مشھور تاریخ دان امام واقدی رحمہ اللہ کہتے ھیں کہ
ایک مرتبہ مجھے بڑی مالی پریشانی کاسامنا کرنا پڑا- فاقوں تک نوبت جا پہنچی ، گھر سے اطلاع آئی کہ عید کی آمد آمد ھے، اور گھر میں کچھ بھی نہیں بڑے تو صبر کرلیں گے لیکن بچے مفلسی کی عید کیسے گزاریں گے؟ یہ سن کر میں ایک تاجر کے پاس قرض لینےگیا ، وہ مجھے دیکھتے ھی سمجھ گیا اور بارہ سو درھم کی تھیلی میرے ھاتھ میں تھمادی – میں گھر آگیا – ابھی بیٹھا ھی تھا کہ میرا ایک ھاشمی دوست آگیا – اُ س کے گھر بھی غربت نے ڈیرہ ڈال رکھا تھا – وہ مجھ سےقرض مانگنے آیا تھا ، میں نے اہلیہ کو قصہ سُنایا ، وہ کہنے لگی ۔ کتنے درھم دینے کا ارادہ ھے ؟ میں نے کھا تھیلی کا نصف کرلیں گے – دونوں کا کام چل جائیگا – وہ کہنے لگی ؛ بڑی عجیب بات ھے – آپ ایک ادمی کے پاس گئے اس نے اپکو بارہ سو درھم دئے ، اور آپ اسے ایک آدمی کے عطیہ کا نصف دے رہے ھیں – آپ اسے پوری تھیلی دیدیں – چنانچہ میں نے وہ تھیلی کھولے بغیر اُس کے حوالے کردی – وہ تھیلی لیکر گھر پُہنچا تو وہ تاجر دوست اُس کے پاس آگیا اور کہا عید کی آمد آمد ھے ،گھر میں کُچھ نہیں ،کُچھ مال قرض چاھیے ؛؛ ھاشمی دوست نے وہی تھیلی اُس کے حوالے کردی اپنی ھی تھیلی اس طرح دیکھ کر اُسے بڑی حیرت ہوئی ، کہ یہ کیا ماجرا ھے ؟ وہ تھیلی ھاشمی دوست کے پاس چھوڑ کر میرے پاس آیا -میں نے اُسے پورا واقعہ سُنایا -در حقیقت تاجر کے پاس بھی اُس تھیلی کے علاوہ کُچھ نہیں تھا – وہ سارا کُچھ مُجھے دے چکا تھا اور خود قرض لینے ھاشمی کے پاس چلاگیا تھا ھاشمی نے جب تھیلی حوالے کرنا چاھی تو راز کُھل گیا –
ایثاروھمدردی کے اس انوکھے واقعے کی اطلاع جب وزیر یحی بن خالد کے پاس پُہنچی تو وہ دس ھزار دینار لیکر آئے -کہنے لگے؛ ان میں سے دو ھزار آپ کے ھاشمی دوست کے اور دو ھزار تاجر کے دو ھزار آپ کے اور چار ھزار آپکی اھلیہ کے کیونکہ وہ سب سے زیادہ اعزاز کے قابل ھے