تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
اشیائے خوردنی کی طرح انسانی و حیوانی جعلی ادویات کی ملک بھر میں بھر مار ہے انسانی جعلی ادویات سے بیچارے غریب مریضوں کی روزمرہ ہلاکتوںپراخبارات کے صفحات ،کالمز اورہمہ قسم پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا بھرے پڑے ہیں۔مگر زمین جنبد آسمان جنبد نہ جنبد گل محمد کی طرح یہ مسئلہ عرصہ دراز سے جوں کا توں ہی چلا آرہا ہے۔شہباز شریف صاحب کی ٹاسک فورس برائے انسداد جعلی ادویات خود جعلی نکلی ۔میڈیکل سٹوروں اور ادویات بنانے والے کارخانوں سے لکھوکھا روپوں کی ٹھگیاں لگ چکی ہیں۔صدر ضیاء الحق کے دور میںکئی جرائم سرزد ہونے کے بعداندراج مقدمہ کے لیے اسلامی شرعی سزائوں کا نفاذ کیا گیا تھا اور اسلامی دفعات کے تحت مقدمے درج کیے جاتے اور سزائیں سنائی جاتی تھیں ۔مگر عملاًاس کے برعکس ہواجب ایسا کوئی مقدمہ تھانہ میں اندراج کے لیے لایا جاتا تو ایس ایچ او صاحب فرمانے لگتے کہ کون سی دفعات لگائوں ؟اسلامی یا پہلے والی کہ اسلامی دفعات اگر لگوانی ہیں تواس کی”فیسیں(نذرانے)”بہت زیادہ ہوں گے کہ اس میں عدالتوں سے سزائیں بھی بہت سخت دی جائیں گی اس پر ہر کس و ناکس اس پر تلا ہوتا تھاکہ اسلامی دفعات لگوانی چاہئیں۔
چاہے اس کے لیے کتنی ہی رقم کیوں نہ صرف کرنی پڑے۔دوسری طرف ایسے مقدمات کے ملزمان اور ان کے لواحقین کا بھی تھانہ سے مسلسل رابطہ ہوتا تھا ۔تھانیدار صاحب و ضاحتیں فرمایا کرتے تھے کہ آپ کے مخالف جو مقدمہ کے مدعی ہیں وہ تو اسلامی دفعات کے تحت اندراج مقدمہ چاہتے ہیںاب بتائیں کہ اگر آپ اسلامی دفعات کے تحت پرچہ درج کروانانہیں چاہتے تو پھرآپ ڈھیروں رقم لائیں و گرنہ ہم بہت مجبور ہیں اوپر والوں کا پریشر بھی ہے مدعی خود بھی بااثر ہے جسے ٹالنا بھی مشکل لگتا ہے ۔اس طرح مقدمہ درج ہوتے ہوتے ہی اِدھر یا اُدھر سے تھانیداروں کی چاندی ہوجاتی تھی۔ان دنوں تھانہ کے دیگر سٹاف کے بھی بڑے مزے تھے ۔اب شہبازشریف روزانہ بیان دیتے ہیں کہ جعلی ادویات رکھنے والے میڈیکل سٹورز(تیار کرنے والے کیوں نہیں ؟)اورایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کیے بغیر پریکٹس کرنے والے نام نہاد ڈاکٹرز کے خلاف کریک ڈائون کریںجو میڈیکل سٹورز یا جعلی پریکٹیشنرز ماہانہ 5000ڈرگ انسپکٹر کو منتھلی دیکر من مانیاں کرتے تھے
جعلی اور سمگل شدہ ادویات ان کے پاس وافر مقدار میں ہوتی تھیں۔ اس طرح پانچ، چھ گنازیادہ منافع مل جاتا تھا۔اب چونکہ “کریک ڈائون”کیا جانا مقصود ہے اس لیے جو ہزاروں کی جگہ میڈیکل بیورو کریسی کو لاکھوں روپوں کی رشوت دیگا تو اس کا بال بیکا بھی نہ ہو سکے گا اور جو پرانی ڈگر پر چلتے ہوئے ہزاروںمیں منتھلی دیگا تو اس کا چالان وغیرہ کرکے خانہ پوری کی جائے گی اوروزیر اعلیٰ کو رپورٹس OKبھیجی جائیں گی۔جب تک میڈیکل بیورو کریسی اور ڈرگ انسپکٹر وغیرہ ایمانداری اختیار کرکے رشوت ستانی ترک نہیں کرتے نظام ویسا ہی چلتا رہے گا۔
