’آپ ہمارے کس کام آسکتے ہیں اور ہم آپ کی کس کام میں مدد کر سکتے‘
غالباً پاکستان کے کامیاب لوگوں کی بنیادی قابلیت سماجی تعلقات بنانا یا معروف اصطلاح میں ڈاکخانہ ملاناہے ۔ واضح لفظوں میں پاکستان میں کامیابی کا گر ، اگر ایک لائن میں بیان کیا جائے تو وہ کچھ اس طرح سے ہے کہ آپ کس طرح لوگوں کے کام آسکتے ہیں اور کس طرح لوگوں کو اپنے کام نکلوانے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔واضح رہے کہ یہاں کام آنے سے مراد سماجی خدمت ہر گز نہیں۔پاکستان میں سماجی تعلقات بنانا اور انہیں اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا ایک ایسا ہنر ہے کہ جس کو آجائے وہ کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی بہت کچھ بن جاتا ہے اور جسے یہ ہنر نہیں آتا وہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں ہوتا۔میدان سیاست کا ہو،تعلیم کا، کھیل کا یاپھر سرکاری نوکری کا۔ آپ کی کامیابی کا سارا دارومدار اس بات پر ہے کہ سماجی تعلقات بنانے کے ہنر میں کتنے یکتا ہیں۔ آپ اپنی پوری صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں کے جائز اور ناجائز کام کروائیے بدلے میں وہ بھی آپ کے جائز وناجائز کام کریں گے اور آپ بطور ایک رول ماڈل معاشرے میں مشہور ہو جائیں گے ۔لیکن اگر آپ قانون قاعدے کی بات کریں گے تو یقین جانئے ، دوسرے لوگ تو کیا آپ کے گھر میں آپ کی کوئی وقعت اور حیثیئت نہیں ہوگی ۔یہی وجہ ہے اور یہی وہ کلچر ہے جس میں لچے لفنگے لوگ اسمبلیوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔صرف اس وجہ سے کہ وہ اپنے حلقہء احباب میں شامل لوگوں کے کاموں کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔تھانے پر دھاوا بول سکتے ہیں، عدالتوں کو بلیک میل کرسکتے ہیں۔لوگوں کو پھینٹیاں لگا سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔
چند سال پہلے معروف پرتگالی ناول نگار پالو کوہلو کا ایک ناول پڑھا جس میں اس نے بتایا کہ کس طرح بعض امریکی اور یورپی ادیب پیرس آکر پبلک ریلشننگ کے ایکسپرٹس کی خدمات حاصل کرتے ہیں جو ان کو مختلف اشاعتی کمپنیوں کے نمائندگان سے متعارف کراتے ہیں۔ان کے ساتھ ڈنر ارینج کئے جاتے ہیں، پارٹیز میں بلایا جاتا ہے ۔۔وغیرہ۔۔وغیرہ۔۔
دنیا کو ان کے ادبی مقام سے روشناس کرانے کے لیے اخبارات میں مضامین شائع کرائے جاتے ہیں اور ان کے ادبی مقام کی خاطر خواہ تشہیر کی جاتی ہے۔پالو کوہلو لکھتاہے کہ پبلک ریلیشننگ کے یہ ایکسپرٹس اپنے مؤکل کو ایک فیوربینک(Favor Bank) یا آسان زبان میں سمجھنے کے لیے ریفرنس بینک بنا کر دیتے ہیں تاکہ ان کا مؤکل اپنے کام کی تشہیر کے لیے درست افراد کا انتخاب کر سکے۔
مقامِ شکر ہے کہ پاکستان کم از کم اس لحاظ سے توپیرس کا ہم پلہ ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ ترقی یافتہ ہے کہ یہاں تو ہر کام فیوربینک ہی کے ذریعے انجام پاتاہے۔ اور دراصل یہی وہ فیور بینک ہے جو اس ملک کی تمام خرابیوں اور برائیوں کی جڑ ہے۔اس ملک میں کتاب میں لکھے کسے قانون اور ضابطے کی قطعاَ کوئی اہمیت ہو نہ ہو، فیور بینک کی اہمیت ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ کہ آپ ہمارے لیے کیاکر سکتے ہیں اور ہم آپ کے لیے کیا کر سکتے۔ پاکستان میں فیور بینک پروفیشنل سطح کا کام ہے اور کئی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو بظاہر کچھ بھی نہیں ہوتے لیکن ہر جگہ ان کو بڑی پزیرائی ملتی ہے۔ چھوٹی سطح پر اس بات کا مشاہدہ کرنا ہو تو ذرا پاسپورٹ آفس، سوئی گیس، بجلی ، شہری انتظامیہ ، ضلع کچہری یا پھر پولیس اسٹیشن چلے جائیں جہاں آپ کے جائز کام کے لیے بھی آپ کو مہینوں یا پھر سالوں انتظار کرنا پڑے گا۔لیکن اگر آپ کا فیور بینک مظبوط ہے تو تمام قواعد وضوابط ایک دم سے ختم کر کے آپ کا کام کر دیا جائے گا۔اور اگر آپ کا فیور بینک مظبوط نہیں تو مذکورہ دفاتر کے باہر پائے جانے والے ٹاؤٹ حضرات ایک معقول معاوضے کے بعد آپ کا کام فورا کروا دیں گے۔یہ ٹاؤٹ حضرات دراصل متعلقہ دفتر کے اندر ایک مضبوط فیور بینک کے حامل ہوتے ہیں ۔دفتر کے اندر بیٹھے لوگوں کی یہ خدمت کرتے ہیں اور وہ ان کی۔پاکستان میں جس کا فیور بینک مضبوط ہو اسی شخص کو بااثر یا Influential تصوّر کیا جاتا ہے ۔ لوگ اس شخص سے بنا کر رکھتے ہیں اس کی خوشامد کرتے ہیں اور رازداری سے ایک دوسرے کو بتاتے ہیں کی یہ بڑے کام کا آدمی ہے۔
پاکستان میں فیور بینک کی چار یا اس سے زیادہ اقسام ہیں۔پہلی قسم برادری کی سطح پر قائم فیور بینک ہے۔اس قسم میں مختلف پوسٹوں پر تعیّنات ایک ہی برادری کے افراد اپنے ہم قوم ،ہم قبیلہ ان کے دوست اور ان کے رشتے داروں کی مختلف کاموں میں مدد کرتے ہیں۔ اگر آپ کا تعلق کسی ترقی یافتہ قوم اور قبیلے کے ساتھ ہے تو آپ کے سارے کام چٹکی بجاتے ہی ہو جاتے ہیں ۔ آپ کسی تعلق داری سے کسی دفتر میں اپنے ذاتی کام کے لیے جاتے ہیں اور واپسی پر آپ کے تاثرات کچھ یوں ہوتے ہیں۔ ’یار کام کا تو پتہ ہی نہیں چلا۔۔ان صاحب نے بٹھایا۔۔چائے بسکٹ منگائے۔۔کام اپنے پی اے کے حوالے کیا اور دس منٹ میں کام ہوکے میرے سامنے پڑا تھا‘۔ ایسی صورت میں آپ قطعا اس بات کو فراموش کر دیتے ہیں کہ جس دفتر سے آپ کا کام اتنی سہولت اور عزّت کے ساتھ ہوگیا، اسی دفتر کے باہرلوگ ایک طویل قطار میں کھڑے دھوپ گرمی اور پیاس سے نڈھال ہیں۔ان میں بہت سارے اپنے جائز کاموں کے لیے طویل اور صبر آزماء انتظار سے گزرتے ہیں اور باری آنے پر کھڑکی میں بیٹھا کلرک کوئی نہ کوئی نقص نکال کے انہیں واپس بھیج دیتا ہے۔
فیور بینک کی دوسری قسم بین الادارتی تعاون ہے۔ جس میں ایک محکمے کے لوگ دوسرے محکمے کے لوگوں کے کام آتے ہیں۔ پولیس والے RTAوالوں کے کام آتے ہیں اور وہ ان کے۔اسی میں ایک قسم بیچ میٹس کی ہے۔جس میں ایک ہی اکیڈمی یاپھر ایک ہی سال میں مختلف شعبوں میں تربیت پا کر افسر لگنے والے خواتین و حضرات امداد باہمی کی ایسی شاندار روایات قائم کرتے ہیں کہ قانون اور انصاف کی کتابیں بے معنی ہو جاتی ہیں۔آپ کسی بھی سرکاری ادارے میں چلے جائیں ، اکثر پتہ چلے گا کی صاحب سیٹ پہ نہیں ہیں۔وجہ صرف یہ ہوگی کہ صاحب سلامت اپنے بیچ میٹس کے ساتھ ان کے اور ان کے رشتے داروں اور ان کے دوستوں کے رکے ہوئے کام کرنے میں مشغول ہوں گے ۔رفاہِ عامہ کی ساری مصروفیات ترک کرکے وہ صاحب رفاہِ خاصہ کے کاموں میں مشغول پائے جائیں گے۔دفتر کے باہر چاہے پانچ سو لوگ ذلیل و خوار ہو جائیں ان صاحب کی بلا سے۔ اور سچی بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں یہ ایک معاشرتی مجبوری بھی ہے کیونکہ جو آدمی اپنے جاننے والوں کے کام نہیں کروا سکتا وہ معاشرے میں منہ دکھانے کے لائق نہیں رہتا۔ اگر کرسی پر بیٹھا کوئی شخص اپنے عزیزوں، دوستوں اور رشتے داروں کو لائن میں لگنے کو کہہ دے تو اس بات کا واضح امکان ہے کہ وہ سماجی سرکل میں تنہا رہ جائے گا۔
