تحریر : شاہ بانو میر
اب ڈھونڈو انہیں چراغ رخ زیبا لے کر بجیا ہمارے درمیان نہیں رہیں. قلم ان کی لازوال پہچان ہے قلم لکھاری کی سوچ کواصل روح سے حرف تحریر کرواتا ہے بجیا نے ساری عمر جان ڈالی قلم سے حروف میں اسی لئے تو ان کا پیغام دلوں پر اثر کرتا تھا. جسے عام انسان نہیں جان سکتا جب تک وہ قلم کی حرمت تقدس اور اہمیت کو نہ جانے. بے شمار ڈراموں کی مصنفہ بہترین شخصیت ہمہ جہت صلاحیتوں کی مالکہ محبت وطن روایات پر جان دینے والی بچوں کو ہروقت”” بڑوں کا ادب کرو”” کا درس دینے والی آج خالق حقیقی سے جا ملیں۔
ماضی میں چلتے ہیں سوچیں ہُو کا سنٹا ہے مکمل خاموشی ہر گھر میں اور آوازیں صرف ٹی وی کی اس پر ڈرامہ دیکھتے ہوئے کبھی اہل خانہ کے چہرون پے مسکراہٹ ابھرتی ہے تو کبھی شدت غم سے چہروں پر کرب کے تاثرات کبھی یکلخت قہقہوں کا شور سنائی دیتا ہے اور کبھی ایک دم آنسو بہتے یہ کمال یہ سحر بجیا کے ڈراموں میں تھا جس کا شیدائی ہر اردو زبان سمجھنے والا تھا. مقبولیت کی اعلیٰ سطح پر ریکارڈ قائم کرنے والے یہ حسین معاشرتی خاندانی نظام پر مبنی ڈرامے اس ایک گھنٹے میں ہر بدلتے سین میں ایک نیا سبق بچوں بڑوں بوڑھوں جوانوں کو دیتے تھے کہ کیسے اپنے خاندان کو جوڑ کر رکھا جاتا ہے۔
فاطمہ ثریا بجیا کا انتقال ہوگیا آج وہ ہم میں نہیں ہیں مگر ان کی تخلیقی کاوشیں ان کے اسباق محفوظ معاشرتی رویے پر مبنی یادگار ڈرامے ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے . مکمل خاندان جو آج سوچ کر ہی بچوں کی جان نکلتی ہے . دادا دادی ماں باپ چچا پھوپھو کزنز گھریلو ملازمین کی فوج ظفر موج تعلیمی گھرانہ ثقافتی رویہ تہذیبی شائستگی بڑوں کا خاص طور سے خاص ادب و احترام جو آجکل میڈیا پر بالکل ختم کر دیا گیا ہے۔
بجیا کے کرداروں میں رشتوں کے ساتھ ساتھ گھریلو ملازمین کی عزت دکھائی جاتی تھی .وہاں ملازمین کا خیال رکھا جاتا تھا اوراب ڈرامے میں جو رشتے دکھائے جاتے وہ بجیا کی سوچ کے برعکس ہیں . آجکل ڈراموں میں جو ماں باپ دکھائے جاتے ہے وہ خود اتنے جوان دکھائی دیتے ہیں کہ والدین والی عزت انہں بچے نہیں دیتے ملاحذہ کیجئے بیٹی کا رشتہ آتا ہے اورماں کو پسند کیا جاتا ہے. یا بیٹے کیلئے بہو دیکھی تو اس لڑکی کو باپ زیادہ سوبر لگتا ہے لڑکے سے وہ اسے شادی کرنا چاہتی ہے؟ بیٹی سے زیادہ بھڑکیلے کپڑے ڈائریکٹر نجانے کیوں ماں کو پہناتا ہے اور بیٹے سے زیادہ ہینڈسم باپ نجانے کیوں دکھایا جاتا ہے؟ گفتگو میں حد سے بڑہی ہوئی بے باکی زبان کا مضر استعمال یہ سب ماضی میں نہیں دیکھے گئے۔
آج بھارتی ڈراموں اور ان کی ثقافت کے پیچھے چلتے ہوئے یہ ڈرامے نجانے کس پاکستان کی نمائیندگی کر رہے ہیں؟ رشتوں کی اور معاشرتی اقدار کی ایسی بے حرمتی بجیا نہیں دیکھ سکتی تھیں جبھی دار فانی سے کوچ کر گئیں . بجیا جیسے غیور محنت کش لوگ محنت سے ذرا ذرا آگے بڑھے شارٹ کٹ سے شہرت حاصل نہیں کی . ہر پاکستانی گواہ ہے ان کی محنت کا اور خوبصورت معاشرتی سوچ کا. فاطمہ ثریا بجیا نے پاکستان کو حسین اورمؤدب طرز معاشرت دیا تھا . زندگی کے ہر انداز کو خاندان کیسے مؤثر انداز میں جھیلتا ہے اور پھر روایات کو جیتتا دکھایا جاتا ہے آج کہاں ہے ایسا آج تو ہر والدین بچوں کے سامنے سرنگوں دکھائے جاتے ہیں۔
