تحریر : ساجد حبیب میمن
یہ حقیقت ہے کہ والدین کے بغیر گھر کسی ویرانے سے کم نہیں ہوتا، والدین میں ایک ماں اور دسرا باپ یہ دونوں ہی اپنی اولاد کی پرورش کے لیے دن رات ایک کر دیتے ہیں ایسے میں ہمیں ان کی ناراضگی ازیت اور رنجش کا سبب نہیں بننا چاہیئے۔ ایک مقام پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ” ان سے آگے نہ چلا کرو، ان سے پہلے نہ بیٹھا کرو،انہیں نام لیکر نہ بلاؤ،اور انہیں لعن تعن نہ کیا کرو۔۔سبحان اللہ ان خوبصورت باتوں میں کسی بھی نیک اولاد کے لیے ہزاروں پہلو اور ڈھیروں کامیابیاں چھی ہوئی ہیں۔
خصوصاً والد کے احسانات اولاد پر اس قدر ہوتے ہیں جنھیں ہم بعض لفظوں میں احسان سمجھتے ہیں مگر نا فرمان اولاد کی جانب سے اچھی پروش اور بہتر نگہداشت کے اس عمل کو والدین کا فرض کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے ،”یعنی میرے ماں باپ نے مجھے اچھا کھلایا پلایا اور پڑھایا لکھایا تو کوئی مجھ پر احسان نہیں کیا بلکہ یہ تو ان کا فرض تھا”۔میں سمجھتا ہوں ان الفاظوں کو زندگی میں جس کسی نے بھی استعمال کیا ہے اسے یہ ہی الفاظ اپنی ہی اولاد سے واپس ضرور سننے کو ملے ہونگے اور یہ ہی وہ لمحہ ہوتا ہے کہ جب سینے میں یہ احساس اجاگر ہوتاہے کہ کاش میں نے اپنے بزرگوار والد محترم کی عزت ونفس کو نا اچھالا ہوتا اس کی محبتوں کا ناجائز فائدہ نہ اٹھایا ہوتا کاش کہ اس روز میں اپنے والد کا کہا مان لیتا کاش کہ اس روز میں یہ ضد نہ کرتا کاش کہ میں اپنے والد کے بڑھاپے کا سہارا بنتا کہ جس طرح اس نے مجھے انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا مجھے گرتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے تھام لیا تھا۔
کاش میں بھی اس کے بڑھاپے کی لاٹھی بنتا جس طرح اس نے مجھے گود میں بٹھا کر کھلایا میں بھی اپنی دن بھر کی محنت کی کمائی اس کی جھولی میں لاکر ڈال دیتا۔ قائرین کرام کچھ لمحات کو ہم یاد تو کرلیتے ہیں مگر ان کو واپس لانا ہمارے بس میں نہیں ہوتا جو لمحہ گزرجاتا ہے وہ پل کبھی لوٹ کر نہیں آتے بچپن نہیں آتا اور نہ ہی وہ بچپن کے سہارے واپس ملتے ہیں ۔ایک بہت ہی مشہور واقع میں اس تحریر کا حصہ ضرور بنانا پسند کرونگا ایک بیٹا اپنے بوڑھے والد کو یتیم خانے میں چھوڑ کر واپس لوٹ رہا تھا کہ اس کی بیوی نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے فون کیا کہ والد صاحب تہوار وغیرہ میں بھی وہیں رہا کریں گھر نہ آیا کریں۔
بیٹا بیوی کی بات سن کر واپس یتیم خانے پہنچا تو اس نے دیکھا کہ اس کا بوڑھااور ناتواں باپ یتیم خانے کے سربراہ کے ساتھ ایسے گھل مل کر ہنس بول رہاتھا جیسے اس کوبرسوں سے جانتا ہو۔جب اس کا والد یتیم خانے کے سربراہ سے ملاقات کے بعد اپنے مستقل ٹہرنے کے مقام کا بندوبست دیکھنے کے لیے وہاں سے اٹھا تو بیٹا اپنا تجسس ختم کرنے کے لیے یتیم خانے کے سر براہ کے پاس جا پہنچا اور اس سے پوچھا کہ وہ اس کے باپ کو کب سے جانتا ہے ؟ تو انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا گزشتہ تیس سالوں سے جب وہ ہمارے پاس ایک یتیم بچے کو گود لینے آئے تھے۔
قائرین کرام والدین کی محبت اور شفقت کے بے شمار واقعات تاریخ سے اٹے پڑے ہیں مگر اصل مقصد یہ ہے کہ ہمیں اپنے والدین کی قدر اسی وقت کرنی چاہئے جب وہ حیات ہو یہ ضروری نہیں ہے کہ اس بات کااحساس اسی وقت ہو جب والدین میں سے کوئی ایک یا دونوں ہی اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہو رہی بات والدین کی کمی کی یا والد محترم کی شفقت کی تو جہاں تک کمی کی بات ہے وہ انسان کو تاحیات ہی محسوس ہوتی رہتی اس بچے کو جس نے والد کی قدر اس کی زندگی میں کی اور اس بچے کو بھی جس نے والد کی نافرمانی کی اور بعد میں پچھتایا ہو۔
