اسلام آباد : وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کی منظوری کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا۔فاٹا کی مختلف ایجنسیوں سے تعلق رکھنے والے 5 قبائلی عمائدین کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی درخواست میں وفاق، صدر مملکت، وزیر اعظم، وزارت سیفران اور گورنر خیبر پختونخوا کو فریق بنایا گیا۔درخواست میں فاٹا کے مستقبل کے حوالے سے فیصلہ کرنے اور حکومتی اختیار پر سوال اٹھاتے ہوئے دعویٰ کیا گیا کہ 6 رکنی فاٹا اصلاحات کمیٹی کی تجاویز ‘غیرقانونی اور غیر آئینی’ ہیں۔درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ آئین کے آرٹیکل (6)247 کے تحت قبائلی علاقوں کے ضم کرنے کے فیصلے کا اختیار صدر پاکستان، ان کے نمائندے یا صوبہ خیبرپختونخوا کے گورنر کو حاصل ہے جبکہ حکومت کا یہ دعویٰ کہ قبائلی افراد کی اکثریت فاٹا اور خیبرپختونخوا کے انضمام کی حمایت کرتی ہے، بالکل ‘جھوٹ’ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کی منظوری
درخواست میں مزید کہا گیا کہ اصلاحات کمیٹی کی جانب سے فاٹا کے شہریوں کی مرضی جاننے کے لیے کیے گئے مشاورتی اجلاس محض دھوکا ہیں اور آرٹیکل 247 (6) کے مطابق حکومت کو عوامی رائے جاننے کے لیے قبائلی جرگہ بٹھانا ہوگا۔درخواست کے مطابق حکومتی اصلاحات کمیٹی میں کسی ایک فرد کا تعلق بھی فاٹا سے نہیں اور یہ بات ہی اس کی ساکھ کے ساتھ ساتھ قانونی حیثیت کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے وفاقی کابینہ نے فاٹا کو 5 سال کے اندر خیبرپختونخوا میں ضم کرنے سمیت فاٹا سے متعلق دیگر ترقیاتی، آئینی اور قانونی اصلاحات کی اصولی منظوری دی تھی۔فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے اور وہاں دیگر قانونی و آئینی اصلاحات کرنے کی سفارشات وزیراعظم کی جانب سے قائم کردہ خصوصی اصلاحات کمیٹی نے پیش کی تھیں۔وزیر اعظم نواز شریف کی زیر صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اصلاحات کمیٹی کی تمام مجوزہ سفارشات کو منظور کرلیا گیا تھا، جن کے تحت فاٹا کی وفاقی حیثیت ختم ہوجائے گی۔
مزید پڑھیں: فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کیلئے سفارشات
خیال رہے کہ چھ رکنی فاٹا اصلاحات کمیٹی کا پیش کردہ 110 ارب روپے کے ترقیاتی پیکج قبائلی علاقے کی 7 ایجنسیوں کی جانب سے منظور کیا جاچکا ہے، سپریم کورٹ اور پشاور ہائیکورٹ کے دائرہ کار کو فاٹا تک بڑھانے تک کی تجاویز بھی پیش کی جاچکی ہیں جہاں یہ نیا عدالتی نظام لوگوں کو انصاف فراہم کرے گا۔فاٹا میں لوکل گورنمنٹ، تعلیم اور روزگار کے مواقع سمیت لیویز فورسز کی بہتری 24 نکاتی فاٹا اصلاحات کا حصہ ہے تاہم فاٹا میں بلدیاتی انتخابات 2018 کے بعد منعقد کیے جائیں گے۔یہ بھی یاد رہے کہ وزیراعظم نوازشریف نے 2015 میں فاٹا کو خیبر پختونخوا میں شامل کرنے کے حوالے سے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس میں مشیر برائے قومی سلامتی ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ناصرخان جنجوعہ، وفاقی وزیر قانون زاہد حامد اور وزیر سیفران ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل عبد القادر بلوچ شامل تھے۔کمیٹی کے اراکین نے فاٹا کا دورہ کرنے کے بعد قبائلی رہنماؤں سے ملاقات کی تھی جس کے دوران قبائلی اور حکومتی نمائندوں نے مستقبل میں فاٹا میں نئی اصلاحات کو شامل کرنے پر اتفاق کیا تھا۔