حریر:ڈاکٹر فیروز عالم
عصر حاضر میں نئی نسل کے جن قلم کاروں نے اپنی خاص پہچان بنائی ہے اور ادب کی جانچ پرکھ کے روایتی اصولوں پر اکتفا نہ کرتے ہوئے نئی جولان گاہیں تلاش کی ہیں ان میں شہاب ظفر اعظمی کا نام نمایاں ہے۔ شہاب ظفر بنیادی طور پر عملی تنقید کے آدمی ہیں۔ متن کا گہرا مطالعہ ، مختلف پہلوؤ ں سے اس کی تفہیم کی کوشش اور کسی نتیجے پرپہنچنے سے پہلے اس کے لیے دلائل اور اسنادکی فراہمی ان کی تنقیدی تحریروں کے اہم اوصاف ہیں۔وہ floating remarks سے گریز کرتے ہیں اور بہت سوچ سمجھ کر نپے تلے جملوں میں اپنی رائے پیش کرتے ہیں۔
ان کی تحریریں بھاری بھرکم اصطلاحات اور ابہام و اشکال سے پاک ہیں۔ اسلوبیاتی مطالعہ خصوصاً ًافسانوی ادب کے مختلف اسالیب کا مطالعہ ان کا خصوصی میدان ہے۔ان کی اب تک چار کتابیں اردو کے نثری اسالیب”،”اردو ناول کے اسالیب فرات۔ مطالعہ و محاسبہ” اور جہان فکشن” شائع ہو چکی ہیں۔”متن اور معنیٰ” موصوف کی تازہ کتاب ہے جس میں کل اکیس مضامین شامل ہیں۔یہ کتاب مباحثہ، مطالعہ اور مکالمہ کے زیر عنوان تین حصوں میں منقسم ہے۔پہلے حصے میں مختلف شعرا ، دوسرے حصے میں عصرحاضر کے فکشن نگاروں اوتر تیسرے حصے میں مختلف موضوعات پر لکھے گئے مضامین شامل کیے گئے ہیں۔
کتاب کا پہلا مضمون ”راجا رام نرائن موزوں کی اردو شاعری” تحقیقی نوعیت کا ہے جس میں مصنف نے اس قدرے غیر معروف شاعر سے متعلق خاصی معلومات بہم پہنچائی ہیں۔راجاج رام نرائن موزوں مہابت جنگ اور سراج الدولہ کے دور میں بہار کے صوبہ دار تھے اور اپنی انتظامی صلاحیتوں کی بنا پر قدر کی نگا ہ سے دیکھے جاتے تھے۔ وہ فارسی کے شاعر تھے اور ٣٨٤ صفحات پر مشتمل ان کا دیوان دستیاب ہے۔اردو میں انھوں نے بہت کم اشعار کہے اور ان کی شہرت صرف ایک شعر کی وجہ سے ہے جو انھوںنے نواب سراج الدولہ کی شہادت کی خبر سن کر کہا تھا
غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوںے کے مرنے کی
دوانا مر گیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزری
ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے موزوں کی شاعری اور شخصیت کے حوالے سے مختلف محققین کی آرا نقل کرنے کے ساتھ ساتھ معروضی انداز میں تجزیہ کیا ہے۔ مجاز کی شاعری پر جب بھی گفتگو ہوتی ہے ان کی نظموں کا ذکر آتا ہے حالانکہ انھوںنے شاعری کا آغاز غزل گوئی سے ہی کیا تھا۔ مصنف نے ”مجاز کا غزلیہ آہنگ” کے زیر عنوان مجاز کی غزلوں کی فکری اور فنی خصوصیات کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے بتایا ہے کہ کلاسیکی اقدار کا احترام، شگفتہ بیانی، لفظوں کا خلاقانہ استعمال، غنائیت، روانی، فکری گہرائی اور اثر آفرینی مجاز کی غزلوں کی نمایاں خصوصیات ہیں۔مجاز نے تشبیہات، استعارات اور تراکیب کے استعمال میں اپنی خلاقانہ ذہانت کا ثبوت دیا ہے۔ان غزلوں کے مطالعے سے مجاز کے ذہنی ارتقااور ان کے دