لاہور (ویب ڈیسک) مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میںواقع خوبصورت پنجاب ہاؤس میں بیٹھے یاد آیا کہ پرویز الٰہی اور شہباز شریف کے بعد عثمان بزدار پنجاب کے یہ تیسرے وزیراعلیٰ ہیں‘ جن سے ملاقات کا شرف حاصل ہورہا تھا ۔برسوں پہلے شہباز شریف اور پرویز الٰہی سے پہلی اور آخری ملاقاتیں بھی یہیں ہوئی تھیں ۔ نامور کالم نگار رؤف کلاسراز اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔وزیراعلیٰ کے نئے مشیر شہباز گل کا میسج تھا کہ کل دوپہر کو وزیراعلیٰ صحافیوں سے مل رہے ہیں۔ ڈرائنگ روم میں حامد میر‘ خاور گھمن‘ ضمیر حیدر‘ مہر بخاری‘ فریحہ ادریس‘ صابر شاکر‘ سمیع ابراہیم اور دیگر موجود تھے۔ ڈاکٹر شاہد مسعود دیر سے پہنچے۔ یاد آیا یہیں ایک دفعہ میجر عامر کے ہمراہ اس وقت کے وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کے ساتھ بھی ایک طویل ملاقات ہوئی تھی ۔ پنجاب ہاؤس اسلام آباد بھی اس کی ملکیت ہوتا ہے ‘جو تخت لاہور پر بیٹھا ہو ۔ پہلی ملاقات کے بعدپرویز الٰہی کے وزیراعلیٰ ہوتے ہوئے بھی دوبارہ ملاقات کی خواہش پیدا نہ ہوئی۔ رہی سہی کسر اس وقت پوری ہوگئی جب پرویز الٰہی کے ایک لاڈلے فیصل آباد کے پولیس افسر پر سونیا ناز کے ریپ کا کیس بریک کیا تو انہی کی شہ پر ہی پولیس نے اس مظلوم عورت کا جینا حرام کردیا ۔ کسی صحافی اور حکمران کے درمیان صرف ایک خبر کا فاصلہ ہوتا ہے۔ جس دن کوئی صحافی جرأت کر کے اس حکمران کے خلاف وہ خبر فائل کردے ‘ اگلے دن سے وہ نیگٹو لسٹ میں شامل اور اس کے فالورز کے نزدیک وہ فسادی اور قابل نفرت ہوجاتا ہے۔ دو ہزار آٹھ میں جب شہباز شریف پر کالم لکھا تو ان کے سٹاف افسر کا فون آیا۔ وہ پنجاب ہاؤس میں ناشتے پر ملنا چاہتے ہیں۔ وجہ میرا وہ کالم تھا ”لندن سے اوکاڑہ تک‘‘ جس میں میں نے جعلی انقلاب کا بھانڈا پھوڑا تھا کہ کیسے شہباز شریف نے اوکاڑہ میں ایک ڈی پی او احسان صادق کا سودا کر کے تین ایم پی اے کھرے کر لئے۔ شہباز شریف کی حیرانی بجا تھی‘ چند ماہ پہلے تک تو لندن میں آپ ہمارے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے۔ اب اچانک اتنا سخت کالم لکھ مارا تھا ۔ انہیں لگا وہ جو ڈرامہ چند سال تک پنجاب میں رچانا چاہتے تھے ‘وہ ایک کالم میں ہی ایکسپوز ہوگیا تھا ۔ یہ تبدیلی اور انقلاب کے نعرے صرف لندن تک محدود اور اقتدار میں آنے تک ہوتے ہیں ۔ اپوزیشن کے دنوں میں ہی انقلاب کے نعرے اچھے لگتے ہیں ۔ لوگ بھی جھوم اٹھتے ہیں اور میڈیا بھی متاثر ہوتا ہے‘ لیں جی قوم کو نیا چی گویرا مل گیا ۔ اب تین ماہ کے اندر ہی کوئی ایک بڑے اخبار میں یہ لکھ دے کہ شہباز شریف نے ایک اچھے ڈی پی او کو بدل دیا‘ کیونکہ تین ایم پی ایز وہ قیمت مانگ رہے تھے ‘تو کیا عزت رہ جاتی ہے‘ انقلاب کی ۔ شہباز شریف کو کیا پڑی تھی کہ وہ ہمارے جیسے بیماری کی حد تک آئیڈیلسٹ صحافی کی پروا کرتے‘ ماضی کے نعروں کے بارے میں سوچتے یا فکر مند ہوتے کہ عوام کیا کہے گی۔ انہیں لگا اچھا سودا وہی ہوتا ہے ‘جو نقد ملتا ہے۔ برسوں بعد ایک ایف آئی اے کے سینئر اور شاندار افسر نے بھی یہی بات دکھ کے ساتھ بتائی کہ انہوں نے کتنی محنت سے 2009 ء میں‘ پیپلز پارٹی دور میں منی لانڈرنگ کے ایک بڑے سکینڈل‘ جس میں سوا سو ارب روپے کی منی لانڈرنگ کے ثبوت موجود تھے‘ پاکستان کا بڑا منی ایکسچینج ڈیلر پکڑا تھا۔ سب گرفتار تھے اور چالان پیش کر کے سزائیں ہونی تھی۔ اس وقت ہی پیپلز پارٹی حکومت کے بڑوں نے ان افسران کو تبدیل کر کے ملزمان کی ضمانتیں کرادیں ۔ اس ایماندار افسر کے بقول سودا ایک ارب روپے نقد میں ہوا تھا ۔ وہ افسر کافی دیر افسردہ رہا ۔کیا بنا افسر کی کوششوں کا ؟ اپنے تئیں وہ ملک کے لیے لڑ رہے تھے۔ کسی لالچ اور دھمکی میں نہیں آئے۔ جب انہوں نے شکنجہ کس دیا تو اس وقت ہی انہیں تبدیل کر کے سیاسی حکمرانوں نے ڈیل کر لی ۔ بعد میں وہی بڑا ملزم امریکہ میں پکڑا گیا اور سزا ہوئی۔ میں نے ان ایماندار افسر کو کہا تھا کہ آپ جیسے افسروں کی بس اتنی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ ہر سیاسی حکمران یا وزیر کے لیے ایک موٹا تگڑا شکارگھیر کر ان کے نشانے پر لے آئیں۔ جب بڑے سکینڈل کی تحقیقات کرانی ہوں گی تو پھرحکمران ایماندار افسر تلاش کریں گے۔ ایسا افسر خود سودا نہیں کرے گا ‘ وہ افسر جان لڑا دے گا‘ ثبوت اکھٹے کرے گا ‘ سب لالچ اور پیشکش ٹھکرا دے گا‘ کیونکہ اس افسر کو اپنی عزت اور نام ہر قسم کی دولت سے زیادہ عزیز ہوتا ہے۔ جونہی ملزمان دیکھیں گے کہ سب کچھ کر کے دیکھ لیا بچت کی راہ نہیں نکل رہی تو وہ حکمرانوں اور ان کے وزیروں سے رابطہ کریں گے۔ ڈیل ہوگی اور اگلے روز وہ افسر تبدیل اور اس کی جگہ دوسرا عدالت سے ان کی ضمانتیں کرا دے گا ۔اس طرح کراچی کے ایک سابق ڈائریکٹر ایف آئی اے نے بھی دو برس پہلے یہ بات دکھ سے مجھے بتائی کہ انہیں بھی بڑوں نے ایک سکینڈل کی تحقیقات کے لیے استعمال کیا ۔ اس افسر نے سب دشمنیاں پالیں ‘ ان پر اور ان کے خاندان کے اوپر کیا گند نہیں اچھالا گیا وہ پھر بھی کھڑے رہے‘ لیکن ایک شام بڑوں نے وہی ڈیل کر لی اور وہ اکیلے رہ گئے۔وہی پرانا منظر ‘ اب عثمان بزدار پنجاب ہاؤس میںبراجمان تھے۔ حامد میر نے سوالات شروع کیے۔ وہی ویڈیو ٹیپ جس میں چوہدری پرویز الٰہی اور طارق بشیر چیمہ اپنے تئیں جہانگیر ترین کو کچھ سخت پیغامات بھجوانے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے‘ جبکہ جہانگیر ترین اس وقت نیوٹرل ہونے کی کوششوں میں تھے‘ کیونکہ انہیں اپنی بہن کی سینیٹ کی سیٹ کے لیے چوہدریوں اور گورنر سرور دونوں کے ووٹوں کی ضرورت تھی‘ لہٰذا وہ ہنس رہے تھے۔ سمجھدار جہانگیر ترین کو علم تھا کہ اسے جٹوں اور آرائیوں‘ دونوں کے ووٹوں کی ضرورت ہے۔ صدیوں سے ایک دوسرے کے دشمن آرائیں اور جٹ آپس میں بے شک لڑیں مریں ‘لیکن جہانگیر ترین کی بہن کو سینیٹ کا ووٹ پڑنا چاہیے۔ جٹ اور آرائیں بھی سمجھدار ہیں۔ آپس میں لڑیں گے‘ لیکن دونوں مل کر ووٹ ترین کی بہن کو ہی ٖڈالیں گے۔ جٹوں اور آرائیوں کے درمیان جاری’ مہا بھارت‘ میں ‘جس میں جٹوں کی قیادت پرویز الٰہی اور آرائیوں کی گورنر سرور کررہے ہیں‘ ترین کو محض اپنے ووٹوں سے غرض تھی۔ چوہدریوں کو بھی پتہ تھا کہ یہی وقت ہے ‘جب وہ ایک سنہری بٹیرے کو پائوں تلے دبا کر مزید مفادات حاصل کر سکتے ہیں۔حامد میر کے سوال کے جواب میں بزدار نے وہی جواب دیے‘ جن میں سے خبر بننے کی زیادہ امید نہ تھی۔ وہی روایتی جواب جو ایک ایسا وزیراعلیٰ دے سکتا ہے‘ جس کے ہاتھ پائوں بندھے ہوئے ہوں‘ لیکن وہ پھر بھی اپنی انا کی خاطر سمندر میں تیرنے کی اداکاری کررہا ہو؛ اگرچہ اسے پتا ہو کہ دیر یا بدیر اس نے انہی بے رحم پانیوں میں ڈوب جانا ہے۔ بزدار صاحب جب اپنی سادگی بتانے لگے کہ وہ تو دو کپڑوں کے جوڑوں کے ساتھ آئے تھے تو ضمیر حیدر یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ سر جی پنجاب میں کچھ نہ کریں‘ کپڑوں کے جوڑوں کی تعداد ہی بڑھا لیں۔ اس پر ایک قہقہہ پڑا۔ سیاسی سوالات کا جواب دینا ہمیشہ آسان ہوتا ہے۔ بزدار صاحب بھی وہی کررہے تھے ‘جس سے صحافی کوئی مطلب نہ نکال سکیں۔ بولے :ان کے سب کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور اصلی وزیراعلیٰ وہی ہیں ۔ سرائیکی ہونے کا ایک فائدہ ضرور ہوتا ہے‘ آپ ذومعنی فقرے‘ جملے کہنے کے ماہر ہوتے ہیں‘ تاکہ اگلا کسی بات سے ناراض نہ ہو۔ آپ اپنی بات بھی دوسرے تک پہنچا دیتے ہیں اور ناراض ہونے کا موقع بھی نہیں دیتے۔ بزدار صاحب اس وقت وہی کھیل کھیلنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔اس لیے پوچھا گیا: آپ کے ہاں سرائیکی علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگوں کے آنے کا بڑا چرچا ہے تو بزدار نے فوراً روایتی ٹچ دیا جناب ہر علاقے کی اپنی روایات ہیں ۔ اب ہم بلوچ ہیں۔ لوگ ملنے آتے ہیں وہ اپنی پوری بات کرتے ہیں ۔ جب تک وہ بولتے رہتے ہیں آپ انہیں چپ کر کے سنتے ہیں۔ آپ بے شک ان کا کام نہ کریں‘ لیکن ان کی بات پوری سننی پڑتی ہے۔ یہ ہماری روایات ہے پوری کرنی پڑتی ہے۔ جب پرویز الہٰی اور گورنر سرور کے درمیان جاری جٹوں اور آرائیوں کی جنگ بارے مزید سوالات ہوئے تو بزدار صاحب کو کہنا پڑ گیا: جناب میں تو شام کی واک گورنر ہاوس کرتا ہوں۔گورنر سے بھی وہیں ملاقات ہوجاتی ہے اور اکھٹے واک بھی کرلیتے ہیں ۔ حامد میر اچھل پڑے اور بولے: اوہ واقعی ؟ یہ تو بہت بڑی خبر ہے۔