counter easy hit

کیوں دس محرم کے دن روزہ رکھنا اہل تشیع کے نزدیک مکروہ جبکہ اہل سنت کے نزدیک مستحب ہے؟ اور کیوں اہل تشیع اس دن فاقہ کرتے ہیں؟

حقیقت امر یہ ہے کہ ۶۱ ہجری میں نواسہ رسول کو قتل کرنے کے بعد یزید نے اس دن اپنی فتح کا اعلان کیا اور اس دن کو مسلمانوں کے لیے عید کا دن قرار دیا اور اس میں روزہ رکھنے کی فضیلت کے بارے میں حدیثیں جعل کروائیں جیسا کہ زیارت عاشورہ میں عاشور کو بنی امیہ کی طرف سے عید قرار دینے کے بارے میں واضح طور پر کہا گیا ہے’’ اللھم ان ھذا یوم تبرکت بہ بنی امیہ‘‘ ’’ ھذا یوم فرحت بہ آل زیاد و آل مروان بقتلھم الحسین صلوات اللہ علیہ‘‘۔ یعنی خدایا یہ وہ دن ہے جسے بنی امیہ نے بابرکت قرار دیا، یہ وہ دن ہے جس دن آل زیاد اور آل مروان نے حسین علیہ السلام کے قتل کی وجہ سے عید منائی۔
اس کے برخلاف اہل تشیع جو اس دن روزہ رکھنے کو مکروہ قرار دیتے ہیں کے نزدیک اس کی دلیل ائمہ طاہرین سے مروی احادیث ہیں بنعوان مثال’’ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: عاشور کا دن روزہ رکھنے کا دن نہیں ہے بلکہ غم و مصیبت کا دن ہے ایسی مصیبت جو اہل آسمان، زمین اور تمام مومنین پر پڑی۔ یہ دن مرجانہ کے بیٹے، آل زیاد اور اہل جہنم کے نزدیک خوشی کا دن ہے‘‘۔
لہذا عاشور مصیبت اور غم کا دن ہے عید کا دن نہیں کہ روزہ رکھنا مستحب ہو۔ جبکہ اس کے برخلاف بنی امیہ اس دن عید منا کر روزہ رکھتے تھے اور دوسروں کو بھی روزے کی تشویق کرتے تھے۔
رہی بات عاشور کو فاقہ کرنے کی تو فاقہ کرنا شرعی حکم نہیں ہے اور نہ ہی فقہی کتابوں میں موجود ہے بلکہ دعاؤں کی کتابوں میں عاشور کے دن کے حوالے سے وارد ہوئے اعمال میں کہا گیا ہے جیسا کہ شیخ عباس قمی نے کتاب مفاتیح الجنان میں بیان کیا ہے اور واضح ہے کہ مفاتیح الجنان میں وارد شدہ اعمال فقہی اور شرعی اعمال کی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ ان کا ماخذ اخلاقی روایات ہیں انہوں نے اعمال عاشورہ کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ سزاوار ہے شیعوں کے لیے کہ وہ عاشور کو روزہ کی نیت کئے بغیر فاقہ کریں اور عصر کے وقت کسی ایسی چیز سے افطار کریں جو مصیبت زدہ لوگ استعمال کرتے ہیں۔
اور اس کا فلسفہ شاید یہ ہو کہ مولا امام حسین (ع) عصر عاشور تک جو ان کی شہادت کا وقت ہے بھوکے پیاسے لاشوں پر لاشے اٹھاتے رہے لہذا ان کے چاہنے والے بھی اس وقت تک کچھ نہ کھائیں پئیں تو بہتر ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱: صحیح بخاری، کتاب الصوم، ح 1794.