تحریر : صاحبزادہ حسنات احمد مرتضے
اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک روزہ بھی ہے ۔ اہل اسلام کے لئے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کئے گئے ہیں ۔ یہ روزے اس امت کے لئے بھی ہیں اور آپ ۖ سے پہلے جو امتیں تھیں ، ان کے لئے بھی روزے فرض کئے گئے تھے ۔ قرآن کریم میں روزوں کی فرضیت کی حکمت تقوی بیان کی گئی ہے ۔ ارشاد باری ہے ۔ اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کردئیے گئے ہیں جیسے کہ فرض کئے گئے تم سے پہلے لوگوں پر ان کی فرضیت تمہیں پرہیز گار بنانے کے لئے ہے ۔( البقرہ 183)ترجمہ از علامہ سید ریاض حسین شاہ صاحب قرآن کریم نے اس آیت میں صیام کا کلمہ استعمال کیا ہے ۔ صیام صوم کی جمع ہے ۔ صوم کا معنٰی روکنا ، باز رہنا ، سے کیا جاتا ہے ۔ شریعت کی اصطلاح میں طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے ،پینے اور جنسی خواہش سے اپنے آپ کو روکنا صوم کہلاتا ہے ۔ ایک ماہ کے روزے رکھنے کے لئے رمضان المبارک کو مقرر کیا گیا ہے ۔رمضان کی فضیلت یہ بھی ہے کہ اس میں قرآن نازل کیا گیا ہے ۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 185کے پہلے حصہ کا ترجمہ ملاحظہ ہو۔ ٫٫ وہ مہینہ جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے گناہوں کو ختم کردینے والا ہے اہل محبت کے لئے منزل رسا ہے اور ہدایت کی روشن دلیلیں جگمگا رہی ہیں اور یہ فرقان بھی ہے۔
رمضان المبارک کے مقدس ایام میں بہت سی نسبتیں ہیں۔اس میں ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔جس کو رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی پانچ طاق راتوں میں تلاش کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ یہ وہ رات ہے جس میں قرآن کا نزول فرمایا گیا ہے ۔ شب قدر میں قرآن کا نزول اس بات کی دعوت بھی دیتا ہے کہ رمضان المبارک کے مہینہ میں کثرت کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کی جائے ۔ قرآن کریم کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کیا جائے ۔ ایک حدیث شریف کے مفہوم کے مطابق قرآن اور روزہ اپنے پڑھنے اور رکھنے والے کی شفاعت کرینگے ۔ قرآن کہے گا مجھے پڑھنے والے نے اپنی نیند قربان کی اور تلاوت کی اور روزہ کہے گا مجھے رکھنے والے نے بھوک پیاس برداشت کی اس لئے اے مو لا ہمیں اختیار کرنے والوں کی مغفرت فرما ۔ رمضان المبارک کا پہلا عشرہ رحمت ، دوسرا گناہوں سے معافی اور تیسرا جہنم سے آزادی کا ہے ۔رمضان شریف کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرنا سنت موکدہ کفایہ ہے۔
تین رمضا ن المبارک خاتون جنت حضرت سیدہ فاطمة الزہرا کا ٰیو م وصال ہے ، دس رمضان المبارک ام المومنین حضرت خدیجة الکبری کا اور فتح مکہ کا یوم ہے ۔ام المومنین حضرت عائشہ کو بھی اسی ماہ کی نسبت حاصل ہے ۔ سترہ رمضان کو حق و باطل کا پہلا معرکہ بدر کے مقام پر واقعہ ہو تھا ۔ امیرالمومنین حضرت علی المرتضے کی شہادت اکیس رمضان المبارک کو ہوئی ۔ اسی طرح رمضان المبارک کی رحمتوں میں عظیم ہستیوں کی نسبتوں بھی شامل ہوجاتی ہیں۔ ہر عاقل ،بالغ ،تندرست ، مقیم، مسلمان پر رمضان المبارک کے روزے رکھنا فرض ہیں ۔ اگر وہ کسی شرعی عذر کی بنا پر روزے نہیں رکھ پاتا تو اس کو رمضان کے علاوہ دنوں میں ان کی قضا کرنا لازم ہوتی ہے۔
