counter easy hit

فاٹا انضمام یا فاٹا صوبہ

اگر تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو برصغیر کے مسلمانوں کو تباہ کرنے اور پسماندہ رکھنے کا آغاز ریاستِ میسور کے اختتام سے ہوا۔ ٹیپو سلطان اور اُن کی مدد کےلیے افغان حکمران کی آمد کو ایران کے ذریعے روک کر ریاستِ میسور کو تنہا کرکے ایک تاب ناک مستقبل کا باب ہمیشہ ہمیشہ کےلیے بند کردیا گیا۔

انگریز نے برصغیر کی تاریخ کی ورق گردانی کے ساتھ ساتھ ہندو اور دیگر غیرمسلموں کی زبانی یہ بات سمجھ لی تھی کہ اگر مستقبل میں اُن کےلیے کوئی دردِ سر بن سکتا ہے تو وہ افغانستان کی باغی سرزمین ہی ہوگی کیوں کہ ہندوستان پر ہزار سالہ حکمرانی کی تاریخ مغربی سرحدوں سے آئے ہوئے مسلمان سلاطین سے معنوِن تھی۔ اس خطرے کی مکمل بیخ کُنی کےلیے ضروری تھا کہ افغانستان اور ملحقہ پشتون پٹی کو بہرصورت زیرِنگیں لایا جائے۔ لہذا 1839 میں افغانستان پر چڑھائی کی گئی لیکن تاریخ کی بدترین رُسوائی کے بعد اُن کا یہ منصوبہ ایک ڈرؤانا خواب بن گیا۔

اس عظیم نقصان اور قبائلی علاقوں میں پے درپے پسپائیوں اور بغاوتوں کے بعد خاصے غور و خوص کے ساتھ ایک متبادل منصوبہ وضع کیا گیا جسے ڈیورنڈ لائن کے نام سے جانا جاتا ہے۔ منصوبہ یہ تھا کہ افغانستان میں ایک ہی جنگ کے دوران 21 ہزار سپاہیوں کی ہلاکتوں اور وقتاً فوقتاً دیگر مواقع پر جزوی مگر خوفناک نقصانات کے تدارک کےلیے افغانستان نہ سہی تو کم از کم مشرقی پشتون قبائل کو ماتحتی میں لاکر اس خطرے کا کسی حد تک سدباب کیا جاسکتاہے۔ اس کا مقصد ایک ایسا بفر زون (غیر جنگی علاقہ) قائم کرنا تھا جس کے آرپار کوئی بھی ملک دوسرے ملک میں مداخلت نہ کرسکے۔

انگریزوں نے دریائے سِندھ کی مغربی پشتون پٹی پر قدم جمانے کے بعد سات قبائلی ایجنسیوں یعنی فاٹا (شمالی اور جنوبی وزیرستان، کُرم، اورکزئی، خیبر، مہمند، باجوڑ) اور مالاکنڈ ایجنسی خصوصاً سوات، بونیر کے علاوہ تمام پشتون خطے کو شمال مغربی سرحدی صوبے کا نام دے دیا۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ پاکستان کے قیام کے وقت برصغیر کے تمام صوبوں اور ریاستوں کو کسی بھی ایک ملک (بھارت یا پاکستان) کے ساتھ الحاق کرنے یا ایک آزاد ریاست کے طور پر اعلان کرنے کا اختیار دیا گیا لیکن فاٹا اور موجودہ خیبر پختونخوا (ماسوائے ایک چھوٹی سی ریاست سوات) کو اس سے محروم رکھا گیا تاکہ خدانخواستہ وہ اپنے لیے کسی الگ ریاست اور بعد میں افغانستان سے الحاق کا اعلان نہ کردے اور بعد میں اِن کےلیے مسائل کا سبب بن جائے۔

نتیجتاً انہوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کرکے مملکتِ پاکستان کو موجودہ شکل دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس دوران انگریزوں نے فاٹا کو خیبر پختونخوا سے الگ رکھ کر اُن پر ایف سی آر (فرنٹیئر کرائم ریگولیشنز) کی تلوار لٹکا دی تاکہ اِن کی بغاوتوں کو آسانی کچلا جائے اور اُنہیں ذہنی و جسمانی، ہر دو طرح سے سزائیں دے کر اپنے پُرانے زخموں کا بدلہ لیا جاسکے۔

قیامِ پاکستان کے بعد تقریباً ستر سال تک فاٹا کے عوام کو ایف سی آر کے بَل پر حقِ خود ارادیت اور خیبر پختونخوا کے عوام کو فرسودہ اور کرپٹ بیوروکریسی اور سیاسی نظام کے ذریعے حقیقی ترقی اور مثالی مشرقی معاشرے کے حصول سے محروم رکھنے کی بھرپور کوششیں کی گئیں جن میں موجودہ نظام بڑی حد تک کامیاب بھی رہا۔

