تحریر: انجینئر افتخار چودھری
کل لودھراں میں الیکشن ہونے جا رہا ہے۔نتیجہ تو اللہ جانتا کیا ہو گا کون جیتے گا بلوچ یا ترین مگر اس الیکشن کو جیتنے کے لئے نون غنیے جو آخری حد تک جا سکتے تھے جا چکے ہیں ووٹر لسٹوں میں ہیر پھیر عین الیکشن والے دن پولنگ اسٹیشنوں کا بدلنا لسٹ جو اندھر ہو گی وہ باہر نہ ہو گی ،اجنبی لوگ ووٹر لسٹ میں ہوں گے۔یہ سب کچھ اس بلدیاتی الیکشن میں ہو چکا ہے۔ان گھٹیا حرکتوں میں سب سے بڑی حرکت جہانگیر خان نامی شخص کو تلاش کر کے کھڑا کیا گیا ہے نام ہے اس کا شاہد جہانگیر مگر اسے جہانگیر خان کا نام دیا گیا ہے بیلٹ پیپر پر اس کا نام پہلے ہے اور نشان بیٹسمین کا دیا گیا ہے۔
اس کے بعد نام ہے تحریک انصاف کے جہانگیر خان کا جنہوں نے یہ دن کروڑوں خرچ کے اپنے نصیبوں میں لکھوایا ہے۔ کل میرا ایک شاگرد عزیز طارق دلدار کہہ رہا تھا اب میں الیکشن کمیشن میں جائوں گا ،کہا بس کر بیٹا الیکشن کمیشن میں جانے کے لئے نوٹوں کی بوریاں لگتی ہیں تب کہیں جا کر تھیلا کھلتا ہے بلکہ کئیوں کے کھنے کھلنے کے بعد الیکشن کمیشن کا تھیلا کھلتا ہے ہم نے رمضان کے دنوں میں اس گونگے بہرے الیکشن کمیشن کے سامنے جا کر واویلا کیا کنٹینر سجے گھر بار لٹے فیر اے جا کے موقع بنیا ،لودھراں دا الیکشن کوئی سوکھا بنیا؟
بندہ جائے تو جائے کہاں عمران خان نے کہا تھا کہ یہ الیکشن ٢٠١٣ والا آر او کا تھا سچ کہا تھا اور حالیہ بلدیاتی الیکشن بھی آر او کے ہی ہیں۔دوستو! جس کے ساتھ پنجاب کی بدنام زمانہ پولیس شامل ہو جاتی ہے۔جس کے الیکشن کمیشن ووٹروں کی بڑی تعداد ادھر سے ادھر کر دیتی ہو وہاں الیکشن جیتنا آگ کا دریا پار کرنا ہے اور لڑنا تو ہے ہی جہاد۔سچ کہا ہے خان نے کہ ہمارے لوگوں نے جہاد کیا ہے ان لوگوں کے خلاف جن کو نہ تو خوف خدا اور نہ ہی کسی اور کا ڈر۔جو بیچارے ایمان دار آفیسر تھے انہیں کھڈے لائن لگا دیا تھا۔
لودھراں کے الیکشن سے پہلے جو مجرے کئے گئے وہ شائد جائز اور حلال قرار دئے گئے ہوں گے اور ان کو مزید حلال کرنے کے لئے جماعت اسلامی سے مشاورت کر لی گئی ہوگی جو وہاں صدیق بلوچ کی حمائت کر رہی ہے۔سید مودودی کی فکر کا لودھراں کے بازار میں سبکی کرنے پر اپنے دیرینہ دوستوں کو مبارک باد دوں یا طعنے فیصلہ وہ خود کر لیں۔
عجب ہے تیری سیاست عجیب تیرا نظام
حسین سے بھی دوستی اور یزید کو بھی سلام
الیکشن کمیشن میں کوئی ہے جس کو مرنے کے بعد اللہ کو جواب دینا ہے۔نملی میرا کے الیکشن کمیشنر سردار صاحب سے یہ پوچھنا چاہوں گا کہ آپ کو عمران خان کی ذرا سی بات پر غصہ آ جاتا ہے ہتک ہو جاتی ہے،عزت کو نقصان کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔میں اگر جناب کی شان میں گستاخی نہ ہو تو یہ پوچھ سکتا ہوں کہ اگر بیٹ کے ساتھ بیٹسمین کا نشان جاری کیا گیا تھا تو شیر کے ساتھ شیر کے شکاری کا بھی دے دیتے کسی بلے (کیٹ) کا نشان دے دیا جاتا اس وقت کیا قیامت آ جاتی۔ محمد علی نیکو کارا بننا ہر ایک کے نصیب میں نہیں ہوتا(کاش پی ٹی آئی اس ہیرو کو کے پی کے میں ہی لے جاتی۔