شرعی عذر میں سفر ، بیماری اور عورت کا حاملہ ہونا یا دودھ پلانا وغیرہ شامل ہیں ۔قرآن کریم نے ان احکام کو اپنے مخصوص انداز میں یوں بیان کیا ہے ۔ سورہ البقرہ کی آیت 184کا ترجمہ تذکرہ سے ملاحظہ ہو۔ ٫٫ یہ گنتی کے چند دن ہی تو ہیں البتہ تم میں سے ایسا شخص جو بیمار ہو یا حالت سفر میں ہو وہ دوسرے ایام میں سے روزے پورے کر لے اور وہ لوگ جو اس کی بھی طاقت نہ رکھتے ہو ں وہ اس کے بدلے ایک مسکین کو کھانا دے دیں ، جو نیکی میں اس سے بھی زیادہ آگے بڑھے تو اس کے لئے بہتر ہے یہ اور تمہارے لیے روزے رکھنے ہی بہتر ہیں اگر سوجھ بوجھ رکھتے ہو،،۔رب کریم اپنے بندوں پر بے حد مہربان ہے ۔ اسی لئے دین کے بنیادی اصولوں میں آسانی کو پیش نظر رکھا جاتا ہے ۔ مریض اور مسافر کو رعایت دینے کی حکمت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس میں تمہارے لئے سہولت پیدا کی جائے ۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 185کا ترجمہ ملاحظہ ہو۔
٫٫ تو جو پائے تم میں سے اس عظیم مہینے کو تو اس کے روزے رکھے اور جو کوئی بیمار ہو یا سفر میں ہو تو اتنے ہی روزے دوسرے دنوں میں سے رکھ لے ، اللہ تمہارے لئے سہولت چاہتا ہے اور وہ یہ ارادہ نہیں رکھتا کہ دشواری میں ڈال دے اور یہ بھی کہ تم روزوں کی گنتی پوری کر لو اور تم اللہ کی کبریائی عملا مانتے رہو کہ اس نے تمہیں ہدایت دی ہے اور تمہارے شکر گزار ہونے کایقینی طریقہ یہی ہے ،، رمضان المبارک سمیت تمام اسلامی مہینوں کا آغاز نئے چاند کے ساتھ ہوتا ہے ۔ اللہ تعالی نے اوقات کا تعین کرنے کے لئے شمس و قمر کو مقرر فرمایا ہے ۔ اہل ایمان کو ان کی عبادات کومقررہ اوقات میں کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ نماز ہی کو لیں ، وہ بھی اپنے مقررہ اوقات میں ادا کرنا فرض قرار دی گئی ہے ۔ روزے رمضان میں ، زکٰوة سال میں ایک بار ، حج زندگی میںایک بار ، اور وہ بھی مخصوص ایام میں ادا کیا جاتا ہے ۔ اور مہینوں کا تعین چا ند ہی سے وابستہ کیا گیا ہے ۔ البقرہ کی آیت 189 کے پہلے حصہ کا ترجمہ دیکھئے۔
٫٫ وہ آپ سے نئے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ فرمائیے یہ اس کا گھٹنا بڑھنا لوگوں کے نظام الاوقات کے لئے ہے اور حج کاوقت بھی اس سے وابستہ ہے ،، نیا چاند جس وقت قابل روئیت ہو تو اس وقت نئے مہینے کا آغا ز ہو جاتا ہے ۔ اور ہجری مہینہ حدیث شریف کے مفہوم کے مطابق کبھی انتیس اور کبھی تیس دن کا ہوتا ہے ۔ اسلامی ممالک میں رئویت ہلال کمیٹی قائم کی جاتی ہیں ۔ جو شرعی اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے چاند دیکھتیں ہیں۔ مختلف مقامات پر ان کے اجلاس ہوتے ہیں ۔ ملک میں کہیں بھی رئویت ہو نظام گواہی کی قائم کرنے کے بعد نئے چاند کا اعلان کر دیا جاتا ہے ۔انہی کے اعلان کے مطابق رمضان کا آغا ز ہوتا ہے ۔ رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے ۔ بخاری و مسلم کی حدیث کا مفہوم ہے ۔ جب رمضان آتا ہے تو آسمان کے دروزے کھو ل دیئے جاتے ہیں ایک دوسری روایت کے مطا بق جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھو ل دئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں ۔ ایک اور روایت میں رحمت کے دروزے کھو ل دئیے جاتے ہیںکے کلمات استعمال ہوئے ہیں اور شیا طین زنجیروں میں جکڑ دئیے جاتے ہیں۔
ابن حبان و بیہقی نے حضرت ابو سعید خدری سے روایت کیا ہے کہ نبی ۖ نے فرمایا ۔جس نے رمضان کا روزہ رکھا اور اس کی حدود کو پہچانا اور جس چیز سے بچنا چاہیے اس سے بچا تو جو پہلے کر چکا ہے اس کا کفارہ ہو گیا ۔ الجوہرةالنیرہ میں روزہ کے تین درجات بیان کئے گئے ہیں ۔ عوام ، خواص اور اخص الخاص ۔ عوام کا روزہ یہ ہے کہ کھانے پینے اور جنسی خواہش سے اپنے آپ کو روکنا ۔ خواص کا روزہ یہ ہے کہ اپنے اعضائے جسم کی حفاظت کرنا اور ان کو گناہوں سے باز رکھنا ۔ اور اخص الخاص روزہ میںاللہ کے سوا ہر خیال کو دور کرتے ہیں ،اور ہمہ دم اس کی جانب متوجہ رہتے ہیں رمضان کے روزے دو ہجری میں فرض ہوئے ۔ آغاز میں سونے سے پہلے ہی کھانا پینا جائز تھا، اور ازدواجی تعلقات قائم کرنے کی یہ رخصت بھی قبل از نوم ہی تھی ۔ لیکن بعد میں یہ رخصت طلوع فجر تک دے دی گئی ۔اس رخصت کا سبب ایک انصاری صحابی اور حضرت عمر کا واقعہ ہے ۔ انہی کے واقعات کی وجہ سے اس حکم میں آسانی پیدا کی گئی ۔ اس آسانی کو سورہ بقرہ کی آیت نمبر187ٰمیں بیان کیا گیا ہے۔
٫٫تمہارے لئے حلال ہوا روزوں کی راتوں میں اپنی عورتوں سے جماع وغیرہ ،وہ تمہارے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو ، اللہ نے دیکھا کہ تم اپنے آپ سے خیانت کررہے تھے تو اس نے تم پر رحمت فرمائی اور جو کچھ ہو چکا تھا اسے معاف کردیا سو اب تم ان سے مباشرت کر لیا کرو اور طلب کرو جو اللہ نے تمہاری تقدیر میں لکھ دیا ہے ،،(تذکرہ ترجمہ قرآن) رمضان المبارک میں سحری کرنا باعث برکت ہے ۔مسلم شریف کی حدیث کامفہوم ہے کہ ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں فرق سحری کا لقمہ ہے ۔ طبرانی کی روایت کے مطابق سحری کھانے والوں پر فرشتے صلوة بھیجتے ہیں ۔ سحر و افطار کے وقت دعا قبول ہوتی ہے ۔ سحر ی کرنے کے بعد غروب آفتا ب تک کھانے ،پینے اور جماع سے رکنا روزہ کہلاتا ہے ۔سحری و افطار کے وقت کو سورہ بقرہ کی آیت نمبر187کے ایک حصہ میں یو ں بیان کیا گیا ہے ۔ ٫٫ اور کھائو پیو یہاں تک کہ تم پر ظاہر ہوجائے سپیدئہ صبح کی دھاری رات کی سیاہ دھاری سے پھر پورا کرو روزوں کو رات تک۔
قرآن کریم نے اس آیت میں خیط ابیض اور خیط اسود کے کلمات استعمال کئے ہیں ، جن کا مفہوم بخاری کی اس روایت سے سمجھا جا سکتا ہے ۔ حضرت عدی بن حاتم نے حضور ۖ سے پوچھا یارسول اللہ ۖ کیا خیط ابیض اور خیط اسود سے سفید اور سیاہ دو دھاگے مراد ہیں ۔ حضور ۖ نے فرمایا نہیں بلکہ اس سے مراد رات کی تاریکی اور دن کی روشنی ہے ۔ روزہ رکھتے ساتھ ہی اپنے آپ کو غیبت ، چغلی ، جھوٹ ، بد نگاہی ، بد زبانی ، بدعملی سے روکنا بھی ضروری ہوتا ہے ۔ بخاری میں ہے حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے فرما یا روزہ ڈھال ہے ، روزہ دار نہ جماع کرے ،نہ جہالت کی باتیں کرے ، اگر کوئی شخص اس سے لڑے یا اس کو گالی دے تو وہ دو مرتبہ یہ کہے کہ میں روزہ دار ہوں ، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالی کو مشک کی خوشبو سے زیادہ پسند ہے ، اللہ تعالی فرماتا ہے جس نے اپنا کھانا پینا اور نفس کی خواہش کو میرے لئے ترک کیا۔روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزادوں گا ،اور نیکیوں کا اجر دس گناہ ہے ۔ روزے کی کیفیت میں ذکر و اذکار ، تلاوت قرآن ، درود شریف ، نماز ، اور دیگر عبادات کا بجا لانا روحانیت میں اضافہ کا سبب ہوتا ہے۔