عالمی قوتوں کے ایما اور کچھ عاقبت نااندیشوں کے محدود مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئےفاٹا کی ”علاقہ غیر“ والی حیثیت کو ختم کرنے کی کوششیں شروع ہوئیں تو اسے ضم کرنے پر کام شروع کیا گیا۔ قبائلی عوام سے رائے لینے کے برعکس ایک ایسے دور میں جب پوری دُنیا میں ہر طرف حقوق کے بہتر اور منصفانہ حصول کےلیے الگ صوبوں اور ریاستوں کے مطالبات زور پکڑتے جارہے ہیں، قبائل کو انضمام کے نام پر وہ تمام گلے سڑے اور بوسیدہ انگریزی نظام کے طوق پہنادیئے گئے جن کے بوجھ تلے باقی خیبر پختونخوا کے عوام ستر سال سے ذلیل وخوار ہو رہے ہیں۔ اس پر ظلم یہ کیا گیا کہ یہ فیصلہ سطحی پوچھ تاچھ کے بعد قبائلی عوام کی رائے شماری کے بغیر اُن پر مسلط کیا گیا۔ اس فیصلے نے جہاں عوام کو تقسیم کردیا ہے وہیں مستقبل میں نئے صوبوں کے قیام کی راہیں بھی مسدود کردی ہیں۔

اگرچہ موجودہ سیاسی اور آئینی امور سے ناواقف عوام میں میڈیا اور سیاسی پارٹیوں کے ذریعے انضمام کا یہ فیصلہ ایک تاریخی اقدام قرار دیا جارہاہے لیکن فاٹا کے بطور الگ صوبہ قیام یا خیبر پختونخوا میں انضمام کے فوائد کا موازنہ کرکے اس بات کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ فاٹا کے عوام کو بااختیار اور تیز ترمثالی ترقی دینے کےلیے الگ صوبہ کتنی اہمیت کا حامل ہے۔ آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ دونوں جانب کے مؤقف کا بہتر تجزیہ کیا جاسکے۔

فاٹا کے بطور الگ صوبے قیام کا سب سے پہلا اور نمایاں فائدہ اپنے گورنر، وزیرِ اعلیٰ اور پبلک سروس کمیشن کا ہونا تھا۔ صوبے کے تمام اداروں میں فاٹا کے عوام کو ترجیح دی جاتی جس سے وہاں روزگار اور سرکاری ملازمتوں اور خود مختاری کا ایک نیا دور شروع ہوجاتا۔

تمام صوبوں کو مساوات دینے کےلیے سینیٹ (ایوانِ بالا) میں ہر صوبے کی 23 سیٹیں مختص کی گئی ہیں۔ فاٹا کے الگ صوبہ بننے کی صورت میں اسے بھی 23 سیٹیں مل جانی تھیں یعنی خیبر پختونخوا 23 اور فاٹا کی 23، کُل 46 سینیٹ نشستیں بنتیں لیکن اب 23 سیٹیں ملنا درکِنار، موجودہ 8 سیٹیں بھی ختم کردی گئیں۔

انضمام سے پہلے قومی اسمبلی میں فاٹا کی 12 نشستیں تھیں۔ اب یہ 12 نشستیں ختم کرکے قومی اسمبلی میں خیبر پختونخوا کی صرف 6 نشستوں کا اضافہ کیا گیا۔ یعنی 15 سینیٹ نشستوں کے بہت بڑے نقصان کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی کی 6 نشستیں بھی چلی گئیں۔

فاٹا کے انضمام سے پہلے خیبر پختونخوا اسمبلی کی کُل سیٹوں کی تعداد 124 تھی۔ انضمام کے بعد یہ تعداد 145 ہوجائے گی۔ فاٹا کے الگ صوبہ بننے کی صورت میں اُن کی اپنی اسمبلی بنتی۔

الگ صوبے کی صورت میں این ایف سی کی شکل میں ہمیشہ ہر سال 100 ارب سے زیادہ حصہ ملنا تھا لیکن انضمام کے بعد صرف 10 سال تک کُل 100 ارب روپے دیئے جائیں گے۔ یعنی صرف دس سال کے حساب سے 30 چالیس ارب روپے کم ملیں گے۔ حالانکہ نئے صوبے کی صورت میں دائمی طور پر ہر سال 100 ارب روپے دیئے جاتے!

