یہ ذکر ہے روشنیوں کے شہر کراچی کا جو بحیرہ عرب کے کنارے سندھ اور بلوچستان کو ملانے والی پٹی پر آباد ہے۔ کراچی دو کروڑ سے زیادہ انسانوں کا ایک ایسا شہر ہے، جہاں پاکستان کے دوسرے شہروں اور چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے شہری یہاں آباد ہیں۔ شہر کراچی اس لحاظ سے بھی اپنی الگ پہچان رکھتا ہے کہ یہاں خوف کے بادل چھائے رہتے ہیں۔ آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد کے تحت گزشتہ بیس سالوں سے جاری دہشت گردی جیسے ناسور پر کسی حد تک قابو پالیا گیا ہے۔ لیکن انتخابات کی بندر بانٹ میں مشغول تمام امیدواران اپنے جھوٹے دعوے ثابت کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں، جو یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے خوف کا خاتمہ کردیا۔
اس شہر میں خوف کا خاتمہ کرنے کے دعویدار تو بہت ہیں۔ کچھ سیاسی جماعتیں ہیں جنہوں نے یہ کہہ کر آسمان سَر پر اٹھا رکھا ہے کہ کراچی میں خوف کی سیاست کا خاتمہ ہو چلا ہے، اب کراچی پر کسی جماعت کا قبضہ ہے نہ ہی کوئی خوف کی فضاء۔ یہ بتائیں کہ یہ کیسا کم ہِمّت خوف ہے جو صرف کراچی میں ہی منڈلاتا ہے۔ جِن معزز امیدواران کو کراچی کی گَلیوں کا عِلم نہیں کہ کونسی گَلی کہا نکلتی ہے، وہ بھی بڑے دلیرانہ انداز میں شور شرابہ کر رہے ہیں کہ خوف ختم ہوچکا ہے۔
جُوں جُوں انتخابات کا وقت قریب آئے گا اس خوف زدہ شہر کے بے خوف اور نہتے امیدواران کبھی دستگیر میں جاوید کی سادہ نہاری تو، کبھی مغز اور نَلی کے ساتھ اسپیشل نہاری کھاتے نظر آئیں گے۔ پتہ نہیں ان کو دستگير کے مغز سے کیا عشق ہوگیا ہے، جو سارا سال عوام کا مغز کھا کر بھی جی نہیں بھرتا ہے۔ لہذا ان کو چاہیئے کہ مُرغّن غذاٶں سے پرہیز کریں، کیونکہ انتخابات کے نتائج اِن کی سوچ کے بَرعکس نکلے اور اِن کے کولِیسٹرول کا پارہ چڑھ گیا تو ان کو دِل کا دورہ پڑنے کا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔
ویسے اس خوفزدہ شہر کے بے خوف امیدواران تو بڑے دَھڑلے سے یہاں وہاں جلسے، جلوس کرتے پھر رہے ہیں، بھر پور خطابات کیے جارہے ہیں، الزمات کی بوچھار جاری ہے، لینڈ کروزر میں سوار کارکنوں کی کثیر تعداد کے ساتھ شہر کی شاہراہوں پر ” ٹیپو سلطان“ بنے پھر رہے ہیں؛ تو بتائیں کہاں خوف دکھ رہا ہے؟ کیا کریم آباد، واٹر پمپ، عزیز آباد کے چوراہوں کے چائے کے ہوٹل بند ہوگئے ہیں؟ اِختلافات اپنی جگہ، وہ تو ہوتے رہتے ہیں، لیکن اس خوفزدہ شہر کی اسٹیک ہولڈر جماعت ایم کیو ایم کی بعض حَرکتوں سے منہ نہیں پھیرا جاسکتا۔ بَھلے ایم کیو ایم دو حصوں پی آئی بی اور بہادر آباد کے دھڑوں میں تقسیم ہوگئی ہو، لیکن ووٹ تو عوام نے ہی دینا ہے۔ جبکہ سونے پر سُہاگہ یہ ہے کہ بانی ایم کیو ایم نے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔
کراچی کے نئے ہمدردوں سے میری تو یہ ہی اِستدعا ہے کہ یہ جو خوف کا رونا روتے ہیں، لگتا ہے سب سے زیادہ خوف اِن ہی پر طاری ہے۔ اِس شہر میں کم ازکم اتنا تو قیام کیجیئے جِتنا انسان نماز میں قیام کرتا ہے۔ آپ تو (نعوذ باللہ) سلام پھیرتے ہی اپنے محل (بنی گالہ تو کوئی بلاول ہاٶس) نکل جاتے ہیں۔ بڑی بڑی باتیں کرتے نظر آتے ہیں کہ ہم نے خوف کے بادل ختم کر دیئے ہیں۔ جنابِ والا آپ اِدھر اُدھر مٹر گشیاں کرتے رہیں، آپ سے تو ایک گراٶنڈ تک نہیں بھرا گیا، جِتنا ہجوم آپ کے جلسوں میں ہوتا ہے، اس سے زیادہ لوگ کسی لڑکے کو لڑکی چھیڑتے پکڑ لیں تو مارنے کے لیے اِکھٹے ہو جاتے ہیں۔ ناقدین کو چاہیے کہ کراچی کا مینڈیٹ جِس جماعت کو بھی مِلے اُسے تسلیم کر لیا کریں۔ ایم کیو ایم پر کوئی ”ڈینٹ“ نہیں لگتا ہے، بلکہ الٹا ”پینٹ“ ہوجاتا ہے، خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔
ایک بات لکھنا ہی بھول گیا، انتخابات اس طرح نہیں لڑے جاتے بھولے بادشاہو، پان کھانے والوں کا ”کرانچی“ پُر امن ہے، ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر چیونگم کی طرح کئی بار چبائے گئے دعوے کرنے کے بجائے گھر گھر جاکر ووٹ مانگنا ہوتا ہے؛ خواہ کسی جماعت کے قائد اور اُس جماعت کی مقبولیت جتنی بھی ہو۔ صرف نہاریاں، پائے، مَغز کھائیں نہیں بلکہ عوام کو بھی کِھلائیں۔ ایک گھنٹہ روز عوام میں رہ کر عوام کے مَسائل کو سُنیں اور علاقے میں ترقیاتی کام کروائیں۔ ڈیفنس، کلفٹن سے لینڈ کروزر میں رعب و داب کے ساتھ علاقوں میں انٹری مارنے سے اِنتخاب نہیں جِیتا جاتا۔
آخر میں بس ایک مشورہ دیے دیتا ہوں کہ کِلفٹن کے کسی ریسٹورنٹ میں بھوجَن کرنے کے بجائے حُسین آباد کا پروٹین مِلک شیک، کراچی حَلیم، ٹھیلے کی رَبڑی اور چَنے کی چاٹ کھا لیں تو شاید ووٹ مل جائیں۔