کی اس رپورٹ کے بارے میں سنا کیونکہ وہ لرز گئیں۔ انھوں نے کہا، ’مجھے نہیں معلوم،‘ اور ان کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔ ’آپ خود کو کسی چیز سے وابستہ کر لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ آپ اچھا کام کر رے ہیں۔ آپ مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر کہیں کسی جگہ۔ ۔ ۔‘ ان کو رونا آ گیا۔ میں نے ان سے کہا کہ اگر وہ پورن ہب کے بارے میں تحقیق کے بعد کچھ کہنا چاہتی ہوں۔ ان کا جواب تھا، ’میں جعل سازی نہیں کرنا چاہتی، آپ میرا پہلا والا جواب ہیں رکھیں۔‘ یہ انٹریو یہاں ختم ہو گیا۔ پورن ہب کی مالک کمپنی، مائنڈ گیک نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’ہم صارفین کو مواد استعمال اور تقسیم کرنے کے لیے محفوظ جگہ فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ انتقامی ویڈیوز کو اپنی سائٹ پر لگانے کی اجازت دے کر ہم اپنا مقصد فوت نہیں کرنا چاہتے۔‘ ہم ہوٹل پہنچے تو تھورن کی اسِسٹنٹ کا پیغام ملا کہ وہ ہمیں افسردگی کے بارے میں پائے جانے والے غلط تصور کو رفع کرنے کی ایک تقریب میں، جس میں وہ خود بھی شریک ہوں گی، مدعو کرنا چاہتی ہیں۔ تقریب کا عنوان تھا ’یقینی بناؤ کہ آپ کے دوست ٹھیک ہیں۔‘ یہ ان کا نصب العین ہے جس کے بارے میں وہ اپنے مداحوں، خاص طور سے کمزور افراد، کو بتانا چاہتی ہیں۔ تین روز بعد ہم اس تقریب میں شریک تھے۔ تھورن نے کہا: ’میرے بچپن میں یہاں چند ہی لوگ ڈیپریشن کا شکار تھے، اب تو ہر شحص اس میں مبتلا ہے۔ اس کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوگی، اور میرے خیال میں اس کا سبب سوشل میڈیا کے دور میں پرورش ہے۔‘ جب ہم تقریب سے جا رہے تھے تو تھورن کی ایک دوست نے ہمیں بتایا کہ ہمارے انٹرویو کے بعد انھوں نے پورن ہب کو فون کیا۔ اس کی دوست کا کہنا تھا کہ ہمیں ایک اعلان کا انتظار کرنا چاہیے۔ اسی ہفتے تھورن کو ان کی ہدایتکاری میں بننے والی پہلی فلم ’ہر اینڈ ہِم‘ کے لیے پورن ہب ایوارڈز میں اعزاز سے نوازا گیا۔ انھوں نے ایڈلٹ فلم انڈسٹری یعنی بالغوں کے لیے فلمی صنعت کا شکریہ ادا کیا کہ ا س نے اس صنعت میں خواتین ہدایتکاروں کے بارے میں ان کے تصور کو سراہا، اور ساتھ ہی انتقامی عریاں فلموں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے واضح پیغام دیا۔ ’میں پورن ہب کے ساتھ مل کر ان کے الگوریدم کے نظام میں تبدیلی لانے کے لیے کام کر رہی ہوں، تاکہ ہماری برادری میں ہر شخص کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔‘(بشکریہ : بی بی سی )
لندن (ویب ڈیسک) ہم کینیڈا کے صوبے اونٹاریو کے علاقے سڈبری میں ایک جھیل کے سامنے بنے ان کے کرائے کے گھر میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ موسم خزاں کی آمد پر یہاں سکوت ہے اور گلیاں میپل کے نوکدار مرجھائے ہوئے پتوں سے اٹی پڑی ہیں۔
