تحریر : فاطمہ عبدالخالق
اسلام صرف ایک مذہب کا نام نہیں ہے بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس سے زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق کامل رہنمائی ملتی ہے۔ قرآن اٹھائیے کھولیے دیکھیں ذرا اسکی ہر ہر آیت اپنے اندر پرت در پرت ایک الگ اور نیا مفہوم رکھتی ہے اور اگر ان آیات کی عملی تفسیر دیکھنی ہو تو نبی آخر الزمان جناب محمد رسولﷺکے اسوہ حسنہ پر نظر ڈالئے ۔بحثیت مسلمان ہمارا فرض تو یہ بنتا ہے ہم نبی کریمﷺ کے اسوہ حسنہ کے مطابق زندگی بسر کریں مگر ہماری قوم کو مغربی ہوا نجانے کیونکر لگی اور ایک انجانی ڈگرپر لے کر چل پڑی۔
مغرب کی ظاہری روشنی نے ہماری آنکھوں کو دھندلا کر رکھا ہے اور ہم دھندلی منزلوں کی جانب رواں دواں ہیں ۔گزشتہ دنوں ہمارے ہاں’’فادر ڈے ‘‘بڑے جوش و خروش سے منایا گیا ۔ باپ کی عظمت اور محبت و شفقت پر روشنی ڈالی گئی میڈیا بھی اس دن کو چار چاند لگانے کے لیے پیش پیش رہا لیکن میں یہ سوچ سوچ کر حیران و پریشان ہوں کہ کیا ہم اس باپ کو ایک دن میں خراج تحسین پیش کرکے جو اپنا نام نہاد فرض نبھا رہے ہیں کیا یہ کافی ہے۔
ایک باپ جو اپنی اولاد کی خوشی اور اچھے مستقبل کی خاطر سال کے تین سو پینسٹھ دن محنت و مشقت کی نذر کرتا ہے سارا سال آپ کے لاڈ اٹھاتا ہے آپکی فرمائشیں پوری کرتا ہے کیا ان سب کا حساب آپ ایک دن منا کر چکا سکتے ہیں؟کیا تین سو پینسٹھ دنوں کے لمحے لمحے کا قرض آپ ایک دن میں چکا سکتے ہیں؟ یقیناآپ ایسا کر ہی نہیں سکتے ۔تو پھر یہ دن مخصوص کیوں؟ ماں باپ سے محبت وشفقت کا بھی بھلا دن یا وقت مقرر کیا جا سکتا ہے؟ دراصل یہ ساری خرابی ہمارے اپنے اندر کی ہے جس نے اسلامی تہذیب و تمدن کو بھلا کر یورپی ممالک کے رنگ ڈھنگ اپنانے کو کامیابی تصور کرنا شروع کیا۔
گزرے وقتوں کا قصہ ہے ہم سنا کرتے تھے ۔پاکستان میں اخلاقی اقدار سب سے زیادہ پائی جاتی ہیں۔ ہم سنا کرتے تھے کہ یورپی ممالک میں خاندانی نظام نہیں ہوتا ۔وہاں کے بچے سال میں ایک مخصوص دن اپنے والدین کے پاس اولڈ ہوم جا کر گزارتے ہیں اور ان سے شفقت و محبت کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔یہ وہ وقت تھا جب ہم یورپی ممالک پر افسوس کرتے تھے مگر دنیا کے گلوبل ویلج بنتے بنتے گھر داری کی سادہ دنیا سے نکل کر کمپیوٹر اور موبائل نامی دنیا میں گھسنے لگے۔ پھر ہم نے انہی کا لبادہ اوڑھ کر سادہ دنیا میں رنجہ قدم ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں اس سادگی میں تو کوئی رنگینی ہی نہیں ہے جبکہ اس کمپیوٹر اور موبائل نامی دنیا میں تو رنگ و بو کا سیلاب بکھرا پڑا ہے۔
رنگوں نے اپنا اثر دکھایا اور رفتہ رفتہ ہم نے سادہ زندگی سے منہ موڑ لیا اور رنگین دنیا سے ناتا جوڑ لیا۔ ہم نے اپنے اوپر ان رنگوں کا خول چڑھانا شروع کر دیا نتیجتا رنگوں نے اپنا اثر دکھایا اور آج ہم اپنے رشتوں کے لیے دن مخصوص کرتے پھر رہے ہیں ۔ جس تہذیب پر ہم افسوس کرتے تھے آج اسی کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں ۔کوتاہی ہماری اپنی ہے شکاری نے دانہ ڈال کر جال بچھا کر اپنا کام دکھایا اور ہم نے دانے کے لالچ میں خود کو پھنسا لیا۔
آج ہماری نسل ہمارے مذہب کی سادگی سے دن بدن دور ہوتی جا رہی ہے رنگوں کو اپنا گھر سمجھ رہی ہے۔اے لوگو! تم کس راہ کے مسافر بن رہے ہو ؟ کس منزل کو کھوج رہے ہو ؟پیارے لوگو! یہ والدین اور اولاد کے رشتے پیارے رشتے ہیں انہیں ایک دن کے خراج تحسین کے لیے مخصوص کرنا ٹھیک نہیں۔
ہمارا مذہب بہت سادہ اور آسان ہے اور وہ ہماری زندگی میں آسانیاں لانے والے راستوں کی جانب ہماری رہنمائی کرتا ہے پھر آپ کیوں مشکلوں کی تلاش میں بھٹک رہے ہو کیوں شکاری کا شکار بن رہے ہو۔ آؤ پیاری قوم کے پیارے لوگو جال سے باہر نکلو اور اپنے مدار میں واپس آؤکیونکہ جس طرح دنیا کی ہر چیز اپنے مدار میں ہی بھلی لگتی ہے بالکل اسی طرح ایک مسلمان بھی اپنے مدار میں ہی اچھا لگتا ہے اور مسلمانوں کا مدار صرف اور صرف اسلام ہے جس میں کسی فادر یا مدر ڈے کی گنجائش نہیں بلکہ ہر دن ہی والدین کا دن ہے۔
تحریر : فاطمہ عبدالخالق