تحریر : محمد صدیق پرہار
معاملہ سٹنٹ سے شروع ہوتاہے۔ایک قومی اخبارکی خبرکے مطابق شیخ محمداجمل نے ڈائریکٹر ایف آئی اے کودی گئی درخواست میںموقف اختیارکیاکہ وہ دل کامریض ہے۔گلاب دیوی ہسپتال کے امراض قلب یونٹ میں داخل ہواتوڈاکٹروںنے انجیوگرافی کرکے بتایادل کی دواہم ترین شریانیںبندہیں فوری طورپر سٹنٹ ڈالنے پڑیں گے۔جس کے گلاب دیوی کارڈیک سنٹرنے رعایت کے بعدایک لاکھ اٹھانوے ہزارروپے وصول کیے اوربتایاکہ سٹنٹ ڈال دیے ہیں ۔ آٹھ ماہ گزرنے کے بعددوبارہ دل میں تکلیف ہوئی تواسے پی آئی سی لاہورلایاگیاجہاں دوبارہ دل کی انجیوگرافی کرائی گئی توڈاکٹروںنے انکشاف کیاکہ ان کی کسی شریان میں سٹنٹ موجودنہیںہے۔جب میںنے وضاحت چاہی توڈاکٹروںنے موقف اختیارکیاکہ ڈالے سٹنٹ جذب ہوگئے ہیں۔اب آپ کوتین نئے سٹنٹ ڈالے جائیں گے۔بعدازاں ایک اورسنٹرمیں رپورٹ کروائی توڈاکٹروںنے کہا کہ سٹنٹ جذب نہیں ہوئے حقیقت یہ ہے کہ ڈالے ہی نہیں گئے ۔ ڈا ئر یکٹر ایف آئی اے نے تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی بنادی اورمعاملہ محکمہ صحت اورہیلتھ کیئرکمیشن کوبھی بھجوادیا۔سپریم کورٹ کوبھجوائی گئی ابتدائی رپورٹ میں ایف آئی اے نے لکھا ہے کہ میوہسپتال کے ڈاکٹراوردیگرعملے کی نگرانی میںغیررجسٹرڈ سٹنٹ کی فروخت جاری تھی۔غیرمتعلقہ افرادہسپتال کے آپریشن تھیٹرمیںسٹنٹس کی فروخت کے لیے موجودتھے۔چھاپے کے دوران مہنگے سٹنٹس فروخت کرنے والے کوئی لائسنس نہ دکھاسکے۔ایف آئی آرکے لیے کیس ڈرگ ریگولیٹری کوبھجوادیا۔ غیر ر جسٹر ڈ سٹنٹس کی فروخت کاچیف جسٹس نے ازخودنوٹس لیاتھا۔
واضح رہے کہ ایف آئی اے کی ایک ٹیم نے میوہسپتال میںچھاپہ مارکربھاری تعدادمیںسٹنٹس قبضے میں لے لیے تھے۔یہ تمام سٹنٹس پاکستان میں رجسٹرڈ پائے گئے کسٹم حکام کے ریکارڈ کے مطابق ساڑھے تین کلوگرم وزنی سٹنٹ اڑھائی لاکھ روپے میں خرید کر چھ کروڑ روپے میں فروخت کے گئے جس میں ڈاکٹروںنے بھی اپناحصہ وصول کیا۔ کمپنیوںکاغیرقانونی دھندہ پکڑکراس کاکیس ابتدائی تحقیقات کے لیے صوبائی ڈرگ کوالٹی بورڈ کے حوالے کردیاتھا۔ذرائع کاکہناہے کہ پاکستان میںکل بتیس کمپنیاں سٹنٹ فراہم کرتی ہیں۔جن کے سٹنٹوںکی خریداری کی تحقیقات کا آغاز کر دیاگیاہے۔ذرائع ایف آئی اے کاکہناہے کہ لاہورکے ایک بڑے کارڈیکس سنٹرمیںبھی غیررجسٹرڈ کارڈیکس کادھندہ ہورہا ہے۔ذرائع کاکہناہے کہ آٹھ بڑے امراض قلب کے ڈاکٹرزجن میںاکثریت پروفیسروںکی ہے اس دھندہ میںملوث ہیں۔جوکمپنیوںسے مل کرمریضوںکولوٹ رہے ہیں۔پانچ ہزارسات سو رو پے والاسٹنٹ کمپنیاں ان ڈاکٹروںسے مل کرایک لاکھ اسی ہزارسے دولاکھ اسی ہزارمیں فروخت کرتی رہیں۔اغیرمعیاری سٹنٹ ازخودکیس میں چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثارنے ریمارکس دیے ہیں کہ ادارے اپناقبلہ درست کریں غیرذمہ داری برداشت نہیںکریںگے۔