تحریر : طارق حسین بٹ
پاناما لیکس نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا رکھا ہے۔دنیا بھر کے سیاست دان اور سرمایہ دار پاناما لیکس کی زد میں ہیں۔وہ دنیا جہاں پر سرمایہ محفوظ سمجھا جاتا تھا وہی سے اس کے غیر محفوظ ہونے کا آغاز ہو گیا ہے۔پاکستان میں اگر چہ کئی اہم افراد پاناما لیکس کی فہرست میں ہیں لیکن اس وقت میاں محمد نواز شریف اور اس کا خاندا ن عوامی غم و غصے کا نشانہ بنا ہوا ہے۔اپوزیشن اس ایشو پر اپنے پتے بڑی اختیاط سے کھیلنے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ حکومت اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔حکومت کو اس ایک نقطے پر اخلاقی برتری حاصل ہے کہ اس میں وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف کا نام شامل نہیں ہے بلکہ وزیرِ اعظم کے دونوں بیٹوں حسین نواز اور حسن نواز کے نام شامل ہیں جو قانونی لحاظ سے بالغ ہیں اور اپنے تئیں آزادانہ فیصلے کرنے کے مجاز ہیں۔انھیں قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جا سکتا ہے اور ان کی لوٹ مار پرا نھیں سخت ترین سزا ئیں بھی سنائی جا سکتی ہیں
لیکن آف شور کمپنیوں میں ان کی سرمایہ کاری کی بنیاد پر میاں محمد نواز شریف کو نا اہل قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ البتہ حسن نواز اور حسین نواز سے ان کی ناجائز جمع کی گئی دولت کا حساب مانگا جا سکتا ہے۔میاں محمد نواز شریف کے دونوں بیٹوں نے جس طرح دولت کے ڈھیر لگائے ہوئے ہیں اس کے پیشِ نظر اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ وہ اپنی دولت افروزی کو جائز ثابت کر سکیں گئے ۔اس حقیقت سے عوام بخوبی واقف ہیں کہ میاں محمد نواز شریف کے دونوں بیٹوں کو سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اورشائد اسی بنا پر مریم نواز کو آئیندہ کی سیاست کے لئے تیار کیا جا رہا ہے تا کہ میاں محمد نواز شریف کی جبری نااہلی کی صورت میں وہ اپنے باپ کا نعم البدل ثابت ہو سکیں۔
اگر بلاول بھٹو زرداری پی پی پی کی کمان سنبھال سکتا ہے تو پھر مریم نواز کی راہ میں کونسی رکاوٹ ہے جو انھیںمسلم لیگ (ن) کی کمان سنبھالنے میں مانع ہو؟غلام قومیں ایسے ہی ہوا کرتی ہیں جو اپنے تئیں کچھ کرنے کی بجائے چند مخصوص خاندانوں کے افراد کی برتری کی اسیر ہو جاتی ہیں۔کبھی کبھی سوچتا ہوں تو حیران ہو جاتا ہوں کہ پی پی پی میں اتنے سینئر راہنما ہونے کے باوجود وہ سارے ایک نو عمر لڑکے کی قیادت کے سامنے بے بس ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کے مفادات اس کی ذات سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں میری ذاتی رائے میں اس کی وجہ سوائے اس کے کوئی دوسری نہیں کہ ان میں عز م و حوصلہ کی کمی کے ساتھ ساتھ انھیں اپنی ذات پر کوئی اعتماد نہیں ہے۔پوری دنیا میں روائت ہے کہ سینئر قیادت ہی پارٹی کمان سنبھالتی ہے اور یوں سیاسی عمل اپنی افادیت سے معاشرے کو ثمر بنا دیتا ہے لیکن پاکستان میں موروثی سیاست کے کوڑھ نے پورے ملک کو یر غمال بنا رکھا ہے اور پاکستان میں کر پشن کی سب سے مضبوط اور واحد وجہ موروثی سیاست کا زہر ہے۔