فرمان باری تعالیٰ ہے ! ترجمہ ،اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکاہے !کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہیں کرنا۔اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجود گی میں ان میں سے ایک یا دونوں ہی بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا،نہ ہی انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا،بلکہ ان کے ساتھ ادب احترام سے بات چیت کرنا،اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازوپست رکھے رکھنااور دعا کرتے رہناکہ اے میرے پروردگار،ان پر ویسا ہی رحم کر جیساانہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے ۔قائرین کرام ہم سے بہت سے لوگ اپنے بچپن کے قصے ایک دوسرے کو سناتے ہونگے ان کی زندگیوں کے ساتھ جڑی بہت سی کہانیاں ضرور ہوتی ہونگیں مگر ان تمام کہانیوں کی خوبصورتی اور ان میں رچی بسی یادوں میں ایک خوبصورت چہرہ والد کا ہمیں کبھی نہیں بھولتا کیونکہ والد محترم کی شفقت اور محبت کے بغیر کسی بھی انسان کا بچپن اور اس کی پرورش ادھوری ہی دکھائی دیتی ہے ذمانہ طالب علمی ہو یا کھیل کود کے دن والد کا کردار ہر انسان کی زندگی میں اس قدر گہرا ہے کہ اس کو الگ رکھ کر ہم اپنا وجود سنبھال ہی نہیں سکتے۔
ہم نے ماں کی کی عظمت اور اس کی محبت کے قصے تو بہت سنیں ہونگے اس میں کوئی شک نہیں کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہوتی ہے مگر جس انداز میں ماں کا رتبے کا نعم البدل قائنات میں کسی کے پاس نہیں ہے بلکل اسی انداز میں والد کامرتبہ بھی کوئی اور نہیں لے سکتاایک جگہ پر حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا والد کی رضا مندی میں ہے ۔ہم اکثر سنتے اور دیکھتے ہیں کہ نافرمان اولاد نے جائیداد ہتھیانے کے لیے والدین کاخون کردیا!والدین ہمیشہ اپنے بچوں کا بھلا ہی چاہتے ہیں اس کام کبھی حکم نہیں دیتے جو اولاد کے لیے نقصان دہ ہوآقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم تو خود فرماتے ہیں کہ “تیری جنت یا دوزخ تیرے والدین ہیں ۔یہ ضروری ہے کہ والد کا حکم اسلامی اور مذہبی اعتبار سے ایسا نہیں ہونا چاہیئے جو اللہ اور اس کے رسول کی ناراضگی کا سبب بنتا ہو ! مگر ایسے بہت کم والدین ہوتے ہیں جو اولاد کی پرورش میں ان نظریات کا عنصر شامل رکھتے ہیں ایسے والدین خود تو دورزخ میں جاتے ہیں۔
ساتھ میں اپنی اولاد کو بھی لیجاتے ہیں ۔ہم آج کل دیکھتے ہیں کہ ایک باپ اپنی اولاد کی بہتر پرورش کرتا ہے اسے پڑھا لکھا کہ معاشرے میں سر اٹھاکر چلنے کے قابل بناتاہے ایسے میں جب اولاد اس کے بڑھاپے کا سہارا بننے کی بجائے اسے زلیل ورسوا کرتے ہیں انہیں گھروں سے نکال دیتے ہیں ایسے میں وہ یہ بات اکثر بھول چکے ہوتے ہیں کہ اسی والد نے مجھے ایک کامیاب انسان بنانے کے لیے اپنی جوانی تک کو بیچ دیاتھا۔ شرعی اعتبار سے اسی نافرمان اولاد جو اپنے باپ کے ساتھ بے اعتناعی کا مظاہرہ کرے اس کی بے عزتی کرے یا اس کو جائیدادکے لیے جان سے ماردینے کی دھمکی دے اس کی نا تو نماز کا کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی اس کا کوئی روزہ یا زکوۃ اس کے کسی کام آئیگی یعنی جس نے باپ کا دل دکھایا وہ یقیناًاپنی بدکرداری اور بدفعلی کی سزا کوبھگتے گا دنیا میں اپنی اولاد کے ہاتھوں اور آخرت میں دوزخ کی صورت میں۔ختم شد
تحریر : ساجد حبیب میمن
ترجمان آل پاکستان میمن یوتھ