کاعلاج راولپنڈی کے اسپتال میں ہو رہا تھا،محمد خان محسود علاج کے دوران ہی چل بسے تھے۔ محمد خان محسود نقیب اللہ محسود کیس کے مدعی تھے اور دو ہفتے قبل آخری مرتبہ وہیل چئیر پر اسلام آباد ہائیکورٹ آئے تھے اور پھر وہاں سے واپس اسپتال چلے گئے۔سماجی کارکن جبران ناصر نے اس موقع پر ان کا ایک پیغام ریکارڈ کیا جس میں اُنہوں نے کہا کہ اتنا ظلم یزید اور ابرہہ نے نہیں کیا تھا جتنا راؤ انوار نے کیا ہے۔ اپنی بیماری کے بارے میں بات کرتے ہوئے محمد خان محسود نے کہا کہ 6 ماہ سے بیمار ہوں اور تاحال صحت بہتر نہیں ہوئی۔ میں کراچی جانے کے قابل نہیں ہوں۔ڈاکٹروں نے مجھے زیادہ بات کرنے اور سفر کرنے سے منع کیا ہے۔ محمد خان محسود نے اپنی وہیل چئیر کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا کہ میں تو اس تک محدود ہو گیا ہوں۔ محمد خان محسود نے کہا راؤ انوار کسی بھی عدالت میں پیش نہیں ہوتا۔ جب کہ میں مسلسل عدالتوں کے چکر لگاتا رہا۔ مجھے بتایا گیا کہ وہ گرفتار ہوں گے اور پھر ان کی ضمانت ہو جائے گی۔ انہوں نے اپنے آخری پیغام میں راؤ انوار کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔انہوں نے کہا کہ میرے گواہ اس سے ڈرتے ہیں۔کیونکہ وہ سب لوگوں کو جانتا ہے اور ان کو دھمکیاں دیتا ہے۔اگر یہ گرفتار ہو گا تو وہ بے خوف ہو کر گواہی دے سکیں گے۔میرے دو گواہ پہلے سے گرفتار ہیں جب کہ باقی گواہ محصور ہیں۔ وہ مسجد اور جنازے میں نہیں جا سکتے۔ اتنا ظلم یزید اور ابرہہ نے نہیں کیا جتنا راؤ انوار نے کیا ہے۔آخر وہ کیسے آزاد بازاروں میں گھومتا پھرتا ہے۔
لاہور (ویب ڈیسک) کراچی میں جعلی پولیس مقابلے میں مارے گئے قبائلی نوجوان نقیب اللہ محسود کے والد محمد خان محسود بیٹے کے لیے انصاف مانگتے مانگتے دنیا سے رخصت ہو گئے۔ محمد خان محسود جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھتے تھے جو کافی عرصے سے کینسر کے مرض میں مبتلا تھے۔گذشتہ 7 ماہ سے ان