تحریر : محمد ریاض پرنس
ہمارے ملک میں اب کسان کی حالت اس قدر لاچار ہو چکی ہے کہ جب کہیں کسانوں کی بات ہوتی ہے دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ان کی حالت زار کو سن کر اور دیکھ کر خود کو ہی شرمندگی ہو تی ہے کہ ہمارے ملک کے کسان کس قدر خوشحال تھے ۔ہمارے ملک کا کوئی بھی انسان بے روزگار نہ تھا۔ ہرطرف خوشحالی ہی خوشحالی تھی۔ہر طرف لوگ خوش تھے۔مگر ان چند سالوں نے ملک اور کسانوں کی ترقی پر بری نظر ڈالی ہوئی ہے۔ جو کسان کو خوشحال نہیں دیکھنا چاہتے ۔جن کو ملک کی ترقی ہضم نہیں ہو رہی ۔جو کسان کو سڑک پر لانا چاہتے ہیں اور سٹاک ہولڈر زکو تخت پاکستان پر۔کسان نے پاکستان کی ترقی کے لئے اپنی محنت سے بے وفائی کبھی نہیں کی ۔کسان نے ہمیشہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لئے دن رات کام کیا ہے ۔اس نہ کبھی رات دیکھی اور نہ دن بس اپنی فصل کی اچھی پیداوار کے لئے لگا رہا۔ تاکہ اس کی اچھی پیداوار پاکستان کی ترقی کے لئے کام آسکے۔
مگر ان دو تین سالوں سے کسان پریشان حال ہے ۔جب بھی وہ کوئی فصل کاشت کرتا ہے تو اس پر اخراجات کے ڈھیر لگ جاتے ہیں ۔ مگر جب وہ تیار ہو سیل کے لئے جاتی ہے تو کسان کی کمر ٹوٹ جاتی ہے۔ کیونکہ جب انسان کو اس کی مزدوری اور مشقت کی پوری محنت نہیں ملے گی تو اس کا دل توٹوٹ ہی جائے گا ۔ کیونکہ اس کی فصل کی پیداوار پر آنے والے اخراجات جن میں کھاد بیج سپرے اس قدر زیادہ ہیں کہ حکومت ان پر کنٹرول ہی کرنا نہیں چاہتی جو دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں ۔ بجلی ہو یا نہ ہو پر بل لاکھوں میں آئے گا۔ کسان کی حالت اب اس قدر نازک موڑ پر ہے کہ اب اس کے پا س تو کچھ بچا ہی نہیں جس سے وہ کوئی فصل کاشت کر سکے کیونکہ زرعی ادویات اور فرٹیلائزکسان کی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ۔کیونکہ اس کی قیمتوں وہ کمی نہیں ہو سکی جس کی کسان کو ضرورت تھی۔ مگر جو کمی کا اعلان کیا گیا ہے اس سے کسان کو فائدہ نہیں مل رہا ۔یہ کمی تو نمک میں آٹے کے برابر ہے۔
کھاد بلیک میں مہنگے داموں فروخت ہو رہی۔ کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں ۔ یہ سٹاک ہولڈر بھی کسانوں کو لوٹ رہے ہیں ۔سٹاک ہولڈرز اصل میں کسانوں اور ملک کے دشمن ہیں ۔ملک بھر میں اب ربیع اور خریف سیزن کی فصلوں کے لئے سالانہ 2کروڑبوری ڈی این پی اور بارہ کروڑ یوریا اور ایک کروڑ نائٹروفاس کھاد استعمال ہوتی ہے ۔ہمارے ملک میں تقریباً 55لاکھ ٹن یوریا اور 7لاکھ ٹن ڈی اے پی تیار کی جاتی ہے اور بقایا ضرورت عالمی منڈیوں سے منگوا کر پوری کی جاتی ہے ۔جس وقت اس کھاد سبسڈی پیکج کا اعلان کیا گیا۔ اسی دن سے کھادوں کے ریٹ میں اضافہ کر دیا گیا۔ او ر کسانوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا گیا۔ مگر افسوس کہ حکومتی نمائندنوں نے اس کے بارے میں کوئی کاروائی نہ کی ۔صرف کسان پیکچ کے ذریعے اپنی اپنی سیاست چمکانے کے لئے کسانوں کو بے وقوف بنایا گیا۔
پاکستان میں موجودہ تمام زرعی ادارے سکون کی نیند سو رہے ہیں ۔ نہ تو ان کو کسانوں کی فصلوں کی پرواہ ہے اور نہ ان کو توفیق ہے کہ وہ شعبہ زراعت میں استعمال ہونے والی ادویات کو چیک کر سکیں۔ مارکیٹ میں دو نمبر زرعی ادویات کی بھر مار ہے کسان کو ہر طرف سے لوٹا جا رہا۔ ان اداروں کو کوئی پرواہ نہیں ۔ کسانوں کی فصلوں کا بیڑہ غرق ہو رہا ہے ۔ ناقص ادویات اور ناقص بیج سرے عام سیل ہو رہا ہے ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ آخر کب تک کسانوں کے ساتھ سوتیلی ماں والا سلوک ہوتا رہے گا۔ موجودہ حکمرانوں کو بلاتفریق تمام شعبہ پر دھیان دینے کی ضرورت ہے ۔ اس وقت موجودہ حالت کے پیش نظر کسان کا جینا مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