روزہ کی حالت میں بھول کر کسی چیز کو کھا پی لینے سے روزہ قائم رہتا ہے ۔لیکن جو نہی یاد آجائے فورا کھانا پینا ترک کرنا ہو گا ۔ یاد آنے یا یاد دلانے سے نہ رکنے کی صورت میں روزہ فاسد ہو جاتا ہے ۔ بخاری و مسلم کی ایک حدیث جس کو حضرت ابو ہریرہ روایت فرماتے ہیں ، اس کا مفہوم یہ کہ جس روزہ دار نے بھول کر کھایا پیا ، وہ اپنے روزے کو پورا کرے ، اللہ نے اسے کھلایا اور پلایا ۔ مسواک کرنا،سرمہ لگانا ، تیل لگانا ، کنگھی کرنا وغیرہ روزہ کی حالت میں جائز ہیں ۔ اس میںوقت کی کوئی قید نہیں ہے ۔ پہلے وقت میں اور بعد از دوپہر بھی کیا جا سکتا ہے ۔ سرمہ کے حوالے سے ترمذی میں حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول کریم ۖ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا ، میری آنکھ میں مرض ہے کیا میں سر مہ لگائو ؟ آپ ۖ نے فرمایا ہاں ۔ روزہ توڑنے والی اشیا ۔ مندرجہ ذیل اشیا سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے لیکن رمضان شریف میں روزہ ٹوٹ جانے کی صورت میں بھی دن ایسے ہی گزارنا جیسے روزہ رکھا ہوا ہو ،یہ ضروری ہے۔رمضان المبارک کا احترام مقصود ہے ۔ جان بوجھ کر کھانا،پینا ،جماع کرنا ۔اور ایسا کرنے والے کو روزہ یاد بھی ہو تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
ہر قسم کی تمباکو نو شی سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔سگریٹ،حقہ ، تمباکو یا پان کھانے سے ۔ کلی کرتے ہوئے غلطی سے پانی حلق میں چلا جائے روزہ یا دبھی ہو ۔ تو اس سے روزہ ٹوٹ جا تا ہے ۔ دانت نکلواتے ہوئے خون حلق میں چلا جائے تو بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔ دانتوں میں کوئی چیز ہو اور وہ کھا لی جائے تو اس بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے کان میں دوائی یا تیل ڈالا جس کا اثر حلق میں بھی چلا جائے اس سے بھی روز ٹوٹ جا تا ہے ۔جان بوجھ کر منہ بھر قے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔ سنن ابن ماجہ میں حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ جس پر قے نے غلبہ کیا ،اس پر قضا نہیں اور جس نے قصدا قے کی ،اس پر روزہ کی قضاہے ۔ روزہ توڑنے کی بعض صورتوں میں صرف قضالازم آتی ہے اور جان بوجھ کر بغیر شرعی عذر کے روزہ توڑنے کی صورت میں کفارہ لازم آتا ہے ۔بخاری کی حدیث کا مفہوم ہے کہ جس رمضان کا ایک بھی روزہ بغیر عذریا مرض کے چھوڑا، تو اگر وہ تمام دہر بھی روزے رکھے تو اس کا بدلہ نہیں ہو سکتا۔
روزہ توڑنے کا کفارہ
جان بو جھ کر بغیر کسی شرعی عذر کے رمضان المبارک کا روزہ توڑنے والے پر کفارہ لازم آتا ہے ۔دو ماہ مسلسل روزے یا ساٹھ مساکین کو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلانا ۔
روزہ کے مکروھات
جھوٹ ،غیبت ، چغلی ،گالی گلوچ وغیرہ ۔ سنن ابی دائود میں حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ ۖ نے فرمایا ، جوبری بات کہنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ تعالی کو اس کی کچھ حاجت نہیں ہے کہ وہ کھانا پینا چھوڑ دے ۔ ابن حبان کی روایت میں فرمایا کہ روزہ اس بات کا نام نہیں ہے کہ کھانا پینا چھوڑ دیا جائے بلکہ روزہ تو یہ ہے کہ لغو اور بیہودہ باتوں سے بچا جائے۔
بغیر کسی عذر کے کسی چیز چبانا یا چبا کر اگل دینا۔
ہر ایسا کام روزہ کی حالت میں مکروہ ہے جس سے جنسی اور شہوانی جذبات بیدار ہو ں۔
کلی میں مبالغہ کرنا یا پیاس کی صورت میں غرغرے کرنا۔
روزہ کی حالت میں ایسا کام کرنا جس ضعف اور کمزوری واقعہ ہو۔
امت مسلمہ کو رمضان المبارک عطا فرمانے والے
رمضان کے پہلے عشرہ میںرحمتوںکا نزول
دوسرے عشرہ میں گناہوں سے معافی
تیسرے عشرہ میں آگ سے آزادی
ہمارا مقدر بنا۔
ہزار مہینوں سے افضل رات میں قرآن کا نزول فرمانے والے رب
قرآن کا فیضان عطا فرما ، شب قدر کی بہاریں نصیب فرما
اپنے قرب کی نعمت سے نواز ۔ امین یارب العالمین
تحریر : صاحبزادہ حسنات احمد مرتضے