تحریر : محمود احمد خان لودھی
کیا کسی بھی ریاست کے پاس خود کو ریاست کہلوانے کا کوئی حق باقی رہ جاتاہے جب ریاست کے محافظ ہی لوگوں کو حراست میں لیکر قتل کرنا شروع کردیں اور عام شہری ایسے اقدامات سے خوفزدہ ہو کر ریاست میں خود کو ہر لمحہ غیر محفوظ تصور کرنے لگیں یوں تو یہ دو چار برس کی بات نہیں مگرگزشتہ دو چار برسوں کے اخبارات کو کھنگال کر ہی دیکھ لیجئے شاید ہی کوئی ایسا دن ہوگا جب ملک کے کسی نہ کسی کونے سے جعلی پولیس مقابلہ کی کوئی خبر اخبار میں شامل نہ ہواور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے ریاست میں امن وامان برقرار رکھنے اور شہریوں کی جان و مال کو محفوظ بنانے کا ذمہ دار ادارہ ”محکمہ پولیس ” اپنے ان جعلی پولیس مقابلوں کی وجہ سے عوام النا س میں بدنام ہو کررہ چکا ہے پولیس افسران/ اہلکارریاست کی طرف سے عطاء کردہ اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے پسند نا پسند کی بنیادوں پر چھوٹے کیسوں کے ملزمان کو بھی ان مقابلوں میں پار کرنے سے گریزنہیں کرتے اور جعلی پولیس مقابلوں کی ایف آرز کا اگر سرسری جائزہ بھی لیا جائے تو تمام ایف آئی آرز کے مندرجات ، واقعات آپس میں گہری مماثلت رکھتے ہیںپولیس اہلکار کسی بھی مقام سے مخبری پر اگر کسی مطلوب ملزم کو گرفتار کرلیں تو ملزمان کو عدالتوں میں پیش کرکے ریمانڈ حاصل کرنے کی بجائے روایتی طریقہ سے اپنی تفتیش مکمل کرلیتے ہیں اور پھر ملزمان کے اثر ورسوخ یا مالی حیثیت کو پرکھ کر مقابلہ بنانے یا قانونی گرفتاری ڈالنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
کئی دفعہ اخبارات میں ملزمان کی گرفتاری کی ایڈوانس خبریں شائع ہوجاتی ہیں مگر پولیس عجلت میں جعلی پولیس مقابلوں میں ملزمان کو پار کردیتی ہے پولیس کی طرف سے جعلی پولیس مقابلوں کے بعد ایسی خبریں ریکارڈ کا حصہ بھی بنتی ہیں جو جعلی پولیس مقابلوں کی مکمل قلعی کھول کررکھ دیتی ہیں مگر بدقسمتی سے بھائی بندی کی بنیاد پر آج تک کسی بھی پولیس افسر یا اہلکار کو قانون ہاتھ میں لیکر کئے جانے والے ماورائے عدالت قتل کی سزا نہیں ہوئی کہیںپولیس اہلکاروں ،افسروں کومقتول کے ورثاء یا عوامی پریشر بڑھنے پر چند روز کیلئے معطل بھی کیا جاتا ہے مگر اگلے ہی دنوں میں پورے اعزازات کیساتھ بحال کردیا جاتا ہے۔ جعلی پولیس مقابلے زبان زد عام ہونے کے باوجود بعض پولیس افسران کو جعلی پولیس مقابلوں کی وجہ سے حلقہ ارباب اختیار و اقتدار میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ ایسے ہی ایک پولیس افسر کے دور میں ضلع گوجرانوالہ میں پولیس مقابلوں میں مرنے والے ملزمان کو جانوروں کی طرح گاڑیوں میں ڈال کر شہر کے اہم چوکوں، چوراہوں میںگھمایا گیا۔ بہادری کے ان کارناموں پررائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے کیلئے نام نہاد عوامی لیڈروں، خصوصی چمچوں کے ذریعے علاقہ بھر میں خیر مقدمی بینرز آویزاں کرنے کے علاوہ گل پاشی کا کام بھی لیا جاتا ہے۔ آئین، قانون ، انصاف کو روند کر ریاست کے اپنے ہی اداروں کی طرف سے انسانوں کاقتل عام بہت بڑی زیادتی اور ریاست ،ریاستی اقدار کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ایسے واقعات سے ریاست کے باسیوں میں سخت خوف پایا جاتا اور قانون شکنی کی عادات میں اضافہ ہوتا ہے۔
