تحریر : ندیم رحمن ملک
رات جلد سونا اور صبح جلد اُٹھنا ایک اچھی صحت کا ضامن فارمولا ہے، دنیا بھر میں لوگ اس پر عمل کرتے ہیں، لیکن ہم بطور مسلمان صحت کے ساتھ ساتھ اپنے اللہ سبحان و تعالیٰ کے قرب، اسکی رحمتیں برکتیں اور انوار و کمال بھی ساتھ میں حاصل کرتے ہیں اور وہ محض فجر کی دو سنت اور دو فرض پڑھنے سے۔ نمازِ فجر کے بعد اللہ کی حمد و ثناء اور تسبیح کرنا بہترین عمل اور خوشی کا مقام ہے ۔اس کے لئے فقط ایک شرط ہے اور وہ یہ کہ فجر کے وقت اپنے نرم گرم بستر سے اُٹھنا،وضو کرنا اور نماز ادا کر کے بے شک باہر گھومنے پھرنے یا واک پر جاتے ہوئے ذکر اللہ کی حمد و ثناء کرتے رہنا۔۔بس۔
حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ذکرِ الہی کے لیے کوئی قوم جب اور جہاں بیٹھتی ہے تو ملائکہ ان پر گھیرا ڈال لیتے ہیں ،رحمت الہٰی کا ان پر سایہ ہو جاتا ہے ،اور اللہ تعالیٰ اپنی مجلس میں ان کا تذکرہ کرنے لگ جاتے ہیں۔ صحیح بخاری۔
ترمذی میں حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کونسا شخص قیامت کو افضل و اعلیٰ اور بلند مرتبہ ہوگا ؟فرمایا کہ کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے لوگ۔پھر دریافت کیا گیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غازی فی سبیل اللہ سے بھی ؟ فرمایا کہ خواہ تلوار لیکر کفار و مشرکین سے لڑتے لڑتے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر خون سے کیوں نہ رنگ جائے،اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والا شخص اس سے بھی کئی درجے بہتر ہے۔
ویسے تو انسان ہر وقت چلتے پھرتے اُٹھتے بیٹھتے اللہ کا ذکر اسکی حمد و ثناء اور درود پاک پڑھتا رہے لیکن فجر کے وقت ان اذکار کی افادیت اور شان بڑھ جاتی ہے،ہر چرند پرند شجر اور مچھلیاں تک اللہ سبحان و قدرت کا ورد کرتی ہیں،تو پھر حضرت انسان کیسے غافل اور پیچھے رہ سکتا ہے،کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی پیدہ کردہ ہر چیز اس وقت اللہ سبحانہ کی حمد و ثنا اور تسبیح میں مصروف ہو جاتی ہیں،یہ بہت قیمتی وقت ہوتا ہے۔اس وقت ذکر الہٰی کرنا بہت فائدہ اور نفع کا کام ہے،
نمازِ فجر کی اہمیت اوراسکی انوار و برکات پر بات کرنے سے پہلے اسکا تاریخی پس منظر پر بات کرتے ہیں جو کچھ یوں ہے۔کتاب ایک ہزار انمول موتی میں لکھا ہے کہ ابوالبشرحضرت آدم علیہ السلام کے وجود سے زمین پر انسانیت کی ابتداء ہوئی٩٦٠ سال عمر پائی،ہم جو فجرکی نماز ادا کرتے ہیں،اور اس میں دو رکعتیں فرض پڑھتے ہیں،اس کی حکمت یہ ہے کہ فجر کی نماز سب سے پہلے آپ علیہ السلام نے ادا فرمائی،جس وقت اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا میں اُتارا،اس وقت دنیا میں رات چھائی ہوئی تھی،حضرت آدم علیہ السلام جنت کی روشنی سے نکل کرایک تاریک اور اندھیری رات کو اس دنیا میں تشریف لائے،اس وقت ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا تھا،آپ علیہ السلام کو بہت تشویش اور پریشانی لاحق ہوئی کہ یہ دنیا اتنی تاریک ہے
ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے،اب زندگی کیسے بسر ہو گئی۔نہ کوئی راستہ دکھائی دیتا ہے اور نہ کسی چیز کا پتہ چلتا ہے ،بس ہر طرف خاموشی ،ویرانی اور خوف طاری تھا،آپ علیہ السلام پر گبھراہٹ طاری ہونے لگی،پھر آہستہ آہستہ روشنی ہونے لگی،اور صبح کا نور چمکنے لگا،صبح صادق ظاہر ہوئی تو آپ علیہ السلام کی جان میں جان آئی،اسی وقت حضرت آدم علیہ السلام نے سورج نکلنے سے پہلے دو رکعتیں بطور شکرانہ ادا فرمائیں،یہ دو رکعتیں اللہ تعالیٰ کو اتنی پسند آئیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت پر فرض فرما دیا۔( عنایہ )
فجر کی نماز اور اس نماز کی شان و برکت کے حوالے سے بہت سی احادیث ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک موقعہ پر فرمایا کہ جس نے صبح کی نماز پڑھی وہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت و ذمہ داری میں ہے۔ایک اور موقعہ پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیم و اجمعین سے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک کی گُدی میں جب وہ سوتا ہے،شیطان تین گرہیں لگاتا ہے اور ہر گرہ کی جگہ پر یہ بات ڈالتا ہے کہ ابھی رات بہت ہے،لہذا سوتے رہو۔اب اگر وہ بیدار ہوگیا اور اللہ کا ذکر کیا تو ایک گرہ کھل جاتی ہے،اور اگر وضو کرتا ہے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے،اور اگر نماز پڑھتا ہے تو تیسری گرہ بھی کھل جاتی ہے اور وہ چست و نشیط اور خوش گواریِ نفس کے ساتھ صبح کرتا ہے،ورنہ سست اور خبثِ نفس کے ساتھ صبح اُٹھتا ہے۔( متفق علیہ )۔