اگر موروثی سیاست کی بجائے پارٹی کمان میرٹ کی بنیاد پر طے پانے کی روائت ہوتی توپھر کرپشن پاکستان میں کبھی بھی اپنی جڑیں مضبوط نہ کر پاتی۔جس جماعت کی بنیاد میرٹ کی بجائے اعلی اور ارفع خاندان کے تصور سے ابھرے گی اس میں سچ کا فقدان ہو جائے گا اور ملک بے راہ روی کی جانب گامزن ہو جائے گا۔مسلم لیگ(ن) میں کون ہو گا جو میاں محمد نواز شریف کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی جرات کرے گا ۔وہ تو میاں محمد نواز شریف کے نام سے کانپتے ہیں اور اس کے ہر فرمان کو فرمانِ الہی سمجھ کر اس کے سامنے دو زانو ہو جاتے ہیں۔آجکل ٹیلیو یژن پر یہ تماشہ کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ(ن) کے زعماء جس زعم اور دھونس سے میاں محمد نواز شریف کو ڈوبنے سے بچانے کے جتن کر رہے ہیںاس پرصرف ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔یہی حال پی پی پی کا ہے اس میں بڑے بڑے طورخم خان بلاول بھٹو زرداری کے سامنے مزارعوں ،ملازموں اور کمیوں والاروپ دھارے نظر آتے ہیں۔قائد کے ذاتی تفاخر اور اعلی خاندانی حسب نسب کا طوق گلے میں پڑ جائے تو پھراپنے قائد سے باز پرس کا حوصلہ دم توڑ جاتا ہے اور یہی پاکستانی سیاست کا المیہ ہے کہ یہاں پر ملک لوٹنے والے ہی اس کے مسیحا بن کر سامنے آتے ہیں۔
میاں محمد نواز شریف نے ایک انتہائی زیرک چال چلی ہے اور انھوں نے اپنے خطاب میں سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں عدالتی کمیشن کا اعلان کر دیا ہے جو کہ فی الحال تشکیل نہیں پایا ہے لیکن اس سے یہ تو ہو رہا ہے کہ مسلم لیگ(ن) کی ساری قیادت میاں محمد نواز شریف کے خود کو احتساب کے لئے پیش کرنے سے تشبیہ دے کر ان کی جراتوں پر رطب اللسان ہے اور انھیں ممکنہ گرفت سے بچانے کی زبردست مشق کر رہی ہے ۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت میاں محمد نواز شریف کو بے گناہ ثابت کرنے کیلئے مجوزہ عدالتی کمیشن کی آڑ میں چھپ کر جس طرح بڑھکیں مار رہی ہے وہ ان کے بانجھ پن کی علامت ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عدالتی کمیشن عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ہماری ہر حکومت جب کبھی کسی مشکل میں پھنستی ہے تو پھر کسی کمیشن کا اعلان کر دیتی ہے۔قوم کی نظریں کمیشن پر مرکوز ہو جاتی ہیں اور وہ مسئلہ جس کے لئے کمیشن بنایا گیا ہوتا ہے دھیرے دھیرے اپنا اثر کھو دیتا ہے اور یوں حکومت رخصت ہونے سے بچ جاتی ہے۔