آلو اور مکئی کی فصل نے کسانوں کے جنازے نکال دیے ہیں ۔کسان ہر روز اپنی اور حکمرانوں کی بے بسی پر مر رہے ہیں ۔مگر حکمرانوں کو جوں کی توں نہیں ہوتی ۔کسان کو ہر فصل میں اس کا خرچ بھی واپس نہیں مل رہا ۔کسان پیکج کے ذریعے کسانوں کو فی ایکڑ پانچ ہزار روپے دے کر حکومت نے کون ساانوکھا کام کیا ہے ۔اب یہ احسان کب تک حکومت کسانوں کے اوپر تھوپتی رہے گئی ۔اس پانچ ہزار سے کسان کیا کیا خریدے گا۔بجلی کے بل ادا کرے گا یا پھر کھاد بیج سپرے کیا خریدے گا۔
موجودہ حکومت کو چاہئے کہ کسانوں کے تمام مسائل کے حل کے لئے ہر علاقہ میں کمیٹیاں بنائی جائیں جس سے کسانوں کے مسائل حل ہو سکیں ۔ شوگر ملز مالکان سے کسانوں کے بقایا جات کے مسائل بھی حل کروانے کے لئے حکومت اپنا کردار ادا کرے ۔ پچھلے تین سال کے دوران حکومت اور شوگر کین کمیشن کی مبینہ غفلت اور شوگر مل مالکان کے ساتھ ملی بھگت کی وجہ سے شوگر کرشنگ سیزن لیٹ شروع کیا جاتا ہے تاکہ کسان کو نقصان پہنچ سکے اور کسان سے گنا سستے دام خرید سکیں ۔ اور کسان کو مرنے پر مجبور کیا جا سکے۔
پاکستان میں آلو کی فصل کو بہت پسند کیا جاتا ۔ اس لئے بہت سے ملک پاکستان سے آلو درآمد کرتے ہیں ۔ جس سے پاکستان کو بہت فائدہ حاصل ہو تا ہے مگر ایک دو سال سے موجودہ حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے آلو کی فصل کو بہت نقصان کا سامنہ کرنا پڑرہا ہے ان کی غفلت اور بے حسی کی وجہ سے کسانوں نے بہت نقصان برداشت کیا ہے ۔آلو کی کاشت پر فی ایکٹر تقریباً اسی ہزار روپے اخراجات آتے ہیں ۔مگر اس وقت کسان کو اس کی پوری لاگت بھی نہیں مل رہی ۔کسان کا آلو اس وقت فی ایکٹر چالیس ہزار روپے نقصان دے رہا ہے۔ جس سے کسان کی کمر ٹوٹ گئی ہے ۔ اسی طرح مکئی بھی پاکستانی پیداوار میں ایک نام رکھتی ہے ۔مکئی فصل سے بھی پاکستان کا ایک نام ہے مگر یہ بھی حکومتی پالیسیوں کی نظر ہو گئی ہے۔
اسی طرح کوئی بھی ایسا زرعی شعبہ نہیں جس میں کسان کو ریلیف مل رہا ہو۔ سبزیوں ،اور دوسری زرعی اجناس جس سے کسان اپنا پیٹ پالتا ہے ۔موجودہ حکومت کو چاہئے کہ وہ زراعت کے شعبہ کو تباہ ہونے سے بچائیں اور اس شعبہ کو ترقی دینے کے لئے کسانوں کو سبسڈی وسائل مہیا کیے جائیں تاکہ شعبہ زراعت ترقی کر سکے۔شعبہ زراعت کی ترقی سے کسان بھی خوشحال ہو گا ۔حکومت کو چاہئے کہ کاشت کاروں کے تمام مسائل کو حل کیا جائے ۔حکومت کو جاہئے کہ کسانوں کو کسان پیکج کے ذر یعے آلو کی فصل پر دس ہزار روپے فی ایکٹر کے حساب سے سبسڈی دی جائے۔
تاکہ کسانوں کو ذیادہ سے زیادہ ریلیف مل سکے ۔ کیونکہ اس وقت کسان کے پاس اگانے کے لئے کچھ بھی نہیں ۔اگر کسان اس طرح پسے گا تو ہم اور ہمارے پاکستان کے لوگ کھائیں گے کہاں سے۔ اسی طرح زرعی مداخل پر جی ایس ٹی ٹیکس ختم کیا جائے ۔ پاکستان میں کسان کی حالت کو بہتر بنانے کے لئے منصوبہ بندی کی جائے ۔ پاکستان کا کسان خوشحال ہو گا تو پاکستان کا ہر فرد خوش حال ہو گا ۔ کسانوں کی ترقی پاکستان کی ترقی ہو گی۔
تحریر : محمد ریاض پرنس
03456975786