تحریر : رانا اعجاز حسین
پوری دنیا کے مذاہب میں سب سے زیادہ والدین کے حقوق اور ان کی عظمت دین اسلام نے بیان کی ہے ۔والدین کے حقوق کے بارے میں ماں کا مقام ومرتبہ تو روزبروز جا بجا اجاگر کیا جاتا رہتا ہے، مگر باپ کی عظمت و مقام کو یکسر نظرانداز کردیا جاتا ہے، جبکہ قرآن پاک کے احکامات اور نبی کریم صلی اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمودات کی روشنی میں والدین ( یعنی دونوں) کی خدمت واطاعت کا حکم دیاہے ۔اگر ماں کی طرح باپ کی عظمت کا پاس رکھتے ہوئے اس کی اطاعت ،فرمان برداری ،خدمت اورتعظیم کرکے رضاحاصل کی جائے تو اللہ پاک کی طرف سے ہمیں دین ودنیا دونوں کی کامیابیاں ، سعادتیں اورجنت کی بیشمار نعمتیں نصیب ہوسکتی ہیں۔ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکایت کی کہ میرے والد نے میرا سب مال لے لیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اپنے والد کو بلا کر لاؤ۔ اسی وقت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب اس لڑکے کا والد آجائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے پوچھیں کہ وہ کلمات کیا ہیں جو اس نے دل میں کہے ہیں۔ اس کے کانوں نے بھی ان کو نہیں سنا۔” جب وہ نوجوان اپنے والد کو لے کر آیا۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آپ کا بیٹا آپ کی شکایت کرتا ہے کیا آپ چاہتے ہیں کہ اس کا مال چھین لیں ؟ والد نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی علیہ وسلم اسی سے پوچھ لیں کہ میں اس کی پھوپھی ، خالہ یا اپنے نفس کے سوا کہیں خرچ کرتا ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پس حقیقت معلوم ہو گئی۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے والد سے دریافت فرمایا وہ کلمات کیا ہیں جو تم نے دل میں کہے اور تمہارے کانوں نے بھی نہیں سنا ؟اس شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یعنی جو بات کانوں نے سنی اس کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ہو گئی پھر اس نے کہا کہ میں نے چند اشعار دل میں پڑھے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ اشعار ہمیں بھی بتاو۔ اس صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا میں نے دل میں یہ کہا تھا” میں نے تجھے بچپن میں غذا دی اور جوان ہونے کے بعد تمہاری ہر ذمہ داری اٹھائی تمہارا سب کچھ میری کمائی سے تھا۔ جب کسی رات تمہیں کوئی بیماری پیش آگئی تو میں نے رات نہ گزاری مگر سخت بیداری اور بیقراری کے عالم میں۔ مگر ایسے جیسے کہ بیماری تمہیں نہیں مجھے لگی ہوئی ہے جس کی وجہ سے تمام شب روتے ہوئے گزار دیتا۔ میرادل تمہاری ہلاکت سے ڈرتا رہا، اس کے باوجود کہ میں جانتا تھا کہ موت کا ایک دن مقرر ہے۔ جب تو اس عمر کو پہنچ گیا تو پھر تم نے میرا بدلہ سخت روئی اور سخت گوئی بنالیا، گویا کہ تم ہی مجھ پر احسان و انعام کر رہے ہو۔ اگر تم سے میرا حق ادا نہیں ہو سکتا تو کم از کم اتنا ہی کر لیتے جیسا ایک شریف پڑوسی کیا کرتا ہے۔ تو نے مجھے کم از کم پڑوسی کا حق ہی دیا ہوتا۔ میرے ہی مال میں مجھ سے بخل سے کام نہ لیا ہوتا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ سنا تو بیٹے کو فرمایا ”انت و مالک لا بیک ” کہ تو اور تیرا مال سب تیرے باپ کا ہے۔(معارف القرآن بحوالہ تفسیر قرطبی) قارئین کرام دیکھئے کہ اولاد کے ستائے باپ کے دل سے نکلے الفاظ کس طرح عرش الٰہی تک پہنچے، اور رحمت الٰہی جوش میں آئی ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ماں باپ جیسی کوئی اور نعمت دنیا میں نہیں ہے ۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ والدین دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہیں، اگر کسی کویہ نعمت حاصل ہے اوروہ ان کی خدمت واطاعت کررہاہے تو وہ بڑاسعادت مند اوراللہ کا محبوب بندہ ہے۔ قرآن پاک کے احکامات اور فرامین رسول صلی اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں جا بجا والدین کی خدمت واطاعت کا حکم دیاگیا ہے اور ظاہر ہے کہ والدین میں باپ درجہ اوّل کا حامل ہے۔ والد انسان کو عدم سے وجود میں لانے والی ذات ہے یعنی اس کی پیدائش کا سبب ہے اس گلشن انسانیت کی ابتداء باپ (حضرت آدم علیہ السلام ) سے ہوئی اور ان ہی سے عورت (حضرت حوا) کا وجود تیار کیا گیاہے۔والد کی عظمت کا ایک روشن پہلو یہ بھی ہے کہ قیامت کے دن انسان اپنے باپ کے نام کے ساتھ پکاراجائے گا۔ حضرت ابودرداء بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ،” قیامت کے دن تمہیں تمہارے ناموں اور تمہارے باپوں کے نام سے پکارا جائے گا، پس تم اپنے نام اچھے رکھا کرو۔’