فاطمہ ثریا بجیا جیسے پڑھے لکھے لوگ لا محدد ذہنی وسعتوں کے مالک دماغ پاکستان کے پاس بہت کم تھے جو سب کیلئے ایک جیسا سوچتے تھے جو سب کو کامیاب سب کو مؤدب سب کو اچھا انسان دیکھنا چاہتے تھے. ان کی ذہنی استطاعت بہت بلند تھی فاطمہ ثریا بجیا !! چلی گئیں ان کی جگہہ آج جس قسم کے لکھاری دکھائی دے رہے وہ اعلیٰ سوچ نہ رکھتے. ان کی سوچ عجیب انداز رکھتی ہے جو نہ پاکستانی ہے نہ اسلامی اور نہ معاشرتی انکی تحریریں جیسے جس کی لاٹھی اسی کی بھینس کا قانون کا نفاذ کروانے والی ہیں۔
بجیا آپ جیسی سوچ کہاں سے آئے جو اس وحشی دور کو تہذیب سے آشنا کرے؟ سرکولیشن ریٹنگ آج کا معیار اور سادہ لوح عوام جو اس معیار کو بڑہاوا دے رہی ہے دوسری جانب ایسی ہر منفی سوچ کے سامنے فولادی ڈھال تھیں بجیا آج وہ ہم میں نہیں لیکن ان کی طرح کا کام کرنا ہماری ذمہ داری ہے . ان کی شہرہ آفاق تخلیقات ان کے معاشرتی مثبت اسباق اور ذاتی زندگی کا باعمل کردار ہمیشہ ہمارے درمیان رہے گا۔
بجیا کی طرح اگر زندگی اپنی ذات کے گرد نہیں دوسروں کے لئے گزاریں تو پتہ چلے کہ کتنا سکون ہے.ایسے لوگوں کا ضمیر پرسکون اور روح چین میں رہتی ہے اپنی زندگی کے گزشتہ ابواب کو کھولیں اور دیکھیں کہ ہم کیسی زندگی گزار کر جا رہے ہیں۔
بجیا آج جو کچھ ہمارے نام نہاد معاشرتی علمبردار مسلمان پاکستانی ہونے کا لیبل لگا کر روایات کا اطوار کا آداب کا تربیت کا عملی مظاہرے کا مذاق اڑا رہے ہیں کہ میڈیا پر بڑہتی ہوئی شیطانیت اور دنیاوی دھوکےمیں مبتلا چھوٹے لوگ صرف پیسے کیلئے جس قسم کی عورت کی نمائش ڈراموں میں دکھا رہے ہیں اور اسلامی مقدس مہینوں میں جو کچھ مذہب کے نام پر دکھا رہے ہیں. مخلوط اسلام . اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوگا؟ آج آپ جیسے لوگ آپ کی کوششیں معاشرتی تحفظات پر مبنی سبق آموز اصلاحی ڈرامے بہت یاد آ رہے ہیں۔
ہمیں آج سوچنا ہے ایک استاد چلا گیا ا چھائی کمزور ہو گئی کون خلا پورا کرے گا بجیا کا؟ کیا ہم نے فاطمہ ثریا بجیا کی طرح کچھ اثاثہ ایسا چھوڑا ہے جس کیلئے سب کےدعاؤں کے ہاتھ اٹھیں گے ؟ یا پھر اس طرح گئے کہ مرتے ہی ہر ستائے جانے والے نے شکر کا کلمہ پڑھا سوچئے زمینی خداؤں کیلئے موت اشارہ ہے کہ بچ نہیں سکتے لہٍذا بدلو طرز زندگی مصنوعی کامیابی کا گراف بلند کر کے خوش ہونے والو
دھوکہ کھا رہے ہو۔
سچ یہ ہے کہ اپنے پسندیدہ لوگوں کو اللہ پاک لہو لعب میں مشغول نہیں رکھتا شیطانی پنجوں سے بچا لے جاتا ہے اور پھر اس سے اپنے دین کا شعور عطا فرماتا ہے اور بجیا کی طرح خلق خدا کی خیر کا کام لیتا ہے . اور دنیاوی خدا سمجھتے کہ وہ ناکام ہوگیا پس پردہ چلا گیا۔
نادان !! نہں جانتے کہ ایسے لوگ جنہیں اللہ چن لیتا ہے انہیں کن انعامات سے نوازتا ہے الحمد للہ بجیا اللہ پاک آپ کی مغفرت فمائے اور آپکی پھیلائی ہوئی با مقصد کوششوں کے عوض جنت الفردوس کے حسین باغات عطا فرمائے آمین پاکستان کے کامیاب با مقصد حقیقی محنت کرنے والے تاریخی ناموں میں سے ایک نام ہے فاطمہ ثریا بجیا جسے ہم انشاءاللہ کبھی .. تھا .. نہیں ہونے دیں گے .آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے۔ آمین۔
تحریر : شاہ بانو میر