ویسے بھی تقریباًپورے ملک کی بیورو کریسی اور ملازمین زیادہ تر شریفوں اور زرداری کے ادوار میںسفارشوں اورلمبے مال کھینچ کر بھرتی کیے گئے ہیں اور ابھی بھی یہ سلسلہ جاری ہے ۔جعلی ادویات تیار کرنے والی کمپنیاں اور ان کے کارخانے اٹھانوے فیصد خود مقتدر افراد اور ان کے رشتہ داروں اور وفاداروں کے ہیں۔حکومت خود صنعتکاروں کی باندی ہے اس لیے انھیں پکڑنا خود اپنے آپ کو پکڑوانے کے متراد ف ہے نیب کو ایسے کیس دیے گئے تو بھی یہی حشر ہو گا۔ویسے بھی اگر ایم این اے ،ایم پی اے اور کسی وزیر مشیر کے سیاسی گڑھ میں جعلی ادویات پر پکڑ دھکڑ کی کوشش ہوئی تو قانون کی خلاف ورزی کرتے مقتدرافراد اور رت جگے کے ٹوڈی شرابی ٹولوں کوپکڑنے پر ڈی پی اوضلع بہاولنگر شارق کمال کی صوبہ بدری ہوسکتی ہے تو ان مقدمات میں تو ملازمتوں سے ہی چھٹی (برخواستگی )ہونے کا قوی امکان ہے۔
اس لیے چیف منسٹر سیکریٹریٹ کوراضی رکھنے کے لیے فرضی کاغذی کاروائیاںبھجوائی جائیں گی تاکہ”خوش رہے شیطاںاور ناراض بھی نہ ہو یزداں” بہر حال ضلعی میڈیکل افسروں اور ڈرگ انسپکٹروں کی عیدیں ہیں۔انھیں خوب بھتہ مل رہا ہے ۔شاباش شہباز شریف ۔ضروری امر یہ ہے کہ آپ چند بڑے کرپٹ ادویات بنانے والے مگر مچھ نماانسانیت کے دشمنوں کو ٹانگیں یا جہاں سے بھی میڈیکل سٹوروں تک یہ دو نمبر مال پہنچا ہے انھیں پکڑ کر بھوکا پیا سا لٹکائو خودبخود اژدھوں کو مار پڑتا دیکھ کر چھوٹے چھوٹے سنپولیے توبہ تائب ہوجائیں گے اور سارا طبی نظام درست سمت میں چل پڑے گا۔مگر موجودہ حکمران یہ اس لیے نہیں کرسکتے کہ پھر وہ خود اور ان کے ساتھی لواحقین دوست احباب بھی اسی حشر نشر سے دو چار ہوں گے۔جعلی ادویات اور کریک ڈائون تو ضروری مگر چند کو انار کلی کی طرح دیواروں میں چننا یا چو کوں پر الٹا لٹکانا بھی ضروری اوریہی اصل حل ہے ۔ قاتل تو ایک فرد کو قتل کرنے پر تختہ دار پر لٹکایا جاتا ہے اور یہ انسانیت کے غلیظ ترین دشمن اپنی جعلی ادویات سے سینکڑوں کو رفتہ رفتہ قبرستانوں کی طرف دھکیل رہے ہیں۔
اس کے بغیر کاٹھ کے الو سمجھا ہی نہیں کرتے مگر ہم آپ کو سیاہ و سفید سمجھائے دیتے ہیں آگے آپ کی مرضی جو کچھ آپ کاحسن کرشمہ ساز کرے ۔نوجوان ڈاکٹر مزدوروں کی طرح دن رات مریضوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں ہڑتال غلط ہی سہی مگر روتے کیا کرتے کوئی سنتا تک نہیں اور پیرا میڈیکل سٹاف و نرسز کے بغیر تو ہسپتالوں کا تصور ہی نہیں۔میٹرو اور اورنج ٹرینوں کی جگہ ان کی تنخواہیں کم ازکم چار گنا کرڈالیں تاکہ یہ کوالیفائد افراد دل کھول کر مریضوں کی خدمت بجالائیں وگرنہ یہ سبھی پہلوں کی طرح بیرون ملک بھاگ جائیں گے اور ان کی جوانیاں وہاں بہر حال غیر مسلم اسلام دشمنوں کی خدمت کرتے گزریں گی اور یہی ہمارے اور مقتدرافراد کے منہ پر زور والا زناٹے دار تمانچہ ہوگا۔پھر نہ کہناخبر نہ ہوئی۔
تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری