تحریر: ایم سرور صدیقی
شور مچاہواہے حکمرانوں کے اتحادی اپنے حواریوں کو مبارک دے رہے ہیں کہ بحران ٹل گیا، دھرنے ناکام ہو گئے میاں نوازشریف کی حکومت بچ گئی۔۔۔خوشیاں منائو ،بھنگڑے ڈالو۔۔ مٹھائیاں تقسیم کرو آزادی اور انقلاب مارچ بھیگ گیا۔ ہم نہیں لوگ کہتے ہیں تحریک انصاف کے عمران خان اور عوامی تحریک کے ڈاکٹرطاہرالقادری کے ہزاروں مظاہرین اور ان کے خلاف تمام سیاستدان اکٹھے ہوگئے۔۔۔ قریباً تمام سیاسی پارٹیاں کیا اپوزیشن کیا چھوٹی بڑی پارٹیاںاپنی جمہوریت کی بقاء کیلئے ایسے گھل مل گئیں جیسے مولوی گھی شکرمکس کردیتے ہیں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کچھ نے جامے میںرہ کر اور کچھ نے جامے سے باہر ہوکر خوب تقریریں کیں کچھ نے موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وزیر ِاعظم کو کھریاں کھریاں سناڈالیں۔۔بعض نے یہاں تک کہہ ڈالا ہم آپ کے ساتھ نہیں جمہوریت کے ساتھ ہیں اوروہ لوگ جو اپنے ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے تھے بے بسی کے عالم میں یہ بے نقط سننے پر مجبور تھے۔
اعتزاز احسن نے کہا میں عمران خان اور ڈاکٹرطاہرالقادری کے صدقے جائوں جنہوںنے میاں نواز شریف کو پارلیمنٹ کی یاددلا دی۔ کسی نے کہا آج جمہوریت خطرے میں ہے اس لئے متحد ہونا ناگزیرہے۔ سینٹ اورپارلیمنٹ کے تین چار معزز ارکان تو آپے سے باہرہوگئے انہوںنے دھرنے والوںکو خانہ بدوش، غدار، گھس بیٹھئے،لشکری حتی ٰ کہ دہشت گردکہہ ڈالا اور گود میںشیرخواربچوںکو لئے بیٹھی خواتین کو بھی دہشت گردی کا مرتکب قراردیدیا کچھ نے دل کھول کربرا بھلا کہا جنہوںنے کچھ نہیں کہا یقینا انہوںنے بھی دل ہی دل میںڈاکٹرطاہرالقادری اورعمران خان کو ”بہت کچھ” کہا ہوگاسب کے سب اپنا رونا روتے رہے کسی نے عوام کی بات نہیں کی۔۔۔ان کے مسائل پرتوجہ نہیں دی، کسی معزز رکن نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں غربت ،مہنگائی ،بیروزگاری،کرپشن اور لوڈشیڈنگ پر بات کرنا پسند نہیں کیا۔۔۔کسی وزیر نے یہ بھی بتانا گوارانہیں کیا حکومت غربت کے خاتمہ کیلئے کیا کررہی ہیں۔۔۔
مہنگائی اور جرائم کی روک تھام کیلئے کیا ترجیحات ہیں؟اصغرخان کیس میں جن سیاستدانوںکو پیسے بانٹے گئے اس کا کیا بنا؟ ۔۔۔یہ بھی نہیں بتایا کہ مخدوم امین فہیم کرپشن کیس میں ان کی اہلیہ کے اکائونٹ سے چارکروڑ روپے ملنے کے باوجود اس کیس کا کیا ہوا؟۔۔۔۔غیر ملکی بینکوںسے رقوم لانے کا حکومتی اعلان ہوا تھا ۔۔کہاں گیا؟۔۔۔ قوم کو یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ حکومتی محکموں اور اداروںمیں کرپشن کے خاتمہ اور ان کو اپنے پائوںپر کھڑا کرنے کیلئے کون کون سے اقدامات تجویز کئے جارہے ہیں۔۔۔ نندی پور پاور پلانٹ کا پراسرارمعاملہ کیا ہے؟ ۔۔۔پہلے ہی روز اس کے ساتھ کیا ہوا؟۔۔۔ لاپتہ افرادکی بازیابی کیلئے کیا کیا جارہاہے؟۔۔۔حکومت عوام کوبنیادی حقوق سے محروم کرکے بلدیاتی انتخابات کیوں نہیں۔