تیسری قسم کچھ ایسے لوگوں پر مشتعمل ہے جو ملک میں دن رات کرپشن کے فروغ کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ یہ واقعی میں بڑے لاجواب لوگ ہوتے ہیں اور اگر آپ نے کرپشن میں ماسٹرزیا ڈاکٹریٹ کرنا ہو تو ان لوگوں کی شاگردی اختیار کیجیئے۔ یہ حضرات کچھ ٹھیکیداروں اور ناجائز فروشوں پر مشتعمل ہوتے ہیں اور شہر کی انتظامیہ میں ان لوگوں کا خاصا عمل دخل ہوتا ہے۔ان کا طریقہٗ واردات کچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ کسی بھی انتظامی عہدے پہ تعینات شخص کی خدمت بجا لانے میں یہ کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔ کسی بھی انتظامی عہدے پرنئے آنے والے افسر کا بیش قیمت تحائف سے استقبال کرتے ہیں، جس کو یہ صاحبان اپنی اعلیٰ مہمانداری کی روایات پر محمول کرتے ہیں۔اس کے بعد صاحب کے گھر کے پردے تبدیل کرنے ہوں ، صوفے نئے لانے ہوں، ائیر کنڈیشنر خراب ہوجائے، یہ لوگ ہر وقت خدمت کے لیے میسر رہتے ہیں۔بدلے میں صرف فائلوں پہ دستخط کرواتے ہیں۔ جیسا کہ عرض کیا کہ کچھ تو ان میں ٹھیکیدار ہوتے ہیں اور کچھ محض دلال۔ لیکن بلا کے چرب زبان ، چاپلوس اور جھگڑالو۔ حیرت انگیز طور پر یہ حضرات مناسب موقعے پر ان تینوں خصوصیات کا استعمال کرنا جانتے ہیں۔
چوتھی قسم کا تعلق ہمارے شعبے یعنی صحافت سے ہے۔ صحافی حضرات جو اپنے کام کی نوعیت کی وجہ کی مختلف دفاتر میں چکر لگاتے ہیں ، وہاں اپنے لیے ایک مظبوط فیور بینک بنا لیتے ہیں ۔اس کے بعد وہ پارٹیاں تلاش کرتے ہیں اور اپنی خدمات کے عوض معقول معاوضہ پاتے ۔ پبلک ریلیشننگ کے عام ایکسپرٹ کی نسبت، ان کی شنوائی زیادہ ہوتی کیونکہ کام نہ ہونے پر یہ اس ادارے کے خلاف خبر بھی لگا سکتے ہیں۔ میڈیا ہاوسسز اور اخبارات میں معمولی تنخواہوں پر کام کرنے والے صحافیوں کا اگر طرزِ بودوباش دیکھا جائے تو وہ قطعی ان کے معلوم ذرائع آمدن سے مطابقت نہیں رکھتا۔ کچھ صحافی یہی کام بڑے لیول پر کرتے ہیں۔کسی کو وزیر بنانا ہو یا کسی کے نیچے سے وزارت کی کرسی کھینچنی ہویا اس میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کی میڈیا کمپینز چلاتے ہیں اور کچھ تو بیرونی قوتوں کے ایجنڈوں کو آگے بڑھانے کے لیے کام کرتے ہیں۔لیکن کیا یہ سب صحیح ہے اور کیا یہ سب کچھ ایسے ہی چلنا چاہیے ؟کیا اس ملک میں کبھی بھی انصاف اور قانون کی عملداری نہیں ہو پائے گی اور کیا یہ منحوس فیور بینک یا ڈاکخانہ ہمیں اسی طرح سے تباہ و برباد رکھے گا۔
چلتے چلتے ایک واقعہ سناتا چلوں ۔ میرے والد 73میں جرمنی میں مقیم تھے ۔ان کے ساتھ جہلم کا ایک شخص بھی ان کا روم میٹ تھا۔والد صاحب بتاتے ہیں کہ ایک دن ان کے کمرے میں چیکوسلواکیہ کی دو لڑکے آئے تو جہلم والے شخص نے انہیں اپنی زندگی کے مختلف کارنامے سنانے شروع کیے کہ کس طرح وہ اپنے شہر میں سنگین جرائم میں ملوث ہوتے ہوئے بھی کبھی پکڑا نہیں گیاکیونکہ اس کا والد ایک پولیس انسپکٹر تھا۔جب وہ شخص تھوڑی دیر کے لیے کمرے سے نکلا تو والد صاحب بتاتے ہیں کہ وہ دونوں لڑکے حیرت سے پوچھنے لگے ، تمہارے ملک میں کوئی قانون نہیں ہے کیا؟ تو والد صاحب نے بتایا کہ ہے۔اس پر وہ بولے پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ یہ شخص آزاد گھومتا پھرتارہا۔۔۔۔؟؟
ای میلfaisalpasha807@gmail.com