تصور کیجئیے ایک ایسی میشا شفیع کا جو ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔ اپنے محلے کے قریبی گورنمنٹ اسکول یا کم فیس والے پرائیویٹ اسکول سے میٹرک کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس نے قریبی گورنمنٹ کالج سے بی اے یا بی کام کی تعلیم مکمل کی۔ چونکہ میشا شفیع کے والدین کا تعلق نہائیت ہی غریب طبقے سے ہے، اس لیے وہ اپنی بیٹی کو مزید اعلیٰ تعلیم کے لیے جامعہ میں داخلہ نہ دلوا سکے۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد غریب میشا شفیع اپنے بیمار و بوڑھے والدین اور گھر کا خرچہ چلانے کی خاطر نوکری کی تلاش میں گھر سے باہر نکل پڑتی ہے اور اپنی تعلیمی حیثیت کے مطابق زیادہ سے زیادہ آمدنی والی نوکری تلاش کرتی ہے۔
ان نوکریوں میں سے ایک نمایاں کام پروموٹر کی نوکری ہے جس میں مختلف برانڈز کی پروموشن کرنی ہوتی ہے۔ مختلف کمپنیوں کی جانب سے اپنے برانڈ کی پروموشن کے لیے نوجوان لڑکیوں کو مختلف شاپنگ سینٹرز/ شاپنگ مالز اور سپر مارکیٹ میں مقرر کر دیا جاتا ہے۔
اب اس غریب میشا شفیع کا پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ جو مرد اُس شاپنگ سینٹر میں نوکری کر رہے ہیں یا جو ‘عزت دار مرد’ شاپنگ کرنے کے لیے آتے ہیں اور خریداری کے ساتھ ساتھ نوجوانوں لڑکیوں کو اپنی نظروں سے ہراساں کر رہے ہوتے ہیں، اْن تمام مردوں سے بچتے ہوئے اپنا کام چپ چاپ کرتے رہنا۔
مگر جیسا کہ ہر ادارے کا ایک اصول ہوتا ہے کہ کسی بھی ٹیم کو تشکیل دینے کے لیے ایک انچارج کو مقرر کیا جاتا ہے، ویسے ہی ان پروموٹر لڑکیوں کی ٹیم کے لیے بھی ایک مرد انچارج کو مقرر کیا جاتا ہے جس کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ جو لڑکی سمجھ نہیں آرہی اس کو کام سے نکال کر اس کی جگہ کوئی دوسری لڑکی رکھ لینا۔
بد قسمت ہوتی ہیں وہ لڑکیاں جنہیں بد اخلاق اور ہوس کے شکاری انچارج نصیب ہوتے ہیں جو اپنے عہدے کا غلط فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اپنی ہوس مٹانے کی خاطر اس غریب مجبور لڑکی کو ناجائز کام کے لیے رضامند کرتے ہیں۔ انہیں پروموشن اور بونس کی شکل میں لالچ دیتے ہیں۔
وہ لڑکی جانتی ہے کہ اگر میں نے اپنے اعلیٰ عہدے پر فائز انچارج کے سامنے نخرے دکھائے تو وہ مجھ سے ناراض ہو کر کوئی بھی وجہ بنا کر مجھے نوکری سے نکال دے گا اور میرے بدلے کسی دوسری لڑکی کو رکھ لے گا۔ اس لیے آخر میں اُس غریب میشا شفیع کے پاس دو ہی راستے بچتے ہیں۔ ایک کہ اپنے ہوس کے شکاری سینئیر کے سامنے نخرے کیے بغیر اس کی ہر قسم کی بات مان لے اور دوسرا یہ کہ اپنی نوکری چھوڑ دے۔
مگر کیا کرے وہ غریب میشا شفیع جس نے اپنے گھر کا خرچہ ہر حال میں پورا کرنا ہوتا ہے۔ شائد شروع میں اسے بہت تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک وقت یہ بھی آ جاتا ہے کہ اپنے سے بڑوں کو خوش کرنا اس کی نوکری کا اوّلین فریضہ بن جاتا ہے اور پھر وہ لڑکیاں بھول جاتی ہیں کہ یہ ہراساں ہونا بھی کسی چڑیا کا نام ہوتا ہے۔
بےشک مشہور گلوکارہ میشا شفیع اپنے فن کے لیے محنت کر رہی ہیں اور غریب میشا شفیع اپنے اہل خانہ کی دو وقت کی روٹی کے لیے محنت کر رہی ہے مگر دونوں کو پیش آنے والے حالات ایک ہی ہیں۔ دونوں کے اردگرد ایسے بھیڑیے موجود ہیں جن کے لیے وہ مشہور گلوکارہ یا غریب میشا نہیں بلکہ صرف اور صرف ایک جسم ہیں جسے بنبھوڑنا ان کا حق ہے۔ اپنے حق سے یہ اس دن دستبردار ہوں گے جب ان کے گھر بیٹھی میشا پر کوئی اپنا حق جمانے کی کوشش کر رہا ہوگا۔ کاش وہ دن آنے سے پہلے ہی یہ سمجھ جائیں۔