تحریر : اقبال کھوکھر
چند روز قبل مجھے فیاض احمد فیاض گرد اسپوری کے نئی کتاب ”غم کی لطافت ” موصول ہوئی جس کے بارے میں بیان کرنے سے قبل میں ”غم کی لطافت”کے مصنف کے بارے میں کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں۔ فیاض احمد فیاض ضلع قصور کی تحصیل کوٹ رادھا کشن کی ذرخیزادبی زمین کے اس ادبی گھرانے کے چشم وچراغ ہیںجو بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے ۔اس حوالے سے فیاض احمد فیاض گرداسپوری کے نام سے پکارے جاتے ہیں ۔فیاض احمد فیاض گرداسپوری شاعر انہ تخلیقی صلاحیت کے ساتھ ساتھ کالم نگار ی اور ادبی شخصیت کے مالک ہیں۔متعدداخبارات میں بطور ایڈیٹر کام کر رہے ہیں۔تین سال قبل محکمہ اریگشن میںبطورضلعدار رٹیائر ڈہوئے ۔اردو شاعری پر عبور حاصل ہے پنجابی زبان میں شعر کہتے ہیں۔اردو شاعری کا پہلا مجمو عہ” غم کی لطافت” کی اشاعت ہو چکی ہے ۔پنجابی مجموعہ زیر طباعت ہے۔ ان کے متعلق ضلع قصور کے مشہور محقق ڈاکٹر ریاض انجم کی ایوارڈیافتہ تصنیف” ضلع قصور کی ادبی تاریخ” میں تفصیل موجود ہے ۔فیاض احمد فیاض گرداسپوری نرم گفتگو ،سنجیدہ افکاراور رفاحی شخصیت کے مالک ہیں۔”غم کی لطافت”میں انہوں نے عشقیہ شاعری کے ساتھ ساتھ معاشرے کے جذبات کی عکاسی کی ہے اور ہر گہری بات کو سادگی سے بیان کیا۔ فیا ض احمد فیاض ادبی محفلوں کی جان ہیں اوربین اقوامی شہرت رکھنے والے فی البدیہ شاعر استاد السخن ڈاکٹر طاہر نازشی کے شاگرد ِخاص ہیں۔ طاہر نازشی، حبیب جالب،طفیل ہوشیار پوری ،ذوقی مظفرنگری ،خورشید نازش،اقبال ساجد،انور دہلوی،ریئس امروہوی،احمد ندیم قاسمی ،نظام الدین نظام ،خلیل آتش ،اسیر عابدکے ہم عصروں میں سے ہیںفیاض احمد فیاض گرداسپوری خوبصورت نظم میں لکھتے ہیں۔
جب سے داخل ہوا دہشت گرد ارض ِپاک میں مُجھے تو یہاں دن رات سے ڈر لگتا ہے
ڈرون حملے او ر خلا ء میں ہے مہک اسلحے کی ایسے میں امریکہ کی عنائیات سے ڈر لگتا ہے
ذرا سی بات پہ لڑکی کو سرعام لگے کوڑے ایسے مُلاوں کی اسلامی روایات سے ڈر لگتا ہے
غم کی لطافت فیاض احمد فیاض گرداسپوری کا اُردو کا مجموعہ ہے اُنہوں نے کُچھ یوں بیان کیا ہے
ساتھ لے جا میری آنکھوں کے یہ بھیگے منظر تیرے چہرے پہ میرے غم کی لطافت ہو گی
ایک غزل میں لکھتے ہیں
سُلگ رہی ہے میری روح غم کے آنگن میں کسی کی یاد بھی پلکوں پہ جلملا نہ سکی
تڑپتی رات کی تنہائیوں میں رونے کو وفا کے ساز پہ وہ کوئی گیت گا نہ سکی
فیاض احمد فیاض گرداسپوری بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں مگر ان کے کلام میں حمد ،نعت اور نظم کو بھی اہمیت حاصل ہے ۔آپ صاحبِ علم دانش، روشن خیالی، ترقی پسندی ،ادبی اور امن پسند زندگی کے روشن باب ہیں آ پ کے موضوعات میں اسلامی ،مِلی اور رفاعی پہلو بھی شامل ہیں۔آپ نے اقبال کو منظوم عقیدت پیش کی ہے نذرانہ عقیدت کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
اک نقش انوار تھا کس کس کوسنائوں تو گوہر نایاب تھا کیوں کر یہ بتائوں
رکھوالا ہو جیسے کوئی اپنے وطن کا اے شاعرِ مشرق تُجھے میں کیسے بھُلائوں
فیاض احمد فیاض نے اپنے کلام میں محبت کے باریک احساسات کو صفحہ قرطاس پر اِس طرح بکھیرا ہے کہ ہر پڑھنے والی کی روح میں اُتر جاتا ہے اُنہوں نے تلخ حقیقت کی کُچھ یوں عکاسی کی ہے
بڑی ہی تلخ میرے دل کی داستاں ہے محبت بھی ہماری بے زباں ہے
تمہارے پیار میں تڑپا ہوں برسوں شکایت ہی زباں پہ اب کہاں ہے