قوم کو چکمہ دینے کا عدالتی کمیشن سے بہتر طریقہ ایجاد نہیں ہوا اور مسلم لیگ (ن) کمیشن بنانے میں بڑی ماہر ہے۔کوئی باہوش انسان ماڈل ٹائون سانحے کو نہیں بھولا ہو گا جس میں پولیس نے دن دھاڑے منہاج القرآن کے کئی کارکنوں کا قتلِ عام کیا تھا۔اس پر بھی عدالتی کمیشن بنا تھا اور جی آئی ٹی رپورٹ بھی منظرِ عام پر آئی تھی لیکن ان بے گناہوں کا انصاف آج تک نہیں مل سکا کیونکہ دورانِ اقتدار حکمرانوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنا ممکن نہیں ہوتا ۔منہاج القرآن نے بڑے پاپڑ بیلے لیکن انھیں کہیں سے بھی ریلیف نہ مل سکا ۔ وہ مقدمہ اب بھی وقت کی میزان میں اپنی بے بسی کا نوحہ بنا ہوا ہے اور مسندِ انصاف پر بیٹھے ہوئے افراد سے انصاف کا طلبگارہے۔ابھی تو کل کی بات ہے کہ عمران خان کے طویل دھرنے کے نتیجے میں عدالتی کمیشن قائم ہوا تھا جس میں انتخابات کی شفافیت کے بارے میں فیصلہ ہونا تھا۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں جو کمیشن بنا اس نے مئی ٢٠١٣ کے انتخابات کو گرین سگنل دے دیا حالانکہ ساری دنیا کو علم ہے کہ مئی ٢٠١٣ کے انتخابات میں وسیع پیمانے میں دھاندلیوں کا ارتکاب ہوا تھا۔١٢٦ دنوں کا دھرنا اور تحریکِ انصاف کی بے پناہ جدو جہد عدالتی حکم کے سامنے بالکل بے اثر ہو کر رہ گئی تھی۔سپریم کورٹ کے فیصلے سے ایک طرف حکومت کو اخلاقی برتری حاصل ہوئی تو دوسری جانب تحریکِ انصاف کے موقف کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔دھرنے میں تحریک ِ انصاف مقبولیت کی جس بلندی پر تھی اسے وہ مقبولیت دوبارہ ملنہ سکی کیونکہ عدالتی فیصلے نے اس سے اخلاقی قوت چھین لی تھی ۔اپنی اس مقبولیت کے احیاء کیلئے تحریکِ انصاف کو ایک بار پھر جدو جہد کرنی پڑ رہی ہے تا کہ وہ عوامی امنگوں پر پوری اتر سکے اور اسے اتفاق سے پاناما لیکس کا ایشو مل گیا ہے جس پر عوام حکومت کے خلاف بھرے پڑے ہیں۔
عوامی منگوں کے ساتھ منسلک ہو جا نا اور حکومتِ وقت کو چیلنج کرنا بڑا مشکل اور خطرناک ہوتا ہے۔١٩٦٨ میں ذولفقار علی بھٹو نے جنرل ایوب خان کے جشنِ دس سالہ کے خلاف عوامی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے حکومت کو چیلنج کیا تو پھر اسے اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا تھا۔ ذولفقار علی بھٹو نے عوام سے اپنے تعلق کو کسی بھی لمحے کمزور نہیں ہونے دیا تھا۔اسے گول میز کانفرنسوں اور دوسرے مذاکراتی الجھنوں میں پھنسانے کی بہت کوششیں کی گئی لیکن اس نے عوامی طاقت سے ایوب خان کی آمریت سے ٹکر لے کر اسے پاش پاش کرنے کے اپنے عزم کو کسی بھی حال میں کمزو ر نہیں ہونے دیا تھا۔
گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور دو اس وقت کا مقبولِ عام نعرہ تھا اور یہ نعرہ اس وقت بلند ہوا تھا جب جنرل ایوب خان کے اقتدار کا سورج نصف النہار پر تھا۔مجھ جیسے کارکن اس نعرے کو سن کر دم بخود رہ گئے تھے کہ مردِ آہن جنرل ایوب خان کا اقتدار کس طرح زمین بوس ہو گا لیکن ایسا ہوا کیونکہ ذولفقار علی بھٹو نے عوامی قوت پر اعتماد کیا تھا ۔کیا عمران خان عوامی قوت سے میاں محمد نواز شریف کو زیر کرنے کا عزم پالے ہوئے ہیں یا ایک دفعہ پھر عدالتی کمیشن کے چکر میں اپنا سفر کھوٹا کرنا چاہتے ہیں؟
تحریر : طارق حسین بٹ