تحریر : سید انور محمود
بِل گیٹس کا پورا نام ولیم ہنری گیٹس ہے۔ بِل گیٹس مائیکروسافٹ کمپنی کے چیئرمین اور دنیا کے امیر ترین شخص ہیں۔ بِل گیٹس28 اکتوبر 1955ء کو امریکہ واشنگٹن کے ایک مضافاتی علاقے سیایٹل میں ایک متوسط خاندان میں پیدا ہوئے۔ اُنکو بچپن سے ہی کمپیوٹر چلانے اور اُس کی معلومات حاصل کرنے کا شوق تھا۔ بل گیٹس نے بہت جلد بزنس کی دنیا میں استعمال ہونے والے اور تفریحی سافٹ وئیر تیار کر کے آئی بی ایم کمپنی کے علاوہ دنیا کی مختلف کمپیوٹر کمپنیوں کو بیچے جس سے اُن کی آمدنی میں حیران کن اضافہ ہو گیا۔ 1984ء میں اُن کی اپنی کمپنی مائکروسافٹ کا 10کروڑ ڈالر کا بزنس محض دو برسوں میں دگنا ہو گیا۔1994ء میں بِل گیٹس نے دنیا کے امیر ترین لوگوں کی فہرست میں اول مقام حاصل کر لیا۔ بِل گیٹس کو یہ عظیم کامیابی محض اُن کی انتھک محنت ، کوشش لگن، سوجھ بوجھ اور اپنے کام سے بے پناہ لگاؤ کے نتیجے میں حاصل ہوئی۔ بِل گیٹس نے اپنی دولت کا ایک حصّہ سماجی کاموں کے لیے بھی مختص کیا ہے۔ بل گیٹس کے پاس 82 ارب ڈالر ہیں اور اپنی دولت کو اپنے ایک فلاحی ادارے کے ذریعے انسانوں کی فلاح کے لئے خرچ کررہے ہیں۔
بِل گیٹس کو دنیا جانتی ہے لیکن شعیب احمدشیخ کو یا اُنکی کمپنی ایگزیکٹ کو صرف وہ لوگ جانتے تھے جنکا شعبہ آئی ٹی ہے، یا پھر دو سال سے میڈیا کے لوگ جاننے لگے جب بول چینل کی آمد کا اعلان ہوا لیکن عام پاکستانی نہ شعیب احمدشیخ کو نہ اُنکی کمپنی ایگزیکٹ کو اور نہ ہی بول چینل کو جانتا تھا۔ لیکن جب 19 مئی کو پاکستانی اخبار ات اور میڈیا نے امریکی اخبار نیویارک ٹائمزکی ایک خبر کو بریک کیا جس میں پاکستانی کمپنی ایگزیکٹ کے جعلی ڈگری کے کاروبار کا انکشاف کیا گیا ہے، جس سے ایگزیکٹ کروڑوں امریکی ڈالر کمارہی تھی تب سارئے پاکستان کو پتہ چلا کہ ایگزیکٹ کیا بلا ہے، لیکن میڈیا مالکان کو اس بریکنگ نیوز کو آگے بڑھانے میں ہی فائدہ تھا تو بات آگے چلی اور لوگوں کو ایگزیکٹ اور بول چینل کا پتہ چلا اور ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ ان دونوں اداروں کے مالک شعیب احمد شیخ ہی ہیں۔
ایگزیکٹ کمپنی کے مالک شعیب احمد شیخ اپنی تقریبات میں کہتے رہے ہیں کہ وہ بل گیٹس سے بھی زیادہ امیر آدمی بننا چاہتے ہیں ۔ایک سوال یہ پوچھا جارہا ہے کہ نیویارک ٹائمز کی خبروں میں آنے کے بعد راتوں رات شہرت کی بلندیوں کو پانے والے شعیب احمد شیخ ہیں کون؟ اسکا ذکر سینیٹر طارق چوہدری نے اپنے ایک مضمون ‘پاکستان کے خلاف گھنائو نی سازش!’ میں کیا ہے ، وہ لکھتے ہیں کہ‘‘موٹروے پر آتے جاتے سرسبز پہاڑوں میں گھرے خوبصورت جھیل والے ‘کلر کہار’ سے باہر نکل کر چکوال کی طرف روانہ ہوں تو پہاڑ کی اترائی میں نالہ ہے، اس سے ذرا پرے سڑک کے دونوں کنارے ایک گائوں آباد ہے، نام اس کا ‘بھون’ گائوں ہے، شاید لاہور،ملتان اور دلی سے کہیں پرانا ہے۔اسی گائوں میں ہمارے دوست پروفیسرغنی جاوید رہتے ہیں۔ اُن کی پڑوس میں ایک گھر پٹواریوں کا ہے، اب یہ گھرانہ پروفیسر کے غریب خانے کی ہمسائیگی سے جناب ایاز امیر کے دولت کدے کے اردگرد جا بسا ہے۔ اسی گھرانے کا ایک چراغ شعیب ہے، جس نے ارادہ باندھ رکھا ہے کہ ‘وہ ایک کمرے کے گھر میں پیدا ہوا مگر دنیا کا امیر ترین آدمی بن کے رہے گا’ یہی شعیب اب شعیب احمدشیخ اور ایگزیکٹ کا چیف ہے۔’’
شعیب احمد شیخ نے 1997ء میں ایگزیکٹ کی بنیاد رکھی اور اس وقت کمپنی کے چیف ہیں۔ نومبر 2013ء میں پاکستانی میڈیا شعبہ سے متعلق ایک انٹرویو میں ایگزیکٹ کے بانی اور چیف ایگزیکٹیو شعیب احمد شیخ نے ایگزیکٹ کو ایک آئی ٹی اور آئی ٹی نیٹ ورک سروسز کی کمپنی قرار دیا، جو چھوٹے اور اوسط درجے کے کاروباروں کو خدمات فراہم کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ روزانہ کی بنیادوں پر ہم ہزاروں پروجیکٹس بناتے ہیں۔ ہمارے صارفین کی ایک طویل فہرست ہے، لیکن اپنے کلائنٹس کے نام بتانے سے انکار کردیا۔ کہنے کو ایگزیکٹ کمپنی سافٹ ویئر کا کام کرتی ہے، اس شعبے میں پیداوار نہ گاہک اور نہ ہی کمپنی کے کلائنٹس لیکن پھر بھی یہ کمپنی چند برسوں میں ہی 20 ارب ڈالر کے اثاثہ جات کی مالک کیسے ہو گئی۔
اس کمپنی میں عام کمپنیوں سے زیادہ مراعات اور تنخواہ ملتی ہے لیکن آئی ٹی کے شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی اکثریت اس بات سے واقف ہے کہ اگر کسی نے ایگزیکٹ کمپنی میں کام کیا ہے اور بعد میں اُس نے کسی اور آئی ٹی کمپنی میں نوکری کےلیے اپنے ‘سی وی’ میں ایگزیکٹ کمپنی کا حوالہ دیا ہے تو ایسے امیدوار کو ملازمت کا اہل نہیں سمجھا جاتاہے۔ صوبہ پنجاب کی ایک خاتون ایم پی اے کے بیٹے کو ‘ایگزیکٹ کمپنی’ میں پرکشش نوکری ملی، تین دن کے بعد اس نے دفتر جانا بند کر دیا اور والدہ کو اطلاع دی کہ یہ ادارہ غیرقانونی اور غیراخلاقی کاروبار میں ملوث ہے۔ اپنی ماں کے مشورے پر بیٹے نے ایف آئی اے سے رجوع کیا اور ساری تفصیلات سامنے رکھ دیں مگر ہوا کچھ نہیں۔
