تحریر : محمد اشفاق راجا
فاٹا اصلاحات کمیٹی کی طرف سے پیش کی جانے والی رپورٹ کو عام کیا جائے گا تاکہ اس پر مزید بحث اور تبادل خیال کے بعد اْن سفارشات پر قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ اصلاحات کے لئے پانچ رکنی کمیٹی نے چار آپشنز کی سفارش کی ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ موجودہ صورتِ حال کو برقرار رکھا جائے، لیکن عدالتی اور انتظامی اصلاحات متعارف کرائی جائیں اور ترقیاتی سرگرمیوں پر توجہ بڑھائی جائے۔ دوسرا آپشن یہ ہے کہ گلگت بلتستان کی طرح فاٹا کو نسل تشکیل کی جائے۔ تیسرا آپشن یہ ہے کہ فاٹا کا الگ صوبہ بنایا جائے۔ چوتھا آپشن یہ ہے کہ فاٹا کو خیبرپختونخوا کے ساتھ اِس طرح ملا دیا جائے کہ ہر ایجنسی ایک الگ ضلع ہو اور فرنٹیئر ریگولیشنز انٹیگریٹڈ ہوں۔ فاٹا کو صوبہ خیبرپختونخوا کا حصہ بنانے کے لئے وسیع تر حمایت سامنے آئی ہے،کیونکہ اِس تجویز پر عمل سے بہت سے فائدے ہو سکتے ہیں اور یہ فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کے لئے واحد معقول انتخاب ہے، کیونکہ اِس طرح فاٹا کے عوام صوبائی اسمبلی میں اپنے نمائندے منتخب کر کے بھیجنے کے قابل ہو سکیں گے۔
قیام پاکستان کے بعد فاٹا کا نظم و نسق جوں کا توں رکھا گیا، اِس علاقے کو نوآبادیاتی حکمرانوں نے اپنے زیر تسلط رکھنے کے لئے جو خصوصی قوانین لاگو کئے تھے وہ بھی حسب معمول قائم رہے۔اِس طرح عام شہریوں کو آزادی کے اْن ثمرات کا کما حقہ، ادراک و احساس نہ ہوا جو مْلک کے دوسرے حصوں میں موجود تھا،جو بیورو کریسی انگریز کے دور میں انگریزوں کے مقاصد پورے کرنے کے لئے سرگرم رہتی تھی اور اپنا سارا رعب داب مقامی لوگوں پر گرفت مضبوط کرنے کے لئے استعمال کرتی تھی، وہ نئے حکمرانوں کے لئے استعمال ہونے لگی اِس طرح بنیادی انسانی حقوق کی بدستور پامالی ہوتی رہی خصوصاً فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن(ایف سی آر) کے نفاذ کا مقصود اصل میں مقامی لوگوں کو دباؤ میں رکھنا تھا۔ عین ممکن ہے قبائلی رسم و رواج میں بہت ہی ایسی باتیں ہوں جن سے قبائلی لوگ مطمئن ہوں اور ان کو اپنے معاشرے میں مروج بھی رکھنا چاہتے ہوں، لیکن جدید تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ قبائلی رسم و رواج کا بدلنا بھی ضروری ہوگیا ہے۔
قبائلی عوام اگر اپنا لباس، اپنا طرزِ بود و باش، اپنے رسم و رواج اور روایات کو اپنے معاشرے میں جاری و ساری رکھنا چاہتے ہیں تو اس پر کِسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے، لیکن قبائلی رسوم کی آڑ میں اگر عوام کے بنیادی انسانی حقوق دبائے جائیں، اْن سے تحریر و تقریر کی وہ آزادیاں بھی چھین لی جائیں، جو باقی مْلک کے عوام کو حاصل ہیں۔ اگرچہ وہ بھی کوئی مثالی تو نہیں ہیں اور اْن میں بھی اصلاحات اور بہتری کی خاصی گنجائش ہے، تاہم قبائلی عوام کو تو وہ بھی حاصل نہیں، یہاں تک کہ قبائلی صحافیوں کو بھی کام کرنے کی آزادی نہیں ہے، اْن کی خبروں پر قبائلی قوانین کے تحت سخت گرفت کی جاتی ہے اور بعض اوقات اْنہیں لمبی قید جیسے شکنجوں میں بھی کس دیا جاتا ہے اور ایسے سب فیصلے پولیٹیکل انتظامیہ کرتی ہے، جس کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں کوئی اپیل بھی نہیں کی جا سکتی، کیونکہ اعلیٰ عدالتوں کا دائرہ کار فاٹا تک وسیع نہیں ہے، اِس لئے لوگ پولیٹیکل انتظامیہ کے رحم و کرم پر رہتے ہیں اور صحافی بھی ایسی رپورٹنگ سے گریز کرتے ہیں، جس کو بنیاد بنا کر ان کے خلاف خصوصی قوانین کو حرکت میں لایا جا سکے۔
