں حضرت عیسی علیہ السلام نے کہا: سبحانک، میرے لیے کس طرح موزوں ہے کہ میں وہ بات کہوں جو ناحق ہے۔ آپ تو میرے دل کی بات سے واقف ہیں۔ میں اس سے واقف نہیں جو آپ کے جی میں ہے۔ اگر میں نے ایسا کہا ہوتا تو آپ کے علم میں ہوتا۔ میں نے تو ان سے وہی بات کہی تھی جس کا حکم مجھے آپ نے دیا تھا۔ جب تک میں ان کے بیچ میں تھا تو ان پر گواہ تھا۔ پھر جب آپ نے مجھے وفات دے دی تو آپ ہی ان پر نگران تھے۔ اور آپ ہر چیز پر گواہ ہیں۔