نیو یارک ٹائمزنے ‘ایگزیکٹ’ کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’یہ کمپنی عالمی سطح پر بڑے تعلیمی فراڈ میں ملوث ہے، یہ آئی ٹی بزنس کی آڑ میں جعلی ڈگریوں کا دھندا کرتی ہے، ہائی اسکول کی سند سے لے کر پی ایچ ڈی کی ڈگری تک، دو سو ڈالر کی قیمت سے دو لاکھ ڈالر تک، اس نے بڑے عالمی شہرت کے اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں سے ملتے جلتے ناموں کے جعلی ادارے بنا رکھے ہیں جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں۔ تین سو ستر ویب سائٹس بنا رکھی ہیں اور آن لائن تعلیم کا جھانسہ دیا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2006ء میں ایگزیکٹ نے ایک دن میں ڈپلوما کے کاروبار سے 4 ہزار ڈالر کمائے، اب یومیہ ایک لاکھ 20 ہزار ڈالر کما رہی ہے۔ ایف بی آئی کے ایک ایجنٹ کا کہنا ہے کہ یہ اسکینڈل سانس روک دے گا۔
نیویارک ٹائمز میں اس مضمون کی اشاعت کے چند گھنٹے بعد وزیرداخلہ کے حکم پر ایف آئی اے نے چھاپے مارے، ساتھ ہی ایف بی آر بھی حرکت میں آئی، سندھ کا بورڈ آف ریونیو بھی جاگ پڑا۔ اس سلسلے میں نیویارک ٹائمز کے ایڈیٹوریل بورڈ نے ایک طویل اداریہ بھی لکھا ہے، اداریے میں یہ سوال اٹھا یاگیا ہے کہ پاکستان کے تمام ادارے اس مضمون کی اشاعت کے بعد ہی حرکت میں کیوں آئے؟ کیا حکومت اس سے پہلے بے خبرتھی؟ اگر بے خبر تھے تو نالائق، باخبر تھے تو بدعنوان اور شریک جرم۔ ‘ایگزیکٹ’ کا ایک آفس دبئی میں بھی ہے جو دو برس سے بند پڑا ہے۔
دو برس سے نہ کوئی ملازم آیا اورنہ ہی کسی مالک کو اس آفس کی ضرورت محسوس ہوئی۔ پاکستان میں متعلقہ ادارے کافی حد تک اس فراڈ سے آگاہ تھے۔ ایف بی آر اس کمپنی کے ٹیکس معاملات کو جانتا تھا، نیب کو اُن کے غیرقانونی دھندے کی تحریری اطلاع تھی۔اگرایگزیکٹ کمپنی کے مالک شعیب احمد شیخ ان تمام جرائم میں ملوث ہیں جو نیویارک ٹائمز نے اُن پر لگائے ہیں اور جن کوپاکستان میں تعلیم کے شعبے سے تعلق رکھنے والوں نے صیح تسلیم کیا ہے جن میں ایک بڑانام ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمان کا ہےتو شعیب احمد شیخ جو یہ کہتے ہیں کہ وہ بِل گیٹس سے بھی زیادہ امیر آدمی بننا چاہتے ہیں،
شاید ایسا ممکن بھی ہوجائے، لیکن شعیب احمد شیخ وہ عزت کہاں سے لاو گے جو بِل گیٹس نے اپنی انتھک محنت ، ایمانداری اور اپنے کام سے بے پناہ لگاؤ کے نتیجے میں حاصل کی ہے۔پاکستان میں ہر طرف کرپشن ہی کرپشن ہے، لگتا ہے پاکستان کو کرپشن انگریزوں سے ایسے ہی ملی جیسے اولاد کو باپ سے وراثت ملتی ہے۔ ایگزیکٹ کے چیف شعیب احمد شیخ نے ہمارے ملک کا نام ایسے ہی روشن کیا ہے جیسے ما ں باپ کی نالائق اولاد۔ویسے آپ شعیب احمد شیخ کو جعلی پاکستانی بِل گیٹس بھی کہہ سکتے ہیں۔
تحریر : سید انور محمود