ڈاکٹربریف کیس سے سٹنٹ نکال کر مریضوںکوڈال دیتے ہیں مریض کوسٹنٹ بارے علم ہوناچاہیے۔وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کی زیرصدارت اجلاس میں چیئرمین وزیراعلیٰ معائنہ ٹیم نے غیر رجسٹرڈ سٹنٹ کے معاملے میںرپورٹ پیش کی۔وزیراعلیٰ نے غیررجسٹرڈ سٹنٹ خریدنے اورمریضوںلگانے کے واقعہ پرشدیدبرہمی کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ غیررجسٹرڈ سٹنٹ کے حوالے سے محکمے اورڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان نے اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن ادانہیں کیں۔
وزیراعلیٰ نے اس ضمن میں ہسپتالوں کے مکمل آڈٹ کاحکم دیا۔اوررجسٹرڈ سٹنٹ خریدکرمریضوںکولگانے پرملتان اورفیصل آبادکے انسٹی ٹیوٹس آف کارڈیالوجیز کی انتظامیہ کوشاباش دی ۔ اور کہااگرملتان اورفیصل آبادمیںرجسٹرڈ سٹنٹ خریدکرمریضوںکولگائے جاسکتے ہیںتوپھربعض ہسپتالوں میں غیررجسٹرڈ استعمال کرنے کی کیاوجہ ہے۔ان کا کہنا تھا ۔ غیررجسٹرڈ کے حوالے سے مافیاکاگٹھ جوڑ توڑیں گے جبکہ وزیرصحت پنجاب خواجہ سلمان رفیق کہتے ہیں کہ دل کے مریضوںکوڈالاجانے والاسٹنٹ کبھی جعلی نہیں ہوتا نہ ملک میںبنتاہے۔سینئرفارماسسٹ نورمحمدکہتے ہیں کہ سٹنٹس کاکوئی ریکارڈ ہے نہ اس حوالے سے قیمت کی کوئی پالیسی ہے۔ جعلی اورغیرمعیاری سٹنٹ کے یہ تووہ رپورٹیں ہیںجواخبارات میں شائع ہوئی ہیں ۔نہ جانے کتنے ایسے مریض ہوں گے جن کے ساتھ اس طرح کاسلوک کیاگیاہوگا۔یہ سلسلہ یہاں تک ہی ختم نہیںہوتا۔ ایک قومی اخبارمیں ملتان سے خبرہے کہ ذرائع کے مطابق محکمہ صحت پنجاب کے نوٹس میںلایاگیا ہے کہ سیالکوٹ میں تیرہ سے زائدکمپنیاںبرسوںسے سرجیکل سامان غیرملکی ظاہرکرکے فروخت کررہی ہیں۔سرکاری ونجی ہسپتالوںمیں ملی بھگت سے راڈ، پلیٹس، گولہ غیرملکی کمپنیوںکالیبل لگاکرفروخت کیا جاتا ہے۔
ناقص سرجیکل سامان کے باعث کچھ عرصہ بعدہی مریض کے متاثرہ حصے میں پیپ پڑ جاتی ہے۔اوردوبارہ آپریشن کرواناپڑتاہے۔ایک قومی اخبارمیں ملتان سے خبرہے کہ سرکاری ہسپتالوںمیں غیررجسٹرڈ میڈیکل ڈیوائسزکابڑے پیمانے پراستعمال کاانکشاف ہواہے۔کارڈیک سرجری میںکروڑوں روپے کے غیررجسٹرڈ ہارٹ والوبھی مریضوںکوڈالے گئے ہیں۔جعلی ادویات بنانے والی فیکٹریوں کی جوتفصیل اخباروںمیں شائع ہوئی ہے وہ قارئین پڑھ چکے ہوں گے۔ تحریر کی طوالت کی وجہ سے جعلی ادویات بنانے والی فیکٹریوںکی تفصیل نہیں لکھی جارہی ہے۔اس حوالے سے ایک اورخبرہے کہ مخصوص مافیاایران اوربھارت سے انتہائی سستااورکم معیارکاخام مال منگواکربڑی کمپنیوں کے ناموںسے ملتی جلتی ادویات اورانجکشن تیارکرکے مارکیٹ میں فروخت کررہاہے۔بیس سے پچیس روپے میں تیارہونے والاانجکشن تین سوسے پانچ سوروپے میں دھڑلے سے فروخت کیاجارہا ہے۔سرکاری اورپرائیویٹ ہسپتال بھی اصل اوردیرپااثروالی میڈیسن خریدنے کی بجائے اسی کم کوالٹی ،رامیٹریل والی میڈیسن خریدکربڑافائدہ لے رہے ہیں۔