‘ (مشکوٰة) اولادکی تعلیم وتربیت میں والد کا کردار ضروری ہوتا ہے،جب کہ اس کے برعکس ماں کی حد سے زیادہ نرمی اور لاڈ پیارسے اولاد نڈراور بے باک ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے اس کی تعلیم ،تربیت اورکردار پربرا اثر پڑتا ہے،جب کہ والد کی سختی،نگہداشت اورآنکھوں کی تیزی سے اولاد کو من مانیاں کرنے کا موقع نہیں ملتا۔شایدیہی وجہ ہے کہ اولاد باپ سے زیادہ ماں سے قریب ہوتی ہے، لیکن اولادیہ نہیں جانتی کہ اس کے والد کو گھر چلانے اور تعلیم وتربیت کا مناسب اہتمام کرنے کی لیے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔باپ ہی ہوتا ہے جو اپنے اہل وعیال اور اولادکو پالنے کے لیے خود بھوکا رہ کریا روکھی سوکھی کھاکرگزارہ کرتا ہے، لیکن پوری کوشش کرتا ہے کہ اس کے بچوں کو اچھاکھانا، پینا،تعلیم اور تربیت میسرہو۔ اسلام میں والدین کابہت بڑا مقام اور مرتبہ ہے،ارشادِ باری تعالیٰ ہے،”اورجب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہدلیاکہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو۔رشتہ داروں ، یتیموں،مسکینوںاورلوگوں سے (ہمیشہ)اچھی بات کہو۔
” (سورة البقرہ)اسی طرح سورہ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔”اورآپ کے پروردگارکافرمان ہے کہ اللہ کے سواکسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کیاکرو،اگر تمہارے سامنے اِن میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ”اْف”تک نہ کہواور نہ انہیں جھڑکو بلکہ ان سے نرمی کے ساتھ بات کرو اور اپنے بازو نہایت عاجزی اورنیازمندی سے ان کے سامنے جھکادو اور( ان کے لئے یوں دعائے رحمت کرو) اے میرے پروردگار!تواِن پر(اس طرح) رحم فرما، جس طرح انہوں نے مجھے بچپن میں(رحمت وشفقت سے) پالا تھا”(سورہ بنی اسرائیل)۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات مبارکہ میںاپنی عبادت کے ساتھ ہی والدین کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کا حکم فرمایا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ والدین کی خدمت واطاعت انتہائی ضروری ہے حتیٰ کہ والدین اولاد پر ظلم وزیادتی بھی کریں تب بھی اولاد کو انہیں جواب دینے کی اجازت نہیں،جھڑکناتو درکنار ،ان کے سامنے ‘اف’ تک کہنے کی بھی اجازت نہیں۔ اولاد کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کے سوا والدین کے ہر حکم کی تعمیل کریں۔
ان کی رائے کو ترجیح دیں۔ خاص طور پر جب والدین بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو پھر ان کے احساسات کا خیال رکھتے ہوئے ان سے محبت و احترام سے پیش آئیں ، اپنی مصروفیات میں سے مناسب و قت ان کے لیے خاص کردیں۔ان کی بھر پور خدمت کریں اور ان کی وفات کے بعدان کے لیے ایصالِ ثواب اور دعائے مغفرت ورحمت کرتے رہیں ، جیسا کہ قرآنِ پاک میں ارشادِباری تعالیٰ ہے”(ان کے حق میں یوں دعائے رحمت کرو ) اے ہمارے رب!ان دونوں پر رحم فرما، جیسا کہ انہوں نے مجھے بچپن میں( رحمت وشفقت سے) پالا”(سورہ بنی اسرائیل)۔ والدین کی خدمت سے والدین کی دعائیں کی جاسکتی ہیں، بلاشبہ والدین کی دعائیں اولاد کے حق میں ضرور قبول ہوتی ہیں۔پس یہ ہمارا انسانی، اخلاقی اور دینی فرض ہے کہ ہم اپنے والدین کی دل وجان سے خدمت واطاعت کریں کہ اسی میں ہمارے لیے دین ودنیا کی کامیابی،سعادت اور فلاح ونجات ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں والدین کی خدمت کی توفیق عطا فرما ئے اور ہمیں ہمیشہ اولاد کے دکھ سے محفوظ رکھے ۔ آمین
تحریر : رانا اعجاز حسین
ای میل: ranaaijazmul@gmail.com
رابطہ نمبر:03009230033