ہم بھی کون سے آسمان سے اترے ہوئے ہیں) ہنسی آتی ہے آپ لوگوں کی اس حرکت پر خدا کی قسم جب کسی سے یہ بات کی جاتی ہے تو آنکھیں شرم سے جھک جاتی ہیں۔اس لئے کہ میرے ملک اور میرے دیس میں آپ جیسے لوگ ان کرسیوں پر براجماں ہیں جن سے اس قسم کے فیصلے ہو رہے ہیں۔سیدھی سی بات ہے عمران خان سے کہہ دو مر جائیں گے مٹ جائییں گے تمہیں جیتنے نہیں دیں گے۔جنرل حمید گل میرے گھر آئے کہنے لگے عمران تک رسائی ہے تو اسے سمجھائو اس ملک میں اس نظام کے تحت دس عمریں بھی پا لو تو تبدیلی نہیں آ سکتی۔اس بات کے گواہ ہمارے دوست عارف عباسی کرنل اجمل حناء منظور ہیں۔
سچ کہا ہے کہ نواز شریف اس ملک کی عدالتوں اور دیگر اداروں کو خرید لیتا ہے اسے اس نظام میں رہ کر اسے نہ ١٣ میں اور نہ ہی ١٨ اور ٢٣ میں شکست دی جا سکتی ہے اس لئے کہ افتخار چودھری رمدے کی بوئی ہی گندی فصلیں سرکنڈوں کی شکل میں آپ اور اس ملک کو آکاش بیل کی طرح جکڑ چکی ہیں۔اور پھر ایک دن آتا ہے چھڑی کی نوک سے عوام کو مٹھائیاں بانٹنے کا موقع ملتا ہے اور اندھیرے سال عشرے پر محیط ہمارے بھاگوں میں لکھ دیے جاتے ہیں۔
مجھے بڑی خوشی تھی کہ ہزارہ کے بیٹے کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے وہ ضرور جلال بابا اور حیدر زمان با با کی دھرتی کی لاج رکھے گا لیکن افسوس آپ بھی فخرو بھائی نکلے۔آپ نے بھی کسی عقل سمجھ اور شعور کا مظاہرہ نہیں کیا۔بیٹسمین کی آڑ میں چھپ کر وار کرنے والے بزدل چوہے تو ہیں ہی ،ایسے چوہوں پر تو زمانہ لعنت بھیج ہی رہا ہے ،یہ آستین کے سانپ پی ٹی آئی کو حالیہ بلدیات میں بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا چکے ہیں،مجھے الیکشن کمیشن میں بیٹھے بھی کوئی سمجھ دار نہیں نظر آئے۔
پاکستان مسلم لیگ نون اسی طرح الیکشن جیتتی ہے پولیس آر اوز کی مدد سے اور نعرے لگاتی ہے کہ قوم نے اسے منتحب کیا ہے۔جب بھی کوئی الیکشن ہوتا ہے پٹواری حرکت میں آ جاتے ہیں۔دور دراز علاقوں کی بات چھوڑیں اسلام آباد میں جس دن الیکشن تھے ترقیاتی کام کرائے جا رہے تھے۔ہمارے ہاں گیس کے پائپ بچھائے گئے اور الیکشن کے بعد جوں کے توں پڑے ہیں۔ہو گا کیا کچھ دنوں کے بعد انہیں بھی اٹھا لیا جائے گا۔ہم کسی جنگل کے ساکن ہیں ۔٦٨ سال بعد بھی ہمارے الیکشن نشانات پر ہو رہے ہیں۔
اس قوم کو میٹرو اورنج ٹرینیں،انڈر پاسز جہالت سے نہیں نکال سکتیں تعلیم سے قوم بنے گی اور مجھے پورا یقین ہے کہ پڑھے لکھے لوگ پی ٹی آئی کا ہی ساتھ دیں گے،جیسا کے اسلام آبادیوں نے دیا۔مجھے آج کچھ نہیں کہنا صرف الیکشن کمیشن کے معزز اہل کاروں سے یہ بات کہنی ہے کہ حکومتیں چلی جائیں گی مگر ایک جو چیز باقی رہے گی وہ نام اللہ ہے۔
آج اپنی گردنوں کو جھکا کر گریبانوں میں دیکھیں اپنے ضمیر کو جنجھوڑ کر فیصلہ کریں کہ آپ نے اس قسم کے اقدامات کر کے کس طرح قوم کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے۔ فیصلہ کریں کہ شاہد جہانگیر کو جہانگیر خان کس نے بنایا کس نے اسے بیٹسمین کا نشان دیا اس کے پیچھے بد نیتی تھی یا نہیں؟یہ سوال زندہ جسٹس سردار رضا سے میں پوچھتا ہوں اور مرنے کے بعد جب وہ قبر میں جائیں گے تو وہاں بھی سوال اٹھے گا اس وقت آپ یہ کہہ کر جان نہیں چھڑا سکتے کہ میرے سینئر نواز شریف کا حکم تھا کہ غیر محسوس دھاندلی کرو۔موت کا دن معین ہے میرا بھی آپ کا بھی اور آپ کے نواز شریف کا بھی۔چلیں اللہ پر چھوڑتے ہیں جو میرا رب بھی ہے اور آپ کا اور آپ کے نواز شریف کا بھی۔گڈ لک اصلی جہانگیر خان ترین۔ جعلی تجھے کیا کہوں۔
تحریر: انجینئر افتخار چودھری