اس انکشاف پروزیراعلیٰ کے حکم پرآپریشن بھی کیاجارہاہے۔اعلی سطح کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے کہا کہ جعلی ادویات کے گھنائونے کاروبارمیںملوث انسانیت کے دشمن عناصرکی جگہ جیل ہے۔کسی کوبھی معصوم زندگیوںسے کھیلنے کی اجازت نہیںدی جاسکتی۔غیرمعیاری اورجعلی ادویات بنانے والی فیکٹریوںکوہمیشہ کے لیے بندہوناچاہیے۔
جعلی ادویات کے نمونے پاس کرنے والے بھی کسی رعائت کے مستحق نہیں۔جعلی ادویات کی روک تھام اوراس میںملوث عناصرکوقانون کے کٹہرے میںلانامحکمہ صحت کی ذمہ داری ہے ۔ انہوںنے چیف سیکرٹری کوجعلی ادویات کے نمونے پاس کرنے والی لیبارٹریوںاورادویات تیارکرنے والی فیکٹریوں کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ عوام کوجعلی ادویات سے بچاناخلق خداکی بڑی خدمت ہے۔ انہوںنے محکمہ صحت کوادویات بنانے والی فیکٹریوںکولائسنسوںکے اجرااوران کی تجدید کے حوالے سے جامع لائحہ عمل مرتب کرنے کی ہدایت کی۔شہبازشریف نے کہا کہ جعلی ادویات بنانے والے ایک لمحے کے لیے سوچیںکیاوہ یہ ادویات اپنے بچو ں کوبھی دے سکتے ہیں۔ڈرگ ریگولیٹری اٹھارٹی کے چیف آپریٹنگ آفیسرسلمان افغانی نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کوبریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں سالانہ تین ارب ڈالرکی مالیت کی ادویات میں دوفیصدکے قریب غیرمعیاری ،زیرواشاریہ ایک فیصدجعلی ہوتی ہیں۔ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے جعلی اورغیرمعیاری ادویات کی روک تھام کے لیے پاکستان میں پہلی مرتبہ کوڈرولزکے تحت ادویات کی پیکنگ کوٹیکنالوجیکل ٹولزکے ذریعے کوڈنگ سسٹم متعارف کرانے کافیصلہ کیاہے۔جس کے تحت ادویات خریدنے والااپنے موبائلزکے ذریعے اصلی یانقلی ہونے کاپتہ چلاسکے گا۔
اتھارٹی نے ملک میں پہلی بارکم استعمال ہونے والی ادویات کی فراہمی کویقینی بنانے کے لیے قیمتیں بنگلہ دیش ،انڈیاکے برابرمقررکرنے کافیصلہ کیاہے۔تاکہ ادویات مارکیٹ میں بلیک نہ کی جاسکیں۔ مقررکردہ قیمت سے زائدفروخت کرنے پرفارماسیوٹیکل کمپنی کے مالک کوایک سے دس کروڑ جرمانہ تین سال قید،ڈسٹری بیوٹرکوایک سے دس لاکھ جرمانہ دوسال قید،ریٹیلرکوایک لاکھ روپے جرمانہ اورایک سال قیدکی سزادی جاسکے گی۔خبرہے کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے ادویات کی رجسٹریشن کاڈیٹاکمپیوٹرائزڈ کرنے کافیصلہ کرلیا ہے۔حکومت نے ادویات کے بارے میں قوانین وقواعدمیں ترمیم کافیصلہ کیاہے جس کے تحت صوبائی مانیٹرنگ ٹیم سمیت ڈرگ انسپکٹرکے اختیارات میں اضافہ کیاگیا ہے۔غیررجسٹرڈوجعلی ادویہ کی تیاری ،فروخت، درآمدبرآمدپرتین سے دس سال قیداوراڑھائی کروڑ روپے جرمانہ کی تجویزدی گئی ہے۔