تھورن گذشتہ تین ماہ سے مِکی رورک کے ساتھ فلم ’گرل‘ کینامور صحافی یوسف الدین اور میگھا موہن بی بی سی کے لیے اپنے خصوصی آرٹیکل میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔عکس بندی کے لیے یہاں رہ رہی ہیں۔ اس فلم میں وہ ایک ایسی لڑکی کا کردار ادا کر رہی ہیں جو اپنے بد زبان باپ کو قتل کرنے کے لیے اپنے آبائی علاقے لوٹی ہے۔ اس 22 برس کی لڑکی گذشتہ ایک سال میں اپنا دل دنیا کے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے۔ انھوں نے ’دا لائف آف اے وانابی موگل: مینٹل ڈِس ارے‘ کے نام سے اپنی نظموں کا مجموعہ شائع کیا ہے جس میں انھوں نے اپنی مایوسی، تنہائی اور جنسی حملے کا ذکر کیا ہے۔ اس میں ایک موٹر سائیکل کے حادثے میں والد کی موت سے نو برس کی عمر میں پہچنے والے صدمے، چکاچوند روشنیوں میں ایک چائلڈ ماڈل کی حیثیت سے پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز، اور پھر ڈِزنی چینل پر آنے کے موقع کا تذکرہ ہے۔ وہ محبت کی طلب اور شہوت پرستی کے ہر روپ سے آراستہ ان کی طرزِ زندگی کے بارے میں، جس کے بارے میں بہت لکھا گیا ہے، محوِ تصور نظر آتی ہیں۔ ’کیا اس کا سبب یہ ہے کہ میں اتنی کم عمری میں جنسی شہوت کا شکار بنی، اس وقت میرے پاس دنیا کو دینے کے لیے اس کے سوا تھا ہی کیا؟‘ ان کی ڈائری جس میں انھوں نے املا کی غلطیاں جان کر کی ہیں، اشاعت کے کئی ہفتے بعد بھی ایمازون کی سب سے زیادہ بکنے والی کتاب رہی۔ لیکن اس برس جون میں بیلا کی کتاب کی پریس میں رونمائی کے دوران انھیں ایک نامعلوم نمبر سے بہت سے پیغامات موصول ہوئے۔
انھوں نے بتایا: ’میں کتاب سے متعلق ایک انٹرویو دے کر میں روتے ہوئے نکل رہی تھی جب میں نے اپنے فون پر نظر ڈالی تو مجھے اپنی عریاں تصویریں نظر آئیں۔‘ اپنی انتہائی ذاتی تصاویر جو انھوں نے کبھی اپنے سابق عاشق کو بھجوائی تھیں، دیکھ کر وہ چونک گئیں۔ انھوں نے مشورے کے لیے اپنے مینیجر کو فون کیا۔ ان کا فون ایک بار پھر بجا۔ چند مزید عریاں تصاویر۔ اس مرتبہ ان کی مشہور دوستوں کی۔ یہ صبح کا وقت تھا اور وہ ابھی اپنے بستر ہی میں تھیں۔ اپنی کتاب میں بیلا نے بچپن میں ہونے والے جنسی استحصال کا تفصیلی ذکر کیا ہے، تاہم استحصال کرنے والے کا نام حذف کر دیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ اس خوف سے کہ کوئی ان کی بات پر یقین نہیں کرے گا انھوں نے اس جرم کی رپورٹ بھی نہیں کی۔ ان عریاں تصویروں کو دیکھ کر انھیں بے حرمتی کے احساس نے پھر سے آ لیا۔ انھوں نے سوچا ’پھر وہی۔‘ ’میری زندگی کسی اور کے ہاتھ میں ہے جو میرے بارے میں فیصلے کر رہا ہے۔ کوئی پھر مجھے زبردستی میری مرضی کے بغیر شہوانی زندگی میں دھیکنا چاہتا ہے۔‘ اسی لمحے انھوں نے ایک فیصلہ کیا۔ انھوں نے سوشل میڈیا پر، جہاں ٹویٹر پر ان کے ستر لاکھ، انسٹاگرام پر دو کروڑ اور فیس بک پر نوے لاکھ فالوورز ہیں، وہ تمام عریاں تصاویر پوسٹ کر دیں۔ ساتھ ہی انھوں نے بھیجنے والے کا دھمکی آمیز پیغام اور اپنا جواب بھی پوسٹ کر دیا۔ ’یہ میں اس لیے شائع کر رہی ہوں کیونکہ یہ میرا فیصلہ ہے، اب تم مجھ سے کچھ نہیں ہتھیا سکتے۔‘