اے اہل فجر ! تمہاری شرف و عزت کے لئے یہ بات کافی ہے کہ تمہارے لئے اللہ تبارک و تعالیٰ کے ملائکہ شہادت و گواہی دیں گے، جی ہاں !! یہ بات آقا دو جہان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے درمیان رات کے ملائکہ اور دن کے ملائکہ باری باری آتے ہیںاور فجر کی نماز اور عصر کی نماز میں اکھٹے ہوتے ہیں،پھر وہ ملائکہ جو تمہارے درمیان رات میں تھے،وہ اللہ کے پاس چڑھتے ہیں تو ان کا رب ان سے سوال کرتا ہے۔حالانکہ وہ ان کو سب سے بہتر جانتا ہے۔تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ؟ وہ ملائکہ جواب دیتے ہیں : ہم نے ان کو اس وقت چھوڑا جب وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ہم ان کے پاس آئے تھے تو اس وقت بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔( بخاری و مسلم )۔
اے اہل فجر ! اور میرے وہ نمازی بھائی جو جماعت کی پابندی کرتے ہیں ان کو مبارک ہو ،وہ خوش ہو جاہیں،کیونکہ انکا وضو کرنا درجات کی بلندی کا سبب ہے،انکا مسجدوں کی جانب چلنا نیکی ہے اور مسجد میں بیٹھنا رحمت و بخشش کا سبب ہے حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو صبح یا شام کے وقت مسجد کی طرف چلے،اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں ہر صبح و شام جانے کے بدلے ایک ایک مہمان خانہ تیار کرے گا۔( بخاری و مسلم )۔
نماز ِ فجر کی پابندی جنت میں داخل ہونے کی گارنٹی اور ضامن ہے، اس کے لئے وضو کرنے میں ناجانے کتنے درجے بلند ہوتے ہیں،اور اس کے لئے چلنے میں کتنی نیکیاں ملتی ہیںاور اس کے بعد کے اوقات میں خیرو برکات کا نزول ہوتا ہے،جیسا کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے اللہ ! تو میری امت کے لئے اس کے اولین وقت میں برکت نازل فرما۔( امام احمد،ابوداؤد،ترمذی،ابن ماجہ )
بڑے بڑے اللہ کے برگزیدہ ہستیاں تمام رات قیام کرتی رہی ہیں ، اور الحمداللہ آج بھی لاکھوں کروڑوں ہستیاں موجود ہیں جو رات رات بھر تہجد ذکر و اذکار اور نماز قرآن میں گزار دیتے ہیں، ایک عام مسلمان کے لیے فی زمانہ ایک مشکل امر ہے کہ وہ تمام رات اللہ کی عبادت میں گزار دئے،لیکن اللہ پاک نے یہاں بھی انسان اور اس مسلمان کو مایوس نہیں کیا جو دل میں تمام رات عبادت کی حسرت رکھتا ہے،ایسے مسلمان کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھی، گویا اس نے آدھی رات تک قیام کیا اور جس نے فجر کی نماز باجماعت پڑھی،گویا اس نے تمام رات ( عبادت ) قیام کیا۔ ( مسلم )۔
سبحان اللہ محض عشاء اورفجر کی باجماعت نماز سے تمام رات عبادت کا ثواب،اب اگر کوئی اس ہمیشہ کی لوٹ سیل سے فائدہ نہ اُٹھا سکے تو اس کا قصور ہے،ورنہ اللہ پاک تو اپنے پیاروں کو بہانے بہانے سے نوازتا ہے،کوئی اسکی طرف ایک قدم بڑھاتا ہے تو اسکی رحمت اور برکتیں اس شخص کی طرف دوڑی چلی آتی ہیں۔
ایک اور موقعہ پر نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص فجر کی نماز باجماعت پڑھے ،پھر سورج کے نکلنے تک بیٹھا ہوا اللہ کو یاد کرتا رہے،پھر دو رکعتیں پڑھ لے تو اس کو پورے ایک حج اور ایک عمرے کا ثواب ملے گا ۔(ترمذی )۔
فجر کے وقت کی اہمیت ، فضلیت اور عظیم برکت اور کثرت ِخیرکی وجہ سے سلف صالحین اس وقت میں سونے اوراسکو سستی وغیرہ میں ضائع کرنا ناپسند کرتے تھے۔ کیونکہ یہ رزق تقسیم ہونے کا وقت ہے،لہذا جو سوتا رہے گا وہ رزق سے محروم ہوتا ہے،اور اللہ پاک کی بے پناہ رحمت اور عظیم اجر و ثواب سے بھی محروم ہوتا ہے۔اور اللہ کا فرمانِ عالیشان ہے کہ جو نماز چھوڑتا ہے ،اس کے لیے عذاب لازمی ہے،گناہگاروں کو جہنم میں لے جانے والاپہلا سبب نماز کو چھوڑنا ہے۔لہذا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ نماز کو اسکے اوقات میں ادا کرنے کا اہتمام کرے تاکہ اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اور فرماں برداری سے مشرف ہو اور اللہ کے غضب اور اسکے عذاب و عقاب سے محفوظ رہے،آمین۔
تحریر : ندیم رحمن ملک
ایم اے ۔سیاسیات
ایم ایس سی۔ماس کمیونیکشن
الشیخ میڈیکل سٹور۔جی ٹی روڈ سنانواں،
تحصیل کوٹ ادو،مظفر گڑھ۔
E.mail : nadeemlovetoall@gmail.com
Cell No # +923017875630