دنیا کی تاریخ لاتعداد حکومتوں کے عروج اور زوال کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے۔ رومن، یونانی، ہسپانوی، ولندیزی، انگریزی، روسی، اسلامی بڑی بڑی حکومتیں کس طرح عروج پر پہنچیں اور پھر کس طرح زوال کی جانب چلی گئیں۔ آج آپ کو اس موضوع پر لکھی گئی ایک نہایت اعلیٰ، دقیق ریسرچ پر مبنی کتاب ’’قومیں کیوں ناکام ہوتی ہیں‘‘ کا تجزیہ پیش کررہا ہوں۔
(Why Nations Fail – The Origins of Power, Prosperity and Poverty)
Daron Acemoglu & James A. Robinson
یہ کتاب نے ڈارون ایسموگلو اور جیمز اے رہبنسن نے لکھی ہے۔ پہلے مصنف میںاور دوسرے مصنف ہارورڈ یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں اور دونوں نے کئی اعلیٰ اعزازات و انعامات حاصل کئے ہیں۔ ان دونوں نے اس سے پیشتر ایک اور اعلیٰ بین الاقوامی شہرت یافتہ کتاب (اکنامک اوریجن لکھی ہے جس پراینڈ ڈیموکریسی)لکھی ہے۔ ان کو کئی اعلیٰ انعامات سے نوازا گیا۔ جس کتاب کا تجزیہ پیش کر رہا ہوں وہ 2012 میں لندن سے شائع کی گئی تھی۔پہلے میں وہ وجوہات بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں جو مصنفین نے دیباچے میں بیان کی ہیں۔ مثلاً وہ یہ سوال کرتے ہیں کہ شمالی کوریا کیوں جنوبی کوریا سے دس گنا زیادہ غریب ہے، میکسیکو میں امریکی سرحد کے قریب رہنے والے لوگ امریکی باشندوں سے کیوں زیادہ غریب ہیں۔ انھوں نے نہایت اعلیٰ وجوہات کی بنیاد پر یہ ثابت کیا ہے کہ غربت یا امیری آب و ہوا، جغرافیائی پوزیشن، اور ثقافت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ امیری اور غریبی میں کلیدی کردار ادارے ادا کرتے ہیں۔
دونوں مصنفوں نے نہایت اہم مثالوں کے ذریعے اپنے نظریہ کی حمایت میں دلائل دیئے ہیں۔ انھوں نے قدیم روم، برطانیہ کے پرانے بادشاہوں سے لے کر جدید چین کی مثالیں دی ہیں اور بتلایا ہے کہ اگر عوام خوشحالی چاہتے ہیں تو ان کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ انھیں سخت محنت کرنا پڑے گی اس طرح نہ صرف وہ دولت کما سکتے ہیں بلکہ اس کو جمع بھی کرسکتے ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اچھے منظم ادارے نہ صرف نئے راستے دکھا سکتے ہیں بلکہ معیشت کی ترقی، دولت کی وسیع پیمانے پر تقسیم اور اس کے نتیجے میں ملک میں امن و امان کا قیام ممکن ہوتا ہے۔مصنفوں نے 15 سال کی سخت اور دقیق ریسرچ اور دوسرے مصنفوں کے تاثرات کو مدنظر رکھ کر اور ان کے سوالوں کے جواب دے کر یہ کتاب تیار کی ہے۔ انھوں نے معیشت، سیاست اور تاریخ کی ملاوٹ سے دولت اور غربت کو اچھی طرح سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ یہ نظریہ اُمید دلاتا ہے کہ مستقبل قریب میں عملی طور پر وہ عوام جو غربت کا شکار ہیں خوشحالی کی جانب روانہ ہوسکیں گے اور اسکے نتیجے میں مستقبل میں مالی امداد سے لیکر چین کے مستقبل تک ہمارے خیالات کی تشکیل ہوسکے گی۔ مُصنّفین نے مصر میں تحریر اسکوائر میں حسنی مبارک کے خلاف تحریک کی وجوہات امیری و غریبی کی روشنی میں بیان کی ہیں۔ انہوں نے بتلایا کہ غریب ممالک اس لئے غریب نہیں ہیں کہ ان کا وجود کہاں ہے یا یہ کہ ان کے لیڈر نہیں جانتے کہ کونسی پالیسیاں عوام کی بہتری کیلئے ہیں وہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ایسی خودغرضانہ پالیسیاں اختیار کرتے ہیں جن کی وجہ سے حکمراں اور ان کے من پسند افراد امیر ترین ہوتے جاتے ہیں اور عوام غربت میں پستے جاتے ہیں۔ ہمارے یہاں بھی ایسی ہی پالیسی پر عمل ہو رہا ہے اور یہی رواج موبوٹو نے اپنے ملک میں جاری رکھا ہے۔ یہ نہیں کہ ہمارے یا زمبابوے کے حکمراں ان پڑھ ہیں اور موجودہ ترقی کرنے والی پالیسیوں کے بارے میں نہیں جانتے۔ یہ دنیا بھر کے دورے کرتے پھرتے ہیں اور سب دیکھتے اور سمجھتے ہیں۔کرنل قذافی نے بھی اپنے عوام کو روٹی مکھن اور انڈوں کیلئے قطاروں میں لگا دیا تھا۔ میرے عزیز دوست اور رفیق کارحبیب الرحمن خان وہاں دو مرتبہ ایئر فورس کی جانب سے گئے تھے اور انھوں نے یہ واقعات بتائے تھے جبکہ قذافی نے اربوں ڈالر غیرممالک کے بنکوں میں رکھے ہوئے تھے۔ تیسری دنیا کے سربراہوں کو کبھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ عوام دوست پالیسیاں اختیار کریں اور پھر نتیجتاً غیر قدرتی موت کے شکار ہوئے۔ آپ اپنے ملک کی حالت دیکھ لیجئے۔ ہمارے وزیر خزانہ (جو ایک اکائونٹنٹ ہیں) قرض ملنے پر خوشیاں مناتے ہیں، وزیر اعظم اسٹاک ایکس چینج کی کارکردگی پر فخر کرتے ہیں۔ ایک خودساختہ پروفیسر جن کی گردن اکڑ گئی ہے اور تمام آداب و اخلاق سے مبرّا ہو گئے ہیں ملک کو 2025 میں کھنڈرات میں پہنچانے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس قوم کے حکمرانوں کو کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ یہ 19 کروڑ کا ملک ہے اور اس کی ایک یونیورسٹی بھی دنیا کی 500 یونیورسٹیوں میں شامل نہیں ہے۔ یہ 128ممالک میں جو نہایت پسماندہ ہیں ٹیکنالوجی کے حساب سے ان میں 124 ویں نمبر پر ہے اور غربت کی فہرست میں بھی یہی حال ہے۔ چین جو ہم سے دو سال بعد آزاد ہوا تھا اور بہت بُری حالت میں تھا اسکی یونیورسٹیاں 25 ویں نمبر پر ہیں اور سنگاپور جس کی آبادی پنڈی و لاہور سے بھی کم ہے اس کی یونیورسٹیاں 12ویں اور 13ویں نمبر پر ہیں۔ گزشتہ دنوں اخبار میں بڑی خوشی سے خبر دی گئی ہے کہ سی پیک کی وجہ سے 6000ملازمتیں نکلی ہیں۔ ماشاء اللہ کیا کارکردگی ہے۔ سابق اور موجودہ حکمرانوں نے کبھی صنعتیں لگانے یا ان کو فروغ دینے کی پالیسی پر عمل نہیں کیا۔ اتنا بڑا ملک ہے کہ زراعت، بجلی کی پیداوار، چاول، کپاس، تولیوں کی صنعتوں میں اضافے و مدد سے لاتعداد مواقع پیدا کئے جاسکتے ہیں۔ میں نے حکومت وقت کے عقل کُل کو ایک اعلیٰ فیڈرل انسٹی ٹیوٹ (یونیورسٹی) کا پروپوزل بھیجاتھا۔ جتنی محنت میں نے کی وہ میں اورمیرے رفیق کار ہی جانتے ہیں۔ بداخلاقی اور بے توجہی کی انتہا یہ ہے کہ اس کی رسید کی اطلاع تک نہیں دی۔ کیا میں نے ’’غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ‘‘ جیسا مثالی و اعلیٰ انسٹی ٹیوٹ نہیں بنایا ہے ؟ کیا میں نے ملک کو ایٹمی اور میزائل کی صلاحیت نہیں دی ہے؟ میں ان جیسے نااہلوں کو دس سال سبق دے سکتا ہوں مگر تمام پسماندہ ممالک کی طرح خودغرضی اور جھوٹ بولنا سرکاری پالیسی ہے۔ انہیں عوام کی مشکلات و تکالیف سمجھنے اور ان کو دور کرنے کے پروگرام شروع کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ لوڈ شیڈنگ اور سیلاب کے مسئلے آپ کے سامنے موجود ہیں کوئی ایک پروگرام بتلادیں جس میں اس مسئلہ کے حل کیلئے اقدامات کئے گئے ہوں۔ قرضوں کے بوجھ سے پوری قوم کی کمر توڑ دی گئی ہے۔جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا کہ اس اعلیٰ کتاب کے مصنفوں نے یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ حکومت کی کامیابی و ناکامی میں اداروں کا کلیدی کردار ہوتا ہے اگر حکمراں دوراندیشی سے کام لیں، قابل و اہل دانشوروں کے حوالے ادارے کریں اور ان کو فری ہینڈ دیں تو ملک ترقی کرسکتا ہے ورنہ جو حال موبوٹو نے اتنے مالدار ملک کیساتھ کیا ہے وہی ہمارے ملک کیساتھ ہو رہا ہے۔ اس ملک میں اگر ایک کلرک کی آسامی کیلئے آپ اشتہار دیں تو ہزاروں اُمیدوار جن میں ایم اے، ایم ایس سی ہوتے ہیں دوڑ پڑتے ہیں۔ بیروزگاری عروج پر ہے مگر نوکریاں پیدا کرنیکی پالیسی کا فقدان ہے۔ حکمرانوں کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔ اپنی عقل و سوچ کے مطابق بس سڑکیں اور پل بنائے جاتے ہیں جن پر سینکڑوں ارب روپیہ خرچ ہو جاتے ہیں مگر نوکریاں پیدا نہیں ہوتیں۔ بارش کے بعد شہروں کا حال دیکھئے! بدقسمتی سے تمام غربت کے مارے ممالک میں حکمراں ایسے ادارے بناتے ہیں جو اُنکے ذاتی مفادات کا تحفظ کریں اور انکے سربراہ ایسے لوگوں کو لگاتے ہیں جو ان کی ڈانٹ اور پیار دونوں پر سربسجود ہوجاتے ہیں۔ ملک کی غربت اور تباہی کی یہ ایک یقینی وجہ ہے۔ بدقسمتی سے اس ملک میں حکمرانوں اور مخالفین کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
چار نوبل انعام یافتہ ماہرین معاشیات نے اس کتاب کی بے حد تعریف کی ہے اور مصنفوں کے کام کو سراہا ہے۔ ان میں گیری ایس بیکر1992 ء، پیٹر ڈائمنڈ 2010 ، مائیکل اسپینس2001ءاوررابرٹ سُولو 1987ءشامل ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کو چاہئے کہ لڑائی جھگڑوں سے تھوڑا سا وقت نکال کر اس اعلیٰ کتاب کا مطالعہ کریں اور اس میں جو اسباب کامیابی و ناکامی کےبتائے گئے ہیں ان پر غور کریں اور مثبت پالیسیوں پر عمل کریں۔
(نوٹ) مجھے عید کے موقع پر لاتعداد پیغامات وصول ہوئے جن کا فرداً فرداً جواب دینا ناممکن ہے۔ میں سب کا تہہ دل سے شکرگزار ہوں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