اس فیصلے نے ان پر تنقید اور تعریف کا ایک طوفان برپا کر دیا۔ ان کے بعض قریبی دوستوں نے کہا کہ انھیں ایسی تصاویر لینی ہی نہیں چاہیے تھیں۔ تھورن نے کہا کہ سب سے زیادہ تکلیف انھیں اس عورت کے تبصرے سے ہوئی جس سے وہ نہایت متاثر ہیں۔ ’انھوں نے لکھا: نہیں نہیں میرے بچے ایسا نہیں کریں گے۔ بالکل نہیں۔‘ ان سب لوگوں کے لیے ان کا پیغام ہے کہ ’آپ اپنے گھر میں تو دیکھیں، ہر شخص کسی نہ کسی انداز میں آن لائن پیار کا اظہار کرتا ہے۔‘ وہ کہتی ہیں کہ نوجوانوں کو ان کے کیے پر، جبکہ وہ خود شرمسار اور کمزور ہوں، بدنام کرنا انھیں کسی ذہنی بحران سے دوچار کر سکتا ہے۔ اپنے انٹرویو کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اگر کسی نوجوان لڑکی یا لڑکے کی نامناسب تصویر سکول میں پھیل جائے جس کی وجہ سے وہ خود کشی کا سوچنے لگیں اور پھر وہ ایسا انٹرویو بھی دیکھ لیں تو وہ سوچیں گے کہ ’ٹھیک ہے، ہم اسی قابل ہیں۔‘ جو تصویریں بیلا تھورن نے خود آن لائن شائع کیں وہ ان کی پہلی اصلی عریاں تصاویر تھیں۔ لیکن بیلا تھورن کی بہت سے عریاں ویڈیوز آن لائن موجود ہیں، جو دراصل ان کی نہیں ہیں۔ یہ جعلی ہیں۔ ان میں جنسی فعل انجام دیتے ہوئے کسی اداکارہ کے چہرے پر بیلا تھورن کے عکس کی پیوندکاری کی گئی ہے، اور پھر چہرے کے تاثر کو اس طرح سے بدلا گیا ہے کہ تھورن وہ کچھ کہتی نظر آتی ہیں جو اس ویڈیو کا بنانے والا چاہتا ہے۔ یہ ڈیپ فیکس کہلاتی ہیں۔ ایک ویڈیو میں تھورن کے رونے کی آواز کو،
جب وہ اپنے مرحوم باپ کو یاد کر کے رو رہی تھیں، ایک عورت کی ایسی ویڈیو میں جوڑا گیا ہے جو انگشت زنی کر رہی ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ ویڈیو عام ہوئی اور لوگ سمجھتے رہے کہ یہ اصل میں میری ہی ہے۔ اور پھر انھوں نے ’ڈیڈی ڈیڈی‘ کے سب ٹائٹل بھی اس پر چسپاں کر دیے۔ سافٹ ویئر ماہرین نے بی بی سی کو بتایا کہ صرف ایک تصویر سے اس طرح کی جعلی ویڈیوز بنانے کی ٹیکنالوجی ایک سے بھی کم عرصے میں عام ہو جائے گی۔ یہ بیلا کے لیے پریشان کن ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اس (ٹیکنالوجی) کا استعمال آپ کی پسندیدہ شخصیت پر ہی نہیں ہوگا۔ بلکہ یہ کم سن بچوں کی عریاں ویڈیو بنانے کی آماجگاہ بن جائے گی۔‘ وہ کہتی ہیں کہ اس طرح کی ویڈیوز ان نوجوان لڑکیوں سے انتقام لینے، بیلک میل کرنے، اور ناجائز دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کی جائیں گی جن کے پاس ان ویڈیوز جو جعلی ثابت کرنے کے لیے ان کی طرح کوئی ڈیجیٹل پلیٹ فارم بھی نہیں ہوگا۔ اس موقع پر گفتگو کا رخ تھورن کی ہدایتکاری میں بالغوں کے لیے بننے والی ان کی پہلی ایڈلٹ فلم ’ہِم اینڈ ہر‘ کی طرف مڑ گیا اور کچھ ایسا ہوا جس کی توقع نہیں تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے یہ فلم اس لیے بنائی کہ ان کے خیال میں اس شعبے میں خواتین کو آنے کی ضرورت ہے تاکہ عورتوں کی جنسیت کے بارے میں پائی جانے والی سوچ کو بدلا جا سکے۔ میں نے ان سے بی بی سی کی ایک حالیہ تحقیقاتی رپورٹ پر، جس میں پتا چلا ہے کہ پورن ہب، جہاں ان کی فلم بھی ریلیز ہوئی ہے، انتقامی عریاں ویڈیوز سے منافع کماتی ہے، تبصرے کرنے کو کہا۔ یہ صاف ظاہر تھا کہ یہ پہلا موقع تھا جب تھورن نے بی بی سی