لاہور (ویب ڈیسک) عام آدمی کی زندگی کو آسان بنانے، حکومت کی رٹ قائم کرنے اور فلاحی ریاست کے خواب کو تعبیر دینے کے لیے ستانوے فیصد عوام کے مسائل حل کرنا ضروری ہیں۔ وہ ستانوے فیصد جو حقیقی مہنگائی کی زد میں بھی آتے ہیں اور مصنوعی مہنگائی سے بھی ان کی کھال اترتی ہے۔ نامور کالم نگار محمد اکرم چوہدری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔چونکہ کمزور لوگ اس کا شکار ہوتے ہیں اس لیے منظم انداز میں مسائل کو سمجھتے ہوئے اس طرف کبھی سنجیدگی سے کام نہیں کیا گیا۔ ہر دور میں رنگ روغن کیا گیا لیکن کوئی پائیدار اقدامات آج تک نہیں کیے گئے یہی وجہ ہے کہ عوام مافیا کے ہاتھوں خوار ہوتی رہتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو حکومت اشیاء خوردونوش کی قیمتوں کو قابو میں رکھنے اور ان کی فراہمی کے لیے ایک آزاد اور خودمختار ادارے قائم کر دے۔ یہ ادارہ ہر قسم کی سیاسی مداخلت سے آزاد ہو کر عوام کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے کام کرے۔ حکومت کے پاس یہ انقلابی کام کرنے کا موقع ہے۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو مہنگائی کا مسئلہ بہتر انداز میں حل ہو سکتا ہے۔ اگر موجودہ حالات کا جائزہ لیاجائے تو مہنگائی نے عام آدمی کو بہت متاثر کیا ہے۔ مشکلات بڑھی ہیں اور ہر روز ملنے والی شکایات اور متعلقہ اداروں کی ناقص کارکردگی کے بعد وزیراعظم عمران خان کو میدان میں آنا پڑا ہے۔ انہوں نے چیف سیکرٹری پنجاب اور پرائس کنٹرول کمیٹی کی ٹاسک فورس کو مکمل اختیارات کے ساتھ مہنگائی کو قابو کرنے اور ناجائز منافع خوروں کے ساتھ ساتھ ذخیرہ اندوزوں کا بھی قلع قمع کرنے کا ہدف دیا ہے۔ چیف سیکرٹری پنجاب اور پرائس کنٹرول کمیٹی کی ٹاسک فورس کے اقدامات کی نگرانی وزیراعظم خود کریں گے۔ گزشتہ چند ماہ میں عوام کو اشیاء خوردونوش کی مناسب قیمتوں پر فراہمی اور دستیابی کے حوالے سے خاصے مسائل کا سامنا ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں بڑھتی جا رہی ہیں باوجود کوشش کے ان پر قابو نہیں یایا جا سکا۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے، کہیں انتظامی ناکامی تو نہیں، کیا ایسا تو نہیں کہ مسائل کو سمجھے بغیر آگے بڑھتے جا رہے ہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ مہنگائی کے معاملے میں حکومت سخت فیصلے کرنے سے گھبرا رہی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ پارٹی کے اندر سے ہی ایسے اقدامات کی مخالفت کی وجہ سے مہنگائی کے خلاف کوئی بھی مہم کامیاب نہیں ہو پاتی، کہیں ایسا تو نہیں کہ عوام کے سب سے بڑے مسئلے کو نظر انداز کر کے حکومت دیگر مسائل میں الجھی ہوئی ہے۔وجہ کوئی بھی ہو یہ تو حقیقت ہے کہ مہنگائی ہوئی ہے اور مناسب و بروقت اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے مصنوعی مہنگائی نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔انتظامیہ نے اپنا کردار ادا نہیں کیا یا پھر ناجائز منافع خوروں نے عوام کا خون چوسا ہے۔ جو بھی وجہ ہو ہر طرف سے بوجھ عام آدمی پر ہی پڑا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کی اطلاعات وزیراعظم عمران خان تک بھی مسلسل پہنچ رہی تھیں یہی وجہ ہے کہ انہوں نے چیف سیکرٹری پنجاب کو کو اہم ذمہ داری دی ہے۔ چونکہ یہ ہمارا سب سے بڑا مقصد ہے، اپنا حصہ ہم نے بھی ڈالنا ہے خوش قسمتی ہے کہ یوسف نسیم کھوکھر جیسے افسران نے وزیراعظم کے وژن کے مطابق عام آدمی کے مسائل حل کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کیا ہے۔ ناجائز منافع خور، ذخیرہ اندوز اور فوڈ انڈسٹری کے مفاد پرست بڑے بڑے نام کسی بھی طرح منشیات فروشوں اور دہشت گردوں سے کم نہیں ہیں۔ دونوں عوام کی زندگی کو مشکل بناتے ہیں، دونوں مظلوموں کا خون چوستے ہیں، دونوں کے ہاتھ بہت لمبے ہیں، دونوں ہی اثر و رسوخ والے ہیں، دونوں کی پہنچ بہت اوپر تک ہوتی ہے، دونوں ہی حکومتوں کو مجبور کر کے من پسند فیصلے کرواتے ہیں۔ حقیقت میں یہی وہ لوگ ہیں جو وسائل پر قابض ہیں اور ان کی مال بنانے کی منصوبہ بندی نے عام آدمی کے لیے زندگی مشکل بنا دی ہے۔ہم سب سے پہلے مسائل کو سمجھ کر مناسب ہوم ورک کے بعد مارکیٹ میں جائیں۔ کوئی حکومت کچھ بھی کر لے وہ اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں ٹھہراؤ پیدا نہیں کرسکے گی کیونکہ ہم اصل مسئلے کو حل کیے بغیر آگے بڑھتے ہیں اور اصل مسائل نظر انداز کیے چلے جاتے ہیں۔ ہمیں بڑے سٹوروں سے چھوٹے دکانداروں تک ہر جگہ بلاامتیاز کارروائی کرنا ہو گی۔ دکانداروں کو ناجائز منافع خوری سے روکنا ہو گا۔ بڑے سرمایہ کاروں کے خلاف چہرہ دیکھے بغیر کارروائی کرنا ہو گی۔ مڈل مین کا کردار محدود کرنا پڑے گا۔ نرخنامے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر اور زبانی جمع خرچ کرنے کے بعد مارکیٹوں میں جا کر بنانا ہونگے۔ لوگوں نے بہت تکلیف برداشت کر لی ہے اب انہیں آرام و آسائش کی ضرورت ہے۔ انہیں اب آسائش اور سہولت کی ضرورت ہے۔ایک ہی سبزی کے مختلف دوکانوں پر مختلف ریٹس ہیں۔ یہییں سے قیمتوں کا رجحان بدلتا ہے اور ریڑھی تک آتے آتے وہ غریب آدمی کی پہنچ سے باہر نکل جاتا ہے۔ قارئین کرام وزیراعظم نے اس مسئلے کو حل کرنے کی ٹھان لی ہے۔ چیف سیکرٹری پنجاب کی توجہ کے بعد ضلعی انتظامیہ بھی حرکت میں آئی ہے اب آپکو ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی سرگرمی ضرور نظر آئے گی۔ کہیں چھاپے، کہیں ان ڈور سرگرمیاں نظر آ رہی ہونگی اور یہ سب عوام کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ہو گا۔ درحقیقت اس مرتبہ عوام بھی جھانسے میں نہیں آئیں گے۔ اب انہیں کھانے پینے کی اشیا کی ضرورت ہے۔ جب عمران خان اس مسئلے پر گھنٹوں بات سن سکتے ہیں تو افسران کیون ان کے وژن کے مطابق کام نہیں کر سکتے۔ اگر تمام ذمہ دار مل جل کر کام کریں اور اپنا کام مکمل ایمان داری اور دلجمعی سے کریں تو کم از کم مصنوعی مہنگائی ختم ہو سکتی ہے، ناجائز منافع خوروں کا قلعہ قمع کیا جا سکتا ہے۔ بڑے سٹوروں کا بھی پابند بنایا جانا ضروری ہے کہ وہ مناسب منافع وصول کریں ناجائز منافع خوری کر کے غلط قیمتوں کا رجحان سیٹ نہ کریں۔ اس مسئلے میں سیاسی حلقوں سے دباؤ بھی آنے کو ہے۔کوئی شخص کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو اگر وہ اس مکروہ عمل میں شامل ہے تو اسکے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہیں کی جانی چاہیے۔ نئے اور ایک پاکستان کے خواب کو تعبیر دینے کے لیے سب کو ذاتی مفادات کی قربانی دینا ہو گی۔ بڑوں کو جرمانہ بھی بڑا ہونا چاہیے۔ یہ ایک مشکل کام ہے کیونکہ بااثر افراد کے فوڈ انڈسٹری سے مفادات وابستہ ہیں۔ تاہم عوامی مفاد سب سے زیادہ اہم ہے۔ عوامی وزیراعظم نے ایکشن لیا ہے اب جو کام نہیں کرے گا یا روڑے اٹکائے گا یا پھر تعاون نہیں کرے گا اسے گھر جانا ہو گا اب کی بار یہ آپریشن اپنے منطقی انجام تک پہنچے گا۔