فاٹا میں اصلاحات کے لئے کمیٹی نے جو سفارشات کی ہیں، اْن کو مشتہر کرنے کا فیصلہ مستحسن ہے، اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ہر کوئی مشاورت کے اِس عمل میں شریک ہو سکے گا اور اپنی رائے سامنے لا سکے گا۔ وسیع تر مشاورت کا فائدہ یہ ہو گا کہ جو بھی فیصلہ ہو گا، اس میں عوام کی رائے شامل ہو گی۔ ویسے تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ فاٹا میں اس بات پر لوگوں کی رائے لے لی جائے کہ کیا وہ فاٹا کا الگ صوبہ چاہتے ہیں یا خیبرپختونخوا کا حصہ بننا چاہتے ہیں؟ بنیادی طور پر چونکہ فیصلہ قبائلی عوام کے مستقبل کو متاثر کرنے والا ہو گا، اِس لئے فیصلہ بھی اْنہی کی رائے سے ہونا چاہئے۔سوال براہِ راست پوچھا جانا چاہئے اور اس کا انداز وہ نہیں ہونا چاہئے، جو صدر ضیاء الحق اور صدر پرویز مشرف کے صدارتی ادوار میں ہونے والے ریفرنڈم میں پوچھا گیا تھا۔ سوال کنفیوڑن پھیلانے والا بھی نہ ہو۔
مشاورت ایک اچھا عمل ہے اور مسلمانوں کو تو خاص طور پر حکم ہے کہ وہ اپنے باہمی معاملات مشورے سے سرانجام دیا کریں، لیکن بدقسمتی یہ ہوئی کہ یہ سنہری اصول غیر مسلم اقوام نے زیادہ بہتر انداز میں اپنا لیا اور مسلمان مْلک اِس سے گریز اختیار کرنے لگے۔ مشاورت کے لئے جو ادارے موجود ہیں، حکمران اْن سے بھی مشورہ کرنا پسند نہیں کرتے، بلکہ بعض اوقات تو وزراء کو بھی مشورے کا اہل نہیں سمجھا جاتا۔ نتیجہ یہ ہے کہ کابینہ کے اندر بھی کچن کابینہ بن جاتی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ چند قریبی وزراء سے من پسند مشورہ لے لیا جائے۔ ہمارے خیال میں تو فاٹا کے مستقبل کا فیصلہ خود فاٹا کے عوام کی رائے کے مطابق ہونا چاہئے، وہ خود جو فیصلہ کریں اس پر عمل کر لیا جائے تو عوام بھی خوش ہوں گے اور آئندہ کے لئے اپنے معاملات کو بہتر طریقے سے چلانے کے لئے جدید جمہوری ادارے وجود میں لائیں گے۔ قبائلی مَلک سسٹم بھی ممکن ہے مفید ادارہ ہو اور اِس طرح قبائلی عوام کو مطیع فرمان رکھنے میں مدد بھی ملتی ہو۔
لیکن اس امر کا امکان موجود ہوتا ہے اور عملاً ایسا ہوتا بھی ہے کہ قبائلی عوام کو دباؤ میں رکھنے کے لئے مَلکوں کو استعمال کیا جائے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ جو مراعات عوام کو ملنی چاہئیں، وہ صرف چند سو مَلکوں کے لئے مختص کر دی جائیں۔ انگریزوں نے تو یہ نظام اِس لئے رواج دیا تھا کہ وہ ہزاروں لاکھوں لوگوں سے براہِ راست معاملات کرنے کی بجائے چند سو مَلکوں کو اپنے ہاتھ میں رکھتے تھے اور اپنی مرضی کے فیصلے فاٹا پر مسلط کر دیتے تھے،لیکن جمہوری دور میں جب پورا مْلک جمہوریت کے فیوض و برکات سے مستفید ہو رہا ہے،فاٹا کے عوام کو اس سے محروم رکھنا ظلم ہو گا۔پورے مْلک میں ایک ہی طرح کے قوانین نافذ ہونے چاہئیں اور ہر شہری کو یکساں انصاف ملنا چاہئے، سہولتیں بھی پورے مْلک کے عوام میں برابر تقسیم ہونی چاہئیں، اِس لئے فاٹا کو جلد از جلد باقی مْلک کے برابر لانے کے لئے اصلاحات کے عملی نفاذ کا عمل تیز کیا جائے۔ مشاورت میں غیر معمولی تاخیر بھی نہیں ہونی چاہئے۔
تحریر : محمد اشفاق راجا