تحریر : چوہدری ذوالقرنین ہندل
گندم کی کٹائی بھی مکمل ہو گئی۔اور اپنے ساتھ کسانوں کی خوش فہمی کو بھی نگل گئی۔کسانوں کی امیدیں اور منصوبے سب ختم ہو گئے۔سب خواہشیں دری کی دری رہ گئیں۔اور کچھ بچا ہوا صبر اور حوصلہ بھی ختم ہو گیا۔قرض پہلے سے بڑھ گئے۔کسانوں کے سب ارمان ٹوٹ گئے۔گھرانے پہلے سے بھی ویران نظر آنے لگے۔فکریں اب بوجھ بن گئیں اور زہن نے سوچ سوچ کر کسانوں کو بڑھاپے میں داخل کر دیا۔آبائو اجداد کا پیشہ اب زہر کی طرح زہریلا بن گیا۔کھیتی باڑی سے محبت ختم ہو گئی۔اور دل و دماغ گردش میں رہنے لگے طرح طرح کے وسوسے تنگ کرنے لگے۔کچھ نے تو یہ سوچ کر دل کو تسکین دی کہ نفع ہو یا نقصان سب کچھ بیچ باچ کر شہر یا کسی ٹائون میں منتقل ہو کر کوئی کاروبار شروع کریں گے اور زراعت کو ہمیشہ کے لئے خیر آباد کہیں گے آخر اس نے ہمیں دیا ہی کیا ہے بلکہ ہمارا خون ہی چوسا ہے۔
نہ جانے ہمارے دل میں ایسی سوچ پہلے کیوں نہ آئی ہماری عقل پر پردہ جو پڑا تھا۔مگر بے چارے وہ کسان جن کے پاس نہ تو مویشی ہیں نہ ہی کوئی آبائو اجداد کی جائیداد انکا تو کلیجہ ہی پھٹ گیا قلب نے جیسے حرکت کرنا ہی چھوڑ دیا۔اور اوپر سے فصل پر لگے اخراجات اور خرچ جو کسی ڈیلر سے قرض کے تور پر لئے تھے وہ ستانے لگے۔افسوس کے بہت ساروں نے خودکشی کا بھی سوچا ہوگا مگر کیسے خودکشی کریں گھروں میں بیٹھی مائوں بہنوں بیویوں اور بیٹیوں کا وارث کون ہوگا۔بس دل میں یہی خیال ہے کہ جائیں تو کہاں جائیں کریں تو کیا کریں؟۔قارئین یہ سب لکھنے کا مقصد بتانا ہے کہ بالخصوص چھوٹے کسان تو پس چکے ہیں ان کا ہمدرد کوئی نہیں۔کچھ تو اللہ تعالی پر توکل قائم رکھے ہوئے ہیںاور کجھ تو زندگی کی ہمت ہار چکے ہیں بس انکا دل ہے کہ آخری آرام گاہ کا سکون لیں۔
موجودہ گندم کی کٹائی کے بعد کسانوں کو بہت زیادہ ذلیل کیا گیا۔کہنے کو تو حکومت گندم کی خریداری ٠٠٣١ روپے فی من میں کر رہی ہے مگر اصل میں جو رقم کسان کو ملتی ہے وہ ٠٠٢١ روپے فی من ہے۔اوپر والا سو روپیہ معزز حکومت کے گوداموں تک گندم پہنچانے کا خرچ جس میں سے باردانہ کی قیمت کرایہ اور کچھ رقم محترم فوڈ انسپکٹر اور باقی عملے کی نظر۔یہ تو صرف انکے لئے تھا جو صاحب وافر مقدار میں روپیہ رکھتے ہوں مگر غریب کسان بے چارے روز باردانہ کے حصول کے لئے آتے اور سارا دن لائنوں میں کھڑے ہو کر شام کو خالی ہاتھ واپس لوٹ جاتے یعنی ہفتوں ذلالت انکا مقدر ٹھہری اور آخر کار پھر وہی ڈیلروں کو ٠١١ ٠روپے فی من کے عوض گندم فروخت کرنی پڑی۔مگر اس کے بر عکس ایم این ایز و ایم پی ایز فوڈ انسپکٹر اور انکے حامی و عزیزواقارب بغیر کسی لائن میں کھڑے ہزاروں کی تعداد میں توڑے و باردانہ سب سے پہلے ہی لے گئے اور انہوں نے وافر مقدار میں باردانہ لے کر بعد میں اپنا ریٹ بنا کر بلیک میں دوسرے ڈیلروں کو فروخت کیا۔