کرواناچاہتی؟۔۔۔یہ بھی کسی نے نہیں بتایادھرنے کے پر امن شرکاء پر ربڑکی گولیاں اور ہزاروں آنسو گیس کے شیل کیوں برسائے گئے اور اس کے نتیجہ میں سرکاری اعداووشمار میں کتنے ہلاک وزخمی ہوئے۔۔کتنے گرفتار؟ ۔۔ کتنے ہی لوگ تھے جو پارلیمنٹ میں دھاڑرہے تھے دھرنا دینے والوںنے وزیر ِ اعظم ہائوس پر حملہ کردیا ہے جس سے مقدس ایوان کی توہین ہوئی ہے ان کو معاف کرناگناہ ہوگا محمود اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن نے دو قدم آگے بڑھ کر کہا ان کو پہاں نکالنے کیلئے ہم کئی لاکھ افراد یہاں لا سکتے ہیں ہمیں اس کی اجازت دی جائے۔یہ ساری باتیں ،دھمکیاں ، کچیچیاں اور اندرکا خو ف دراصل عوام کی اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کی ناکام کوشش ہی کہی جا سکتی ہے پھر دو ”چوہدریوں”کی بیان بازی یا زبان درازی کو اتنا طول دیا گیا۔
جیسے وہ کوئی قومی سلامتی کا مسئلہ درپیش ہو دو دن پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس اس کام کیلئے مخصوص کردینا عوام کے ساتھ کتنا بڑا مذاق ہے قومی خرانے کا کتنا بڑا ضیاع ۔۔۔اور ہمارے حکمران ہیں کہ کچھ سوچتے ہی نہیں لگتا تو یہ ہے کہ چوہدری نثار اورچوہدری اعتزازاحسن کی بڑھک بازی ایک طے شدہ پلان تھا جس کا بڑا مقصد دھرنوں کو پس ِ پشت ڈالنا تھا وقتی طورپر حکمران اس میں ناکام نہیں ہوئے میڈیا یک لخت ان کی طرف متوجہ ہوگیا۔ 14اگست سے جاری دھرنوںکا ایک منطقی انجام یہ بھی کہا جا سکتاہے کہ سیاست واصح طورپر دو گروپوں میں تقسیم ہوگئی ہے ایک حکومت کے حامی ہیں اور دوسرے مخالف اور اس سے بڑھ کر یہ بات بھی کہ عمران خان اور طاہرالقادری کامقابلہ کرنے کیلئے وہ بھی لوگ بھی متحد ہوگئے ہیں جو میاں نواز شریف کو دل سے پسند نہیں کرتے تھے جو سدا اقتدارمیں رہنے کے متمنی ہیں ان کیلئے احتجاج ایک ڈارونا خواب ہے۔
لگتاہے حالات تیزی سے اس نہج پر آرہے ہیں جب اس بات کا فیصلہ ہو جائے گا کہ جمہور اور جمہوریت مقدم ہے یا پھر مفادات کی سیاست۔۔۔سیاستدان صرف اپنے مفادات کو جمہوریت قرار دے کر کتنی دیر تک عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کریں گے۔حکمران تو محض اپنے اقتدارکو جمہوریت سمجھ کر تنقید کرنے والوںکوقابل ِ تعزیر سمجھنے لگتے ہیں۔۔۔عوام کی اکثریت کو ایک بات سمجھ نہیں آرہی حالانکہ یہ سامنے کی بات ہے۔۔۔