پنجاب کیمسٹ کونسل کی جانب سے صوبہ بھرکی کیمسٹ ایسوسی ایشن کوجاری مراسلے میںبتایاگیا ہے کہ حکومت پنجاب جعلی ادویات کے خاتمے کی آڑمیں محکمہ صحت کے ڈھانچے میں تبدیلی لارہی ہے۔ایلوپیتھک کے ساتھ ہربل یونانی ،ہومیوپیتھک اورآلٹرنیٹوادویات کی تیاری اورسیل بھی اس کی زدمیںآرہی ہے۔پنجاب بھر میں نئے ڈرگ سیل لائسنس کااجراء بنداورموجودہ لائسنس کی تجدیدکوبھی جولائی دوہزارسترہ تک محدودکردیاگیا ہے۔سب سے اہم تبدیلی صوبائی ڈرگ مانیٹرنگ ٹیموں کاقیام ہے۔جن کی میعادصوبائی حکومت کی مرضی پرمنحصرہوگی۔ٹیم کومزیدرولزریگولیشن بنانے ڈرگ انسپکٹرکے اختیارات استعمال کرنے ، ادویات کی تیاری ،فروخت کرنے کامعائنہ کرنے کالائسنس معطل ،منسوخ کرنے کی تجویزدینے کااختیارہوگا۔
تمام میڈیکل سٹورمالکان متفق ہوجائیں کہ غیرمعیاری اورجعلی ادویات نہ خریدیں گے اورنہ ہی فروخت کریں گے۔انہیں مریض سے پیسے لے کرسٹنٹ نہ ڈالنے والے ڈاکٹروں کے خلاف بھی مظاہرہ کرناچاہیے تھا۔جرائم پیشہ افرادکی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے نہ کہ ان کے ساتھ اظہاریکجہتی کرکے حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ وزیراعلیٰ ہائوس میں پنجاب حکومت کے نمائندوں اور فارماسیوٹیکل کمپنیوںکے نمائندگان کے درمیان مذاکرات میں فریقین نے جعلی ادویات بنانے والوں کے خلاف سخت کارروائی پراتفاق کیا۔حکومتی ارکان نے کہا کہ کسی قسم کی زیادتی میں حکومت آپ کے ساتھ ہے لیکن آپ بھی تعاون کریں جس پر فارما سیوٹیکل نمائندوںنے حکومت پنجاب کویقین دہانی کرائی کہ جعلی ادویات کاکاروبارکرنے والوںکوالٹالٹکادیںہم آپ کے ساتھ ہیں۔ڈرگ ایکٹ میں ترمیم پر نظرثانی کے لیے پنجاب حکومت، محکمہ صحت،فارماسیوٹیکل کمپنیوںکے علاوہ میڈیکل سٹورمالکان پرمشتمل پانچ رکنی کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے۔سزائوں اور جرمانوںپربھی نظرثانی کی جائے گی۔
اجلاس میں طے پایاکہ بین الاقوامی معیارکومدنظررکھتے ہوئے برطانیہ، امریکہ کے کنسلٹنٹ کی خدمات لی جائیں گی۔عالمی سطح کے طے شدہ معیارکے مطابق ڈرگ ایکٹ دوہزارسترہ میں اسمبلی کے ذریعے ترمیم کی جائے گی۔ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی سے رجسٹرڈہربل، ہومیوکمپنیاں قانونی کہلائیں گی۔یہی صورت حال ڈسپنسرکے لائسنس کی تجدیدسے بھی مشروط کی گئی ہے۔ بصورت دیگرغیرقانونی تصورکرتے ہوئے بندکردیاجائے گا۔ حکومت پنجاب اورفارماسیوٹیکل نمائندوںکے درمیان کامیاب مذاکرات کے بعد دواسازکمپنیوں اورمیڈیکل سٹوروںکی ہڑتال ختم ہوگئی ہے۔جوکہ بہت اچھی پیشرفت ہے۔امیدکی جانی چاہیے کہ نظرثانی کمیٹی متفقہ ڈرگٹ ایکٹ لانے میںکامیاب ہوجائے گی۔ہڑتال ختم ہونے سے مریضوںکی مشکلات میں بھی کمی آئے گی اور انہیں بروقت ادویات دستیاب ہوسکیں گی اوردواسازکمپنیوں، میڈیکل سٹوروںکے تحفظات بھی دورہوجائیں گے۔عوامی سماجی حلقوںمیںمیڈیکل سٹوروںکی ہڑتا ل کوناپسندیدہ عمل قراردیاگیاہے۔