انسان اپنی بات کرنے کے لئے اظہار کا وسیلہ ڈھونڈتا ہے فیاض احمد فیاض کی شاعری کی برف پگھلی اور ان کے جوہر آپ کے سامنے ”غم کی لطافت” کی صورت میںہے جو کہ دلکش جذبوں کی ترجمانی سے رقم ہے ان کے کلام میں سادگی بھی ہے اور تہذیب و تمدن کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔لکھتے ہیں
روح میں سوز گھولنے والے تیری یادوں کا بن سُلگتا ہے
تیری دوشیزگی کی خوشبوسے روح کا پیراہن سُلگتا ہے
اُنہوں نے ماضی کا ذکر کُچھ اِس طرح کیا
فضائوں میں جو گونجے تھے وہ ترانے یاد آتے ہیں بھلا بیٹھے جسے تم وہ زمانے یاد آتے ہیں
تیری فرقت میں جو لمحے میں نے گُزارے تھے جو آنکھوں سے ہوئے زائل خزانے یاد آتے ہیں
فیاض احمد فیاض اپنے محبوب کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ جس نے اُسے دُکھ دیا وہ خود بھی چین نہیں پائے گا
مُجھ کو بُھلا کے چین نہ پائے گا اِک دن کھاتا تھا جو قسم جان روز جان کی طرح
مجھ کو مٹا کے نہ اپنا حریف بن میں بھی بِکوںگایوسفِ کنعان کی طرح
ساتھ ساتھ ادبی مقام کی یوں نشاندہی کرتے ہیں
ہر سخن خونِ جگر سے کیا ہے رقم جذبوں کی سچائی کا سمندر رکھتا ہوں
لفظوں کی بندش کا ہو گیا ماہر فیاض شعر و سخن کی گویائی کا سمندر رکھتا ہوں
42 سال سے ضلع قصور کی جسٹرڈاین جی او کے بانی عہدیدار ہیںجبکہ HELPWAYکے جنرل سیکرٹری ہیں۔ معاشرتی بھلائی کے کاموں میں پیش پیش ہیںمعاشرے میں پسماندگی وناخواندگی کے خاتمہ کے لئے گامزن ہیں۔ ان کے دستگاری مراکز سے سینکڑوں خواتین نے ہُنر سیکھا اور اہلخانہ کے لئے کفالت کا ذریعہ بنیں۔
تن بیچتا ہوں نہ من بیچتا ہوں شکم سیر کرنے کو فن بیچتا ہوں
آپ پاکستان اور پاکستانی قوم کی سماجی ترقی اور امن کے فروغ کیلئے کام کرتے ہیںبے سہارا غریب نادار افراد اور اقلیت کی جانی مالی تحفظ کیلئے حتی الامکاں کوشاںرہتے ہیںاپنے وطن کے بارے میں لکھتے
ہیں۔ فردوس سے بڑھ کر مجھ کوحسین تیرے گلشن کے یہ برگ و سمن
تیری مٹی بھینی بھینی ہے تیرا ذرہ ذرہ مثل کرن
میرے پاک وطن میرے پاک وطن میرے پاک وطن
کشمیر کے بارے لکھتے ہیں
اہل فکر و نظر کا متحدہ نعرہ ہے
یہ کشمیر ہمارا ہے یہ کشمیر ہمارا ہے۔
آدھا نہیں سارے کا سارا ہے
ماں کی توصیف یوں بیاں کرتے ہیں کرنا تم خدمت و توصیف ماں کی
اسی میں پنہاں تمہاری عظمت ہی
میرے اخلاق سے ہیںسارے گرویدہ
میرے اندر تیری ہی سیرت ہے
سادات کو نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہوئے اماموں میں اعلیٰ امام ہیں حسین
سب سے عالی مقام ہیں حسین
پیش باطل نہ سر جھکا جن کا زمیں و آسماں پہ قابلِ احترام ہیں حسین
صاحب اقتدار کے متعلق کہتے ہیں
خوبصورت خول بدل بدل کر آتے ہیں وہی لوگ
حالات کے سانچے میںجنہوں نے ڈھلنا سیکھا
فرعون سے کم نہیں یہاں پر وقت کے حاکم
طویل اقتدار کیلئے جنہوں نے قانون کو بدلنا سیکھا
امید واثق ہے کہ فیاض احمد فیاض کی حالیہ تصنیف نہ صرف اہل ادب کے لئے ذوق ودلچسپی کاسبب اورتاریخ ادب میں دستاویزی حیثیت پائے گی بلکہ اس امر سے حوصلہ پاکران کی تخلیقی روانی آگے چل کر زیادہ سے زیادہ پذیرائی حاصل کرے گی۔ ہم فیاض احمدفیاض کو اس شاندار ادبی کاوش پر دل سے مبارکباد پیش کرتے ہیں اور دعاگو ہیں کہ خداانہیں عمردراز بخشے اور وہ اسی جذبہ عقیدت سے گلہائے محبت بانٹتے رہیں۔ان کی کتاب ”غم کی لطافت”کی رونمائی جلد لاہور،قصور اوراسلام آباد میں منعقد ہو گی۔
تحریر : اقبال کھوکھر