آصف علی زرداری،مولانا فضل الرحمن،چوہدری برادران،آفتاب شیرپائو،چوہدری اعتزازاحسن اور دیگر کئی حلیف برملا کہہ رہے تھے کہ 2013ء کے عام انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے الطاف حسین سمیت دیگررہنمائوںکی بھی یہی رائے ہے الیکشن کمیشن کے کئی عہدیدار بھی تہلکہ خیز انکشاف کرچکے ہیں اب تلک جس بھی حلقہ میں ری کائونٹنگ ہوئی ہے ہزاروں ایسے ووٹوںکی نشان دہی ہوئی ہے جن کی تصدیق ہی نہیں کی جا سکتی اس کا مطلب ہے کہ عمران خان ، ڈاکٹرطاہرالقادری اور شیخ رشیدسچ کہہ رہے ہیں تو پھر حکمران کس جمہوریت کو بچانے کی بات کرتے ہیں۔۔صاف واضح ہے کہ الیکشن غیرشفاف تھے۔
اب تو چوہدری شجاعت نے کھل کرکہہ ڈالاہے افتخارمحمدچوہدری اور جنرل کیانی اس دھاندلی کے ذمہ دار ہیںیہی بات عمران خان تواتر سے کہہ روہے ہیں جبکہ طاہرالقادری انتخابات سے پہلے انتخابی اصلاحات لانے کا متعدد بار مطالبہ کرچکے ہیں لیکن ان کی کوئی نہیں سنتا سب موجودہ جمہوریت بچانے میں لگے رہے جیسے لگے رہو منا بھائی فلم کی شوٹنگ ہورہی ہو اب سوال یہ ہے کہ اگر دھاندلی ہوئی ہے یا 2013ء کے عام انتخابات مشکوک تھے تو حکمران ان کے حواری اور دھرنے والے کوخانہ بدوش، غدار، گھس بیٹھئے،لشکری اور دہشت گردکہنے والے کس منہ سے جمہوریت بچانے کی بات کررہے ہیں اب تو وہ لوگ بھی بڑھ بڑھ کر احتجاج کرنے والوںپر حملہ کررہے ہیں جنہوںنے ساری زندگی پاکستان کو گالیاں دیتے گذاردی۔
جو قائد اعظم کی ریذیڈنسی تباہ کرنے کے ذمہ دار ہیں مفادات پر مبنی جمہوریت کا دفاع کرنا عوام، جمہوریت اور پاکستان پرظلم ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لاکھوں افرادکے احتجاج پر بھی وزیر ِ اعظم کو استعفیٰ نہیں دینا چاہیے یہ روایت کسی بھی لحاظ سے درست نہیں لیکن اگردال میں کالا ہو یا ساری دال ہی کالی ہو تو اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ منصب اتنی دیرکیلئے چھوڑ دیا جائے جب تک سچائی کا بول بالا نہیں ہوجاتا آخر لزامات لگنے پر میاں نواز شریف بھی یوسف رضا گیلانی سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر چکے ہیں ۔۔۔جس نظام نے غریبوںسے ان کی خوشیاں چھین لی ہیں۔۔۔عوام اپنے حقوق کیلئے ذلیل و خوارہوں۔۔۔ جہاں اپنے مفادات کو جمہوریت کا نام دے کراستحصال کیا جارہاہو۔۔۔ وہاں جابر حکمران کے سامنے کلمہ ٔ حق بلند کرنا فرض ہو جاتاہے ۔۔۔جب غریبوںکے حالات اور حالت ابترہو جائے تو ظلم کی حاکمیت کیخلاف جہادکرنے والوںکاساتھ دینا واجب ہے یہی رسم ِشبیری ہے لیکن جن کے چہروںپر اندر کا خوف عیاں ہے ان کو یہ بات سمجھ میں نہیں آسکتی۔
تحریر: ایم سرور صدیقی