تحریر: مقدس ناز۔ واہ کینٹ
وطن عزیز کو جس طرح کرپشن ، بے روزگاری، مہنگائی، قانون شکنی ایسی بیماریوں نے اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے، اسی طرح ایک اور بیماری ہے جس کا تزکرہ نہ کرنا اور اسے منظرعام پرنہ لانا قلم کے ساتھ بہت بڑی نا انصافی ہو گی اور اس بیماری کا نام جعلی عاملوں کی یلغار ہے۔ روزانہ ہر اخبار بڑے بڑے اشتہاروں سے مزین نظر آتا ہے۔
جس میں مختلف عاملوں کے بلند بانگ دعوے پڑھنے کو ملتے ہیں جن میں عوام الناس کو ترغیب دی جاتی ہے کہ یہا ں پر تشریف لائیں اور اپنی من پسند مرادیں پائیں ۔ ان اشتہاروںکی طرف کھیچنے جانے والوں میں زیادہ تعداد ان بیوقوف لوگوں کی ہے جو جلد سے جلد اپنی زندگی کو سہل بنانا چاہتے ہیں اور مشکلات سے چھٹکارہ پانا چاہتے ہیں۔ ان ڈ ھونگی عاملوں کے مطابق یہ کام جنات اور اپنے موکلات سے کرواتے ہیںجن کو بعد میں نذرانہ پیش کرنا پڑتا ہے۔ یہ عامل ان پڑھ اور بیوقوف لوگوں خصوصا خواتین کو بھاری معاوضوں کے عوض دھڑا دھڑ لوٹ رہے ہیں۔
پورا معاشرہ جعلی عاملوں کی لپیٹ میں ہے ، جس کا جی چاہتا ہے اپنے لئے من پسند القابات اختیار کر کے عوام کو لوٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ پھنسنے والوں میں زیادہ تعداد عورتوں کی ہے۔کوئی اولاد یا اولاد نرینہ کے چکر میں اپنی عزت اور دولت سبھی لوٹا دیتی ہیں۔ کسی کو جادو سے چھڑکارا چاہیے، تو کہیں ساس اور نندوں سے، کہیں بہوکی زبان بند کروانے کی فکر لاحق ہے تو کہیں حسد میں کسی کے کاروبار میں بندش کی ضرورت پیش ہے ، کسی کو سنگدل محبوب قدموں میں چاہیے اور ان سب کا حل صرف جعلی عاملوں کے پاس ہوتا ہے ۔ ان جعلسازوں کے اڈے ذیادہ تر مزاروں یا پسماندہ علاقوں میں ہوتے ہیں ، کیونکہ ایسی جگہوں پر غربت ، جہالت ، توہم پرستی اور ضعییف الاعتقادی کی فراوانی ہوتی ہے اور ایسے لوگ آسانی سے بے وقوف بن جاتے ہیں۔ بلکہ شہروں میں بھی ان کے ٹھکانے ہیں۔ جنہیں آستانوں کا نام دیا جاتا ہے۔ جو بڑی دلیری کے ساتھ کمزور ایمان رکھنے والے مردوں اور عورتوں کو لوٹ رہے ہیں۔
سینکڑوں ایسی عورتیں بھی ہیں جو ان کے آستانوں پر حاضری دیتی ہیں اور ان کی ساتھ آنے والے مرد باہر انتظا ر کرتے ہیں اندر جانے والی عورتوں کے ساتھ وہاں کیا ہوتا ہے اس سے سبھی واقف ہیں ۔ جادو کے توڑ کی آڑ میں یہ جعلی عامل کیا مکرو حرکات کرتے ہیں وہ ہم سب ہر روز سوشل میڈیا پہ سنتے اور دیکھتے بھی ہیں۔ کہیں پر عورتوں کی عزت کو داغ دار کیا جارہا ہے تو کہیں زندہ دفن یا جنات کو بھگانے کے لیے جلایا جا رہا ہے۔
درحقیقت ان جعلی پیروں کے پاس دینی علم سرے سے ہی نہیں ہوتا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ علم ہوتا ہی نہیںمحض چرب زبا نی کے بل بوتے پر اور کم علم لوگوں کو ڈرا دھمکا کر اپنے پیچھے لگا لیتے ہیں۔
جعلی ڈاکٹر ، جعلی سیاست دان ، جعلی دانش ور، جعلی مبلغ، جعلی مجاہد، جعلی پیر اور عامل ۔۔۔۔۔۔ کیا اس قوم کے لیے کوئی شئے اصلی بھی ہے؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان علما اور عوامی نمائندے اس سنگین مسئلہ کی طرف سنجیدگی سے غور کریں اور ان جعلی پیروں اور عاملوں کے خلاف کریک ڈائون شروع کرے تاکہ بے وقوف عوام کو ان ڈھونگیوں سے نجات مل سکے ۔ قانون کے محافظوں کو اس گندگی اور بیماری کو ختم کرنے کے لئے اپنا رول ادا کریں ۔ اور لوگوں کو آگاہی دینی ہوگی تاکہ وہ اپنی سوچ کو تبدیل کر سکیں اور جعلی اور اصلی میں فرق کر سکیں۔
تحریر: مقدس ناز۔ واہ کینٹ