حصہ اول
صحافت ایک عبادت بھی ہے اورپیغمبری شعبہ ہے ۔
ان ھذا لفی صحف الاولیٰ۔
آیت کے قرآنی کے مصداق صحافت ایک ایسا اسلوب ہے جو بنی نوع انسان نے اس دنیا کے بنانے والے اللہ تبارک وتعالیٰ کے طریق سے ہی لیا ہے۔ لہذا یہ اللہ تعالیٰ کی سنت بھی ہے۔ اورجبریل امین اس لحاظ سے دنیا کے پہلے صحافی بھی قرارپائے جنہوں نے اللہ کی آیات کو پیغمبروں ، رسولوں اورانبیا کرام تک پہنچایا اورانبیا ورسل نے وہی پیغام اپنی امتوں تک پہنچایا۔ اس طرح یہ صحیفے بنی نوع انسان کیلئے اللہ تعالیٰ نے صحافت کے ذریعے مرتب کروائے اوراسکے فرشتے اورانبیا ورسل صحافت کا اسلوب بھی بنی نوع انسان کو سکھا گئے۔۔۔۔
صحافت کی پہلی کالی بھیڑ اس لحاظ سے ابلیس قرار پایا جس کو اللہ تعالیٰ نے نہ تو کوئی ذمہ داری دی اور نہ ہی اس سے کوئی ایسا کام لینا مقصود تھا مگر وہ آجکل کے بہت سےاینکرز اورتجزیہ نگاروں کی طرح خودساختہ صحافی بن گیا اور پہلے تو یہ بات پھیلادی کہ انسان زمین پرفساد کریگا ۔ جب وہ بھی نہ چلی اور آدم ؑ کو سجدہ کا منشور رائج ہوکر رہا تو حضرت آدم اورحواؑ کو یہ خبر دی کہ وہ فلاں پھل کھا لیں تو ہمیشہ کیلئے جنت کے مکیین بن جائیں گے مگر اس کی اس ٹیبل سٹوری نے ہمارے باپ حضرت آدم ؑ اوراماں حوا ؑ کو کہیں کا نہ چھوڑا ۔۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ کی کائنات میں مثبت صحافت اورمنفی صحافت دونوں کی ہی مثالیں بدرجہ اتم موجود ہیں ۔ مثبت صحافت جبریل امین ؑ اورپیغمبران خدا نے اختیار کی اور منفی صحافت اوربدترین صحافتی اسلوب ابلیس نے اختیار کیا اوربنی نوع انسان کے والدین آدم ؑ وحوا ؑ کیلئے آزار کا باعث بنا۔ چنانچہ مثبت ومنفی صحافت دونوں کے نتائج بھی انسان تک پہنچا دیئے گئے۔
آدم ؑ سے لے کر حضرت محمد ﷺ تک اللہ کا پیغام بنی نوع انسان تک امانت کی صورت میں پہنچتا رہا اورپیغمبران خدا ؑ نے اس کا حق ادا کیا ۔ اللہ کے پیغام کو اگرظالم حاکم کی موجودگی میں بھی پہنچانا پڑا تو اسی ثابت قدمی اور بہادری کیساتھ پہنچایا۔ اسی طرح حالت امن میں بھی پہنچایا۔ حضرت نوح ؑ نے بدترین امت کو بھی پہنچایا۔حضرت سلیمان ؑ نے بے شمارمطیع وفرمانبردار مخلوقات کوبھی پہنچایا۔ حق بات اورقانون قدرت فرعون وہامان، شداد، ابوجہل، قارون، سامری، ملکہ سبا اوردقیانوس وغیرہ جیسے محیرالعقول شہنشاہوں اوربادشاہوں کے سامنے بھی بیان کیا اورپھیلایا جاتا رہا۔
حضور نبی اکرم ﷺ پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے پیغام کا سلسلہ تمام کردیا اوراب قیامت تک وہی نصاب رہیگا وہی قیامت تک آنے والے بنی نوع انسان کیلئے کافی رہیگا اور قرآن مجید میں تمام نصاب محفوظ کردیا گیا آج بی اس پر تجزیہ کرنے والے اور تحقیق کرنے والے تحقیق جاری رکھے ہوئے ہیں اورشاید کئی ہزار سال بعد تک بھی قرآن جیسی کتاب کے اسرار کھلتے
رہیں۔
اس کے باوجود جھوٹے نبی (خودساخہ صحافی) گاہے بگاہے منظر عام پر آتے رہے اور بنی نوع انسان کو دیئے گئے قدرت کے نصاب کو بدلنے کی کوشش کی اور اچھی خاصی تعداد کو اپنی خودساختہ صحافت کے ذریعے منزل سے بھٹکا بھی دیا۔
اس سے اندازہ کرلئے کہ شعبہ صحافت کی کالی بھیڑیں تاریخ کے دھارے پر کیا کیا اثرات مرتب کرسکتی ہیں۔
صف اول کے دانشور اورصحافی شورش کاشمیری کی تصنیف عجمی اسرائیل (ایک انڈرگرائونڈخطرے کا تجزیہ کا ایک تراشہ سوشل میڈیا پرگردش کر رہا ہے جس میں انہوں نے قادیانی پاکستان میں استعماری گماشتے ہیں پرتحقیق پیش کی تھی ۔ یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ دنیا میں جہاں جہاں اقلیتیں پائی جاتی ہیں وہ اپنے مفادات کی خاطر دوسری اقلیت کیساتھ اتحاد کرنے میں دیر نہیں لگاتیں۔ محترم شورش کاشمیری نے ممکنہ سکھ کمیونٹی اور قادیانیت کے اتحاد پر بحث کی تھی جو کہ کرتارپورراہداری کی صورت میں عملی شکل اختیار کرتی نظر آرہی ہے۔ قادیانی قادیان کے نام سے اپنی علیحدہ ریاست کے
چکر میں ہیں جبکہ سکھ دلی سے خیبر تک خالصتان کی تحریک بڑے زوروشور سے چلا رہے ہیں۔
تحریر: سید معارف الحسنین کاظمیؔ
روزنامہ جنگ راولپنڈی