بقول ہماری گورنمنٹ ساڑھے بارہ ایکڑ اور اس سے کم اراضی والے چھوٹے کاشتکاروں کو سب سے پہلے باردانہ دیا گیا اور میں نے ایسے اشتہارات بھی اخبارات میں دیکھے جن میں لکھا ہوا تھا کہ باردانہ کی منصفانہ تقسیم ہوئی۔مگر پتا نہیں انہیں نظر کیوں نہیں آتا؟کہ ان کے اپنے ایم این ایز و ایم پی ایز اور آفیسران ہی غریبوں کا حق کھا جا تے ہیں۔خدارا حضرت عمر رضی اللہ کی حیات و حکمرانی کے بارے ضرور پڑھیں شاید آپ کو خدا کا خوف آجائے۔کسانوں کے ساتھ عرصہ دراز سے ہی نا انصافی ہو رہی ہے کہیں کسانوں(زراعت) کا بجٹ میٹرو ٹرین کی نظر اور کہیں دوسرے پراجیکٹس کی نظر۔اور اگر کچھ حصہ آبھی جائے تو وہ محکمہ زراعت اور ایم پی ایز و ایم این ایز کی نظر۔کیا کسان اس وطن کا حصہ نہیں ؟اگر ہے تو ان کے ساتھ سوتیلوں سے بھی بد تر سلوک کیوں؟کیا حکمرانوں کی کسانوں سے کوئی دشمنی ہے؟اگر نہیں تو بے گانوں سا سلوک کیوں؟ کیا کوئی سازش پاکستانی کسانوں(زراعت) کا خاتمہ چاہتی ہے؟اور کیا حکومت اس میںسازشیوں کے ساتھ ہے۔
پاکستان میں ہر چڑھتے سورج کے ساتھ زراعت کا پیشہ ٹھپ ہوتا جا رہا ہے۔ایسا صرف کسانوں کے ساتھ نا روا سلوک کی بدولت ہو رہا ہے۔کسان بے چارے طرح طرح کے ٹیکس دیں کہیں زرعی ٹیکس کہیں آبی ٹیکس کہیں کھادوں دوائوں کے ٹیکس یہ سب کسان کو ہی ادا کرنے ہوتے ہیں ۔اور دن بدن کھادوں دوائوں اور دوسری ضرورت کی اشیاء کے آسمانوںکو چھوتے ہوئے ریٹ اور بے چارے کسانوں کی فصل وہی کوڑی کے بھائو۔ آخر حکومت خود ہی بتا دے کہ کسان ایسے میں کہاں جائیں اور کیا کریں؟میں آپکو بتانا چاہتا ہوں ہمارے وطن کی زراعت کو خطرہ لاحق ہے اگر وطن سے کسان کم ہوتے گئے تو ایک دن ایسا آئے گا ہمیں بیرون ممالک سے زرعی اجناس منگوانی پڑیں گی۔اور پھر موجودہ زرعی اجناس سے چار گنا زیادہ رقم ادا کرنا پڑے گی اور پھر ایسی مہنگائی سامنے آئے گی کہ دوسرے شعبوں اور صنعت کا بھی بیڑہ بھی غرق ہو جائے گا یعنی سب کچھ اجڑ جائے گا۔ ملک میں توازن قائم نہیں رہے گا اور جرائم پہلے سے بھی چار گنا زیادہ بڑھ جائیں گے۔اگر کسانوں کی خوشحالی کے لئے کچھ نہ کیا گیا تو خوش کوئی بھی نہیں رہے گا کسان خوشحال تو پاکستان خوشحال۔
ذرا سوچئے جو دہقاں و کسان آپکو کھانے پینے کی بہت ضروری اشیاء فراہم کرتا ہے اگر وہ خود اپنی ضروریات پوری نہ کر سکے تو یہ کتنی بڑی نا انصافی ہے۔محکمہ زراعت۔خدارا یا تو اس محکمے کو ختم کر دیں یا اس کو فعال بنائیں ۔ یوں ہی یہ بھی قومی خزانے پر بوجھ ہے اور وزارت زراعت کا تو اللہ ہی حافظ۔اور وزیر اعظم صاحب کہاں گئی وہ تین سو چالیس ٠٤٣ ارب کی امداد جو کسانوں کے لئے مختص تھی کہاں گئے وہ وعدے جو کسانوں ک ساتھ کئے۔اللہ تعالی سے ڈریں آخر سب نے مرنا ہے ۔مجھے غصہ آتا ہے ان ڈیلروں اور صنعت کاروں پر جنہیں کسانوں کی فصلوں کا ریٹ بڑھتا ہوا چبھتا ہے مگر اپنی چیزوں کے ریٹ بھلے معلوم ہوتے ہیں۔اصل میں کسان انکی بنائی ہوئی چیزوں کی مہنگائی اور حکومت کی کرپشن کی وجہ سے پس گیا ہے۔وزیر اعظم صاحب کسانوں کے ساتھ کئے ہوئے وعدوں کو پورا کریں ورنہ ہم یاد کرواتے رہیں گے اور میری صحافیوں و لکھاریوں سے گزارش ہے کہ کسانوں کا حال ایوانوں تک پہنچائیں اللہ تعالی اجر دے گا۔
نہ رہے دہقاں و کسان اس دیس میں تو
نہ رہیں گی حکومتیں سلامت نہ صنعتیں۔
تحریر : چوہدری ذوالقرنین ہندل