اس طرح کے مقابلوں کیلئے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ پولیس کے چند مسلح اہلکار باوردی یا سول میں کسی گاڑی کے اوپر پردہ ڈال کر ملزمان کو چھپا کر کسی ایک علاقہ میں داخل ہوتے ہیں اطراف کی سڑکوں پر ناکے لگا کرعا م شہریوں کی آمدورفت روک دی جاتی ہے ایک آدھ فائر کی آواز آتی ہے پھراگلے ہی لمحے معلوم ہوتا ہے کہ علاقہ میں پولیس مقابلہ ہوگیا ہے اور ڈاکو یا خطرناک دہشت گرد مارے گئے ہیں اب دوسروں پر اپنی دھاک بٹھانے کیلئے گاڑی میں مرنے والوں کی میتوںکی کوگاڑی کے فرش پر پھینک کر شہر بھراور مضافاتی علاقوںمیں پھرایا جاتا ہے حقیقت میں ایسے اقدامات سے جرائم پیشہ افراد کو تو کوئی اثر نہیں ہوتا مگر پولیس کے اس انسانیت سوز رویہ سے عوامی نفرت میں مزید اضافہ ہوتا ہے جائے وقوعہ (فرضی) کی صورتحال یہ ہوتی ہے کہ مرنے والوں کے پاس خود کار اسلحہ پڑا ہوتا ہے کہانی میں ایک دو ساتھی فرار ہوجاتے ہیں یا تحویل میں لئے گئے ملزم کی نشاندہی پر پولیس جرائم کے اڈوں پر ریڈ کرنے جارہی ہوتی ہے زیر حراست ملزم کے ساتھی اسے چھڑانے آجاتے ہیں جو آتے ہی اندھا دھند فائرنگ کردیتے ہیں او ر اس فائرنگ سے پولیس اہلکاروں کو زیادہ تر کوئی خراش بھی نہیں آتی جبکہ زیر حراست ملزم کو اپنے ہی ساتھیوں کی گولی لگتی اور وہ ہتھکڑیوں میں جکڑا ہوا ہی اﷲ کو پیارا ہوجاتا ہے
اگر پولیس اہلکاروں میں سے کسی کو کوئی زخم آ بھی جائے تو وہ اس طرح کا ہوتا ہے کہ معمولی مرہم پٹی کیساتھ اگلے دو چار دنوں میں ٹھیک ہوجاتاہے ایک مقدمہ کے ملزم کیساتھ پولیس تحویل میں اتنی بڑی زیادتی ہوجاتی ہے کہ اس کی جان چلی جاتی ہے مگر کوئی بھی پولیس اہلکاروں کی اس نام نہادبہادری پر حرف نہیں اٹھاتا کوئی ادارہ کوئی افسر نہیں پوچھتا کہ تم کس طرح کے محافظ ہو کہ جب تمہاری تحویل میں رہ کر بھی کسی کی جان محفوظ نہیں، کوئی پولیس افسر اس ناکامی پر معطل نہیں ہوتا یا اس بہادری پر اسے سزا نہیں دی جاتی۔ایسے ہی ایک مقابلے کا حال گزشتہ روز بار ایسوسی ایشن وزیرآباد کے سنیئر رکن سابق نائب صدر بار بشارت علی سندھونے بتایا انہی کی زبانی جانتے ہیں۔انہوں نے الزام لگایا کہ پولیس تھانہ گکھڑ نے ان کے بھائی کو حراست میں لیکر بعدازاں جہلم پولیس کی مدد سے جعلی مقابلہ میں پار کروایا ہے اوران کے بھائی کے ماورائے عدالت قتل میں ایس ایچ او تھانہ گکھڑ عامر شاہین گوندل ،سی پی او گوجرانوالہ وقاص نذیر، ایس پی صدر اقرار شاہ اور دیگر پولیس افسران ملوث ہیں جن کی مشاورت اور مددسے پولیس نے ان کے بھائی کومبینہ طور پر قتل کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔
بار ہال وزیرآباد میں صدر بار اعجاز احمد پرویا اور جنرل سیکرٹری محمد بلال شیخ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے بشارت علی سندھو نے بتایا کہ ان کے بھائی پر اغواء قتل کا ایک بے بنیاد مقدمہ درج تھا اور اس مقدمہ میںبنائے گئے وقوعہ کے وقت ان کا بھائی قیصر سندھو بیرون ملک تھا جس کی انکوائری باقاعدہ طور پر ایف آئی اے کی طرف سے ہوچکی تھی جس میں وہ بے گناہ پایا گیا قیصر کی ملک میں عدم موجودگی کی وجہ سے اسے عدالتی اشتہاری کردیا گیا۔ قیصر کی بیرون ملک سے واپسی کے بعدکرن وغیرہ کی مخبری پر ان کے بھائی کو پولیس چوکی لدھیوالہ وڑائچ نے گرفتار کیا اور ایس ایچ اوعامر شاہین گوندل کے حوالہ کردیا جس نے قیصر محمود سندھو کوتھانہ گکھڑحوالات میں بند کررکھا تھاجس سے وہ(بشارت) اور ان کے بڑے بھائی طاہر محمودملاقات کر کے آئے تھے ایس ایچ او عامر شاہین گوندل نے کہا کہ قیصر عدالتی اشتہاری ہے اسے صبح ہونے پر علاقہ مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کر کے ریمانڈ حاصل کیا جائے گا۔ قیصر محمود کیلئے دوبارہ جب کھانا لیکر آئے تو اسے حوالات میں نہ پاکر ایس ایچ او عامر شاہین گوندل سے قیصر کی بابت دریافت کرنے پر SHO نے بتایا کہ منیر احمد سب انسپکٹر اور اے ایس آئی ارشاد اﷲ دیگر ملازمین کے ہمراہ قیصر کو CPO گوجرانوالہ وقاص نذیر کے پاس پیش کرنے کیلئے لے گئے ہیں ۔ اگلے روز کے اخبارات میں سی پی او گوجرانوالہ کی پریس کانفرنس کے حوالہ سے خبر شائع ہوچکی تھی جس میں ایس ایچ او عامرشاہین گوندل اور ساتھیوں کو قیصر کی گرفتاری کی کارکردگی کے نام پر نقد انعام اور تعریفی اسناد کا اعلان کیا ۔بشارت علی سندھو نے بتایا کہ ہم عامر شاہین کے بتائے ہوئے وقت پر عدالت میں اپنے بھائی کو پیش کرنے کا انتظار کررہے تھے اس دوران تھانہ گکھڑ منڈی سے اطلاع آگئی کہ قیصرمحمود سندھو کی نعش ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال جہلم میں پڑی ہے جا کر لے آئیں ۔بشارت سندھو ایڈووکیٹ کے مطابق ایس ایچ او تھانہ گکھڑ عامر شاہین گوندل ،سی پی او گوجرانوالہ، ایس پی صدر اقرار شاہ نے مدعیہ شمع پروین ، شمع پروین کی بہن ، بھانجے اور کرن کے علاوہ ڈی ایس پی جہلم شاہدصدیق ، انچارج سی آئی اے جہلم راجہ منیب اقبال، ایس ایچ او تھانہ سول لائن جہلم خالد محمود ستی کیساتھ ساز باز کر کے قیصر محمود کو حوالہ جہلم پولیس کردیا پولیس افسران نے گکھڑ منڈی میں قیصر محمود کی ہونے والی گرفتاری جس کی بابت خبریں بھی شائع ہوچکی تھیںکوسرے سے نظر انداز کرکے قیصر محمود وغیرہ کو نیو پل جہلم سے گرفتار کرنا اور اغواء کے مقدمہ میں ملوث ظاہر کیا
جسکی نئی پریس کانفرنس DPO آفس جہلم میں رات نو بجے کی گئی جبکہ اسی رات ڈیڑھ بجے ایک فرضی جعلی کہانی بنا کر قیصر محمود کو جعلی پولیس مقابلہ میں پار کردیا گیااور من گھڑت کہانی کے مطابق بنائے گئے وقوعہ کی ایف آئی آر نمبری114/15بجرم302/324،354 ت پ درج کی گئی۔ بشارت سندھو نے کہا کہ گوجرانوالہ پولیس کی ایماء پر جہلم پولیس نے جعلی پولیس مقابلہ میں ان کے بھائی قیصر محمود کو پار کرکے سخت زیادتی ناانصافی کی اور ماورائے عدالت قتل سے انصاف کی دھجیاں اڑا کررکھ دی ہیں۔ بشارت علی سندھو ایڈووکیٹ،صدر بار وزیرآباداعجاز احمد پرویا، جنرل سیکرٹری شیخ محمد بلال نے اعلیٰ حکومتی حکام، چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان ، چیف جسٹس ہائیکورٹ پنجاب لاہور سے مطالبہ کیا ہے کہ جعلی پولیس مقابلہ میں ہونے والی قتل کی اس واردات کا از خود نوٹس لیتے ہوئے پولیس افسران کو تا انکوائری معطل کر کے جوڈیشل انکوائری ضلع جہلم سے باہر کسی سیشن جج سے کروائی جائے اور جعلی پولیس مقابلہ کے ملزمان کو قرار واقعی سزا دلوائی جائے۔بشارت علی سندھو ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہمیں انصاف نہ ملا تو ہم سڑکوں پر آئیں گے”۔ یہ تو ایک واقعہ ہے مگر ایسے سینکڑوں واقعات ریاست کی کمزوری ،چند خاندانوں، افسروں اور برسراقتدار شخصیات کی اجارہ داری کو ظاہر کرتے ہیں ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے اگر مناسب اقدامات نہ اٹھائے گئے ،جعلی مقابلوں کا سلسلہ بند نہ ہوا تواس ملک اور اس کی غریب عوام کا اﷲ ہی حافظ ہے ۔ریاست کو ریاست کا اصل درجہ دلوانے کیلئے دیگر ضروری اقدامات کیساتھ جعلی پولیس مقابلوں کی روک تھام اشد ضروری ہے۔
تحریر : محمود احمد خان لودھی