فاٹا الگ صوبہ بننے کی صورت میں صوبائی محکموں میں لاکھوں ملازمتیں فاٹا ہی کے نوجوانوں کو ملیں گی جبکہ انضمام کی صورت میں ان کا حصہ کوٹے کے حساب سے ملے گا۔

فاٹا قدرتی معدنیات سے مالامال ہے۔ الگ صوبے کی صورت میں سونے، تانبے اور دیگر دھاتوں کی وسیع کان کُنی سے ملنے والی بے تحاشا آمدن کے ذریعے یہ علاقہ دِن دُگنی رات چوگنی ترقی کرکے کچھ ہی عرصے میں دیگر صوبوں سے کئی گُنا تیزرفتاری سے ترقی کرسکتا تھا۔

کچھ سرویز کے مطابق تورخم بارڈر کی سالانہ آمدن تقریباً 45 ارب روپے ہے۔ افغان بارڈر کے ساتھ کئی قبائلی درے اور تجارتی گزر گاہیں موجود ہیں لہذا وہاں فاٹا صوبہ بہتر طور پر انتظامی امور سنبھال کر ترقی کی نئی منزلیں طے کرسکتا ہے۔ یعنی وسطی ایشیا کے ساتھ اِن راستوں سے اربوں کے محصولات فاٹا کو ملیں گے۔

اسی طرح الگ صوبہ بننے کی صورت میں زیرِ زمین تیل، گیس، کوئلہ اور دیگر معدنیات کی رائیلٹی فاٹا کو ملنے کے ساتھ ساتھ اِن کی معدنیات نکالنے والی درجنوں کمپنیوں میں فاٹا ہی کے ہزاروں لوگوں کو روزگار ملے گا جبکہ انضمام کی صورت میں صرف معمولی حصہ ہوگا۔

اب آتے ہیں اُن سیاسی پارٹیوں اور کچھ صحافیوں کے اعتراضات پر جن کی بنیاد پر وہ الگ صوبے کی مخالفت کررہے ہیں:

  • پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف جو جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے اور جماعتِ اسلامی صوبہ بہاولپور کے حق میں ہیں لیکن فاٹا کے معاملے میں الگ صوبے کی مخالفت کررہے ہیں!
  • نون لیگ اور اے این پی کہتی ہیں کہ انہیں ہزارہ صوبہ بننے پر کوئی اعتراض نہیں حالانکہ ہزارہ ڈویژن پہلے سے خیبر پختونخوا کا حصہ ہے جب کہ فاٹا کا الگ انتظامی ڈھانچہ ہونے کے باوجود مخالفت کی گئی۔
  • بعض صحافی بہت ہی مضحکہ خیز دلیل دے رہے ہیں کہ فاٹا کا جغرافیہ ایسا ہے کہ کسی ایک ایجنسی میں دارالحکومت اور اہم سرکاری ادارے نہیں بنائے جاسکتے۔ حالانکہ ایسا کچھ نہیں کیوں کہ دنیا کے تمام بڑے ممالک (روس، چین، کینیڈا، امریکا وغیرہ) اسی طرح کے جغرافیہ کے حامل ہیں۔ اس کا آسان حل یہ ہے کہ زیادہ آبادی والے ایک دو مقامات پر ذیلی دفاتر قائم کیے جاسکتے ہیں۔
  • کچھ لوگوں کے خیال میں بعض پارٹیاں ”خاص“ ووٹ دیکھ کر یہ سمجھ رہی ہیں کہ الگ صوبہ بننےکے بعد اُن ہی کی صوبائی حکومت بنے گی لہذا وہ حمایت اسی وجہ سے کررہی ہیں۔ اگر دلیل یہی ہے تو پھر تمام صوبے ہی ختم کردئیے جائیں کیونکہ پنجاب میں نون لیگ، سندھ میں پیپلز پارٹی اور خیبر پختونخوا میں اے این پی اور پی ٹی آئی بھی اِن ہی ”خاص“ ووٹوں کی بنیاد پر صوبائی حکومتیں کر رہی ہیں۔ صرف دوسروں کو ووٹ ملنے کے ڈر اور اپنی نااہلی کے سبب کسی قومی مسئلے کی مخالفت ایک افسوس ناک امر ہے۔
  • آخر میں اتنا عرض ہے کہ قبائل میں اتفاقِ رائے اور حمایت کے برخلاف کیے گئے فیصلے مستقبل میں نقصان دہ ثابت ہونے کے ساتھ ساتھ اُن کے احساسِ محرومی کو مزید بڑھانے کا سبب بنیں گے لہذا اس طرح کے فیصلوں میں عوامی اُمنگوں کا خیال رکھ کرفیصلے مسلط کرنے کے بجائے اُن کی محرومیوں کا مداوا کیا جائے۔