پاکستانی ڈومیسٹک کرکٹ سسٹم کی یہ بڑی خامی رہی کہ یہاں اچھے سے اچھا ٹیلنٹ سلیکٹرز کی نظروں سے اوجھل رہ کر گمنامی کے اندھیروں میں ہی گم ہو جاتا تھا،خوش قسمتی سے کوئی منظر عام پر آیا تو اسے موقع ملا باقی بیچارے آس لگائے بالوں میں سفیدی آنے پرکوئی دوسرا کام کرنے کا سوچتے تھے، شکر ہے اب ماضی جیسے بدترین حالات نہیں اور تھوڑی بہتری آئی ہے، اب میڈیا کسی بھی اچھے کھلاڑی کو فوراً دنیا کی نظروں میں لے آتا ہے، سوشل میڈیا سے بھی حقدار کو حق دلانے میں مدد ملتی ہے، البتہ سب سے زیادہ اہم کردار پی ایس ایل کا رہا جس کے ذریعے پلیئرز راتوں رات اسٹار بن گئے، بعد میں لوگوں نے ’’کرک انفو‘‘ پر ان کے پروفائل چیک کیے تو پتا چلا یہ تو پانچ سال سے ڈومیسٹک کرکٹ کھیل رہا تھا۔
ایسے ہی ایک کھلاڑی فخر زمان ہیں، جنھوں نے 2012 میں لسٹ اے اور اگلے برس فرسٹ کلاس ڈیبیو کیا، مگر پاکستان کی نمائندگی کا پہلا موقع 2017 میں ملا،اس کیلیے ہمیں لاہور قلندرز کا شکر گذار ہونا چاہیے جس نے انھیں سیزن 2 میں موقع دیا، پہلے میچ سے قبل ہی کپتان برینڈن میک کولم نے فخرزمان سے کہہ دیا کہ ’’ تم جیسا بھی پرفارم کرو ہم تمہیں تمام 8 میچز کھلائیں گے بس اپنے نیچرل انداز سے بیٹنگ کرنا‘‘ بعد میں یہی ہوا، فخر کوسارے میچز کھلائے گئے، گوکہ ان کی کارکردگی اوسط درجے کی رہی اور صرف ایک نصف سنچری بنائی مگر لاہور نے ان پر اعتماد برقرار رکھا جس کا اسے کریڈٹ دینا چاہیے، اس ایونٹ سے دنیا کو پتا چلا کہ فخر زمان نام کا کوئی کھلاڑی بھی ہے حالانکہ اس سے پہلے ہی وہ قائد اعظم ٹرافی کے فائنل سمیت کئی میچز میں بڑی اننگز کھیل چکے تھے، ایسے میں سلیکٹرز کو بھی یاد آ گیا کہ ’’اچھا فخر نے تو ڈومیسٹک کرکٹ میں بھی اسکور کیا ہے‘‘ لہذا انھیں چیمپئنز ٹرافی کیلیے قومی ٹیم کے ساتھ انگلینڈ جانے کا پروانہ مل گیا۔
ارے میں اعظم خان کو تو بھول ہی گیا انھیں پہلے ہی ’’ کرکٹ ٹیلنٹ کو تراشنے والا گمنام جوہری‘‘ قرار دیا جا چکا، سب سے پہلے17،18 سال کی عمر میں فخر زمان انہی کے پاس آئے جب وہ نیوی میں ملازمت کرتے تھے، کوچ ناظم خان نے اعظم خان سے کہا کہ نوجوان بیٹسمین کو سپورٹ کرو، انھوں نے اوپنر کو پاکستان کرکٹ کلب میں جگہ دی جس کی نمائندگی سرفراز احمد بھی کرتے تھے، پھر انٹرڈسٹرکٹ کرکٹ کھلائی، یوں وہ آگے بڑھتے گئے، فخر زمان قومی ٹیم میں کیسے فٹ ہوئے اس کیلیے ہمیں احمد شہزاد کا شکریہ ادا کرنا چاہیے، بھارت کیخلاف ون ڈے چیمپئنز ٹرافی کے پہلے میچ میں انھوں نے اعتماد سے عاری اننگز کھیلی جس کی وجہ سے ٹیم مینجمنٹ فخر کو میدان میں اتارنے پر مجبور ہوگئی، جنوبی افریقا کی مضبوط ٹیم کے خلاف ان کا ڈیبیو ہوا اور 31 رنز کی پُراعتماد اننگز کھیلی، پھر سری لنکا کیخلاف 50 اور انگلینڈ سے سیمی فائنل میں 57 رنز بنا دیے، بھارت سے فیصلہ کن معرکے میں ان کی سنچری بھلا کون بھول سکتا ہے، اب زمبابوے میں ٹرائنگولر سیریز میں بھی سوائے ایک میچ کے فخر نے ہر بار اچھی اننگز کھیلیں، فائنل میں تو آسٹریلوی بولنگ ان کیخلاف بالکل بے بس دکھائی دی، اگر پاکستان ٹرافی حاصل کرنے میں کامیاب رہا تو اس میں فخر زمان کا اہم ترین کردار تھا ورنہ 2 رنز پر 2 وکٹیں گنوانے کے بعد ٹی ٹوئنٹی میں 184 رنز بنانا آسان نہیں ہوتا۔
ویسے انھیں ٹیسٹ میں آزمانے کا آپشن بھی بُرا نہیں ہے، آج کل ویسے بھی ماضی جیسی روایتی سست ٹیسٹ کرکٹ نہیں ہو رہی، فخر جیسے بیٹسمین اپنے جارحانہ انداز سے شائقین کو اپنی جانب متوجہ کر سکتے ہیں، کیریئر کے اوائل میں کسی عظیم بیٹسمین سے موازنہ درست نہیں مگر فخر میں ماضی کے ایک اسٹار اوپنر کے کھیل کی جھلک نظر آتی ہے، ان کا انداز بھی بے خوف ہو کر بولرز پر حاوی ہو جانے والا ہے، بس انھیں اسٹروکس کھیلتے ہوئے تھوڑا خیال بھی رکھنا ہوگا، شاٹ سلیکشن جتنی اچھی ہوئی کارکردگی میں اتنا ہی تسلسل آتا جائے گااور اسی سے کوئی اچھا بیٹسمین عظیم بیٹسمین بنتا ہے،ان میں صلاحیت کی کوئی کمی نہیں،ایک اور اچھی بات یہ ہے کہ کامیابی کو ذہن پر سوار نہیں کیا میں نے ہمیشہ انھیں ہر کسی سے اچھی طرح ملتے ہوئے پایا،ٹیم مینجمنٹ بھی رویے کی تعریف کرتی ہے، چاہے بھارت کیخلاف چیمپئنز ٹرافی کا فائنل ہو یا اب آسٹریلیا سے ٹرائنگولر سیریز کا فیصلہ کن معرکہ فخر زمان بڑی اننگز کھیل کر خود کو بڑے میچ کا کھلاڑی ثابت کر چکے،اگر وہ اسی طرح اچھے کھیل کا مظاہرہ کرتے رہے تو ایک دن گرین ٹیسٹ کیپ بھی سر پر سج جائے گی،انھیں بس سہل پسندی سے بچتے ہوئے محنت کا سلسلہ جاری رکھنا ہوگا، وہ ایسا کر بھی سکتے ہیں،فخر ہمیں آپ پر فخر ہے۔
حفیظ کے ناکام ہونے پر زبردستی حارث سہیل کو اوپنر بنا دیا گیا