لاہور (ویب ڈیسک) ملک میں غربت اورمہنگائی سے تنگ آکر لوگ اپنے جگر گوشوں کوبھی فروخت کررہےہیں۔ گزشتہ چند سال میں صوبہ سندھ میں والدین کی طرف سےحصول زر کی خاطر کم عمر بچیوں کی فروخت کے رجحان میں اضافہ ہوا ہےجس نے باقاعدہ کاروبار کی صورت اختیار کرلی ہے، اور کئی ایسے ( نامور صحافی حاجی گل حسن آریر اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں) واقعات بھی سامنے آئے ہیں جن میں غریب والدین نے اپنی بیٹیوں کوخطیر رقم کے عوض غیرملکیوں کے ہاتھوں فروخت کرکے بیرون ملک بھیج دیا۔ عمرکوٹ کے علاقے میں 2017 اور 2018 میںکم سن لڑکیوں کی فروخت اور اور کم عمری میں شادیاں کرانے کے واقعات عام ہیں،
جو قانوناً جرم ہیں اور عمرکوٹ پولیس نے ایسےہی کئی واقعات میں ملوث متعدد افراد کو گرفتار کیا تھا۔جنگ کو موصولہ اطلاعات کے مطابق گھوٹکی، ڈہرکی، ڈیرہ غازی خان ، بہاولپور اور دیگر علاقوں کے بڑی عمر کےصاحب ثروت افرادغریب والدین سے ان کی نو عمر بیٹیوں کا سودا کرلیتے ہیںجو ان کی مالی تنگ دستی سے فائدہ اٹھا کرچند ہزار روپے کی ادائیگی کرکے انہیں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔بعض افراد ان کے ساتھ باقاعدہ شادی رچاتے ہیں،ایک سال کے دوران عمرکوٹ میں کم عمر بچیوں کےساتھ شادی کےکئی واقعات رونما ہوئے اور پولیس نے اطلاع ملنے پر فوری طور پروہاں پہنچ کردولہا، دلہن، لڑکی کے باپ اور باراتیوںکو گرفتار کرکےمقدمہ د رج کرنے کے بعد عدالت میں پیش کیا تھا۔ تھرپارکر کے اس ضلع میں اس نوع کے درجنوں واقعات پیش آنے کے بعداس رجحان کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے دو ماہ قبل آئی جی سندھ ، اے ڈی خواجہ نے عمرکوٹ میں ویمن پولیس اسٹیشن قائم کرنے کا حکم دیا اور اس کی پہلی خاتون ایس ایچ او، محترمہ خوش بخت کو مقرر کیا گیا۔ ویمن تھانے کے قیام کے اگلے ہی روز،کم عمر لڑکیوں سے جبری شادی کے دو واقعات سامنے آئے۔
ایس ایچ او ویمن تھانہ نے دونوں واقعات کا مقدمہ درج کرنے یا عدالت میں پیش کرنے کی بجائےمصالحانہ کردار ادا کیا۔ انہوں نےدونوں فریقین اوران کے علاقے کے وڈیروں سے اسٹامپ پیپر پردست خط کروائے اور ان سب کو چھوڑ دیا گیا۔اسی طرح کا دوسرا واقعہ ایک بچی امیشا خاصخیلی کے ساتھ پیش آیا۔ ایس ایچ او ویمن تھانہ کو اطلاع ملی کہ گوٹھ ہاشم پلی میں ایک کم عمر بچی کی شادی ، بڑی عمر کے مرد کے ساتھ کی جارہی ہے۔ وہ اپنے عملے کے ساتھ وہاں پہنچیں اور دولہا ، دلہن کو ان کے رشتہ داروں سمیت حراست میں لے کر تھانے لے آئیں۔ 8 گھنٹےتک پوچھ گچھ کے بعدانہوں نے کم سن دلہن، امیشا کی ماں عمرہ اور گوٹھ کے وڈیروں سیف اللہ پلی اور فیض علی پلی سے اسٹامپ پر دستخط کراکے لڑکی امیشاسمیت تمام افراد کو چھوڑ دیا ۔
امیشا کے والدین ، وڈیرے سیف اللہ پلی اور فیض علی پلی لڑکی کو تھانے سے لے کر گھر چلے گئے۔ چار روز کی خاموشی کے بعد لڑکی کی ماں، بھائیوں اور خاصخیلی برادری کے دیگرافراد نے عمرکوٹ اور میرپورخاص پریس کلب کے سامنےمظاہرہ کرتے ہوئے ایس ایچ او ویمن تھانہ پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے دوسرے فریق سےملی بھگت کرکے امیشا کو اغوا کرایا ہے۔ مذکورہ واقعے کی خبر جب آئی جی سندھ تک پہنچی تو انہوں نےفوری طورپر ایس پی عمرکوٹ عثمان اعجاز کو حکم دیا کہ اس واقعے کی تحقیقات کرکے مذکورہ بچی کو فوری طور سےبازیاب کرایا جائے۔ پولیس نے دونوں وڈیروں سیف اللہ پلی اورفیض علی پلی کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ۔وڈیر وں کی گرفتاری کے دو روز بعد ان کی برادری کے افرادنے عبدالقادر پلی کی قیادت میں پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا جس میں انہوں نے الزام لگایا کہ ہمارے دو نوجوان وڈیرے جو خودپر امیشا کے اغوا کا الزام عائدہونے کے بعد تھانے میں پیش ہوئے تھے،انہیں پولیس نے غائب کردیا ہے، جب کہ ان کے خلاف کوئی مقدمہ بھی درج نہیں ہے۔ مظاہرین نے اس حوالے سے مزید کہا کہ لڑکی امیشا کو خود اس کےوالدین نے غائب کیا ہے اور سامارو کی ایک بااثر سیاسی شخصیت کےپاس اسے چھپا کرسیف اللہ پلی اور فیض علی پلی کےخلاف بچی کے اغوا کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
اس دوران امیشا کے رشتہ داروں کی جانب سے بھی جوابی مظاہرہ کیا گیا اور یہ سلسلہ دونوں فریقین کی جانب سے وقفے وقفے سے متواتر چلتا رہا۔ 15 روز بعدعمر کوٹ پولیس نے ڈرامائی انداز میں لڑکی کی بازیابی ظاہر کردی۔ اس سلسلے میں ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس کا ایک ریٹائرڈ اہل کارمحرم بلوچ اپنی اہلیہ رضیہ بلوچ کے ساتھ اپنی گاڑی میںکہیں جارہا تھا کہ اسے ٹنڈوالہ یار بائی پاس روڈ پرایک نو عمر لڑکی نے ہاتھ دے کرروکا اور ان سے لفٹ مانگی۔ اس نےاپنا نام امیشا بتا کر اپنی کہانی سنائی جسے سن کر انہوں نے اسے حیدرآباد کے پیجاری تھانے پہنچا دیا، وہاں صوبائی وزیرداخلہ سے مذکورہ لڑکی کی ملاقات کرائی گئی۔ لڑکی کا بیان لینے کے بعد رات کواسےعمرکوٹ پولیس کے حوالے کردیا گیا،جہاں سے اسے میڈیکل چیک اپ کیلئے سول اسپتال عمرکوٹ لے جایا گیا۔ دوسرے روز اسے ڈسٹرکٹ اینڈسیشن جج عمرکوٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ سیشن جج نےسول جج وجوڈیشل مجسٹریٹ 2 عمرکوٹ ،محمد عامر راجپوت کو لڑکی کا بیان قلم بند کرنے کا حکم دیا ۔
امیشا نے عدالت میں دفعہ 164کے تحت دیئے گئے اپنے بیان میں کہا کہ اسے ایس ایچ اوویمن تھانہ ،خوش بخت اور گوٹھ ہاشم پلی کے وڈیروںسیف اللہ پلی اور فیض علی پلی جو پہلےسے گرفتار ہیں، اغوا کرایا اور مجھے نشہ آور چیز پانی میں پلائی گئی جس کے بعد مجھے ہوش نہیں رہا۔ ان وڈیروں نے مجھےنامعلوم جگہ پر قید کردیا ۔ایک روز موقع ملنے پر میں وہاں سے فرار ہوگئی، میں اپنے والدین کے پاس جانے کے لیے سڑک پر کھڑی تھی کہ وہاں سے ایک نیک دل شخص نے مجھے پیجاری تھانہ حیدرآباد پہنچا دیااور پولیس نے مجھےعمرکوٹ تھانے کے حوالے کردیا۔جج نے لڑکی کی خواہش پرپولیس کو اس کے والدین کے پاس پہنچانے کا حکم دیا ۔اسے ہاشم پلی گاؤںلے جایا گیا
لیکن وہاں جاکر معلوم ہوا کہ بچی کے والدین گاؤں کے وڈیروں کی جانب سے دھمکیاں ملنے کے بعدسامارو روڈنقل مکانی کرگئے تھے، امیشا کو وہاں پہنچایا گیا۔ آئی جی سندھ جو اس سارے کیس کی مانیٹرنگ کررہے تھے، انہیں جب لڑکی کی ڈرامائی انداز میں بازیابی کا علم ہوا تو انہوں نےفوری نوٹس لیتے ہوئے پولیس سے جواب طلب کیا کہ اس بات کا پتہ لگایا جائے کہ لڑکی عمرکوٹ سے حیدرآباد کیسے پہنچی ،انہوں نے عمر کوٹ پولیس کو تین روز کے اند ررپوٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔اس سلسلے میں تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی بنائی گئی ہےجس کے سربراہ ایس پی میرپورخاص ہیں جب کہ ایس پی عمرکوٹ اعجاز شیخ اور ڈی ایس پی عمرکوٹ فضل الحق چانڈیو کواراکین کے طور پر مقرر کیا گیاہے۔ 85رکنی سماجی تنظیموں کے نیٹ ورک کےرہنماؤں،نورمحمد بجیر، کاشف بجیر ،سماجی رہنما عبدالحلیم سومرو ،غلام مصطفی کھوسو ،میر حسن آریسر ،مسمات زاہدہ تھیبو ،نازش فاطمہ، علی اکبر راہموں ،امام بخش خاصخیلی نے تحقیقاتی کمیٹی میں عمر کوٹ پولیس کی شمولیت پرتحفظات کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نےآئی جی سندھ سے مطالبہ کیا ہے کہ عمرکوٹ پولیس کو تحقیقاتی کمیٹی سے الگ کیا جائے کیونکہ وہ اس مقدمہ کی فریق ہے۔ انہوں نے چھوٹی عمر کی بچیوں کی بڑی عمر کے افراد کے ساتھ شادی کے خلاف بنائے گئےقانون پر عمل درآمد نہ ہونے پرتشویش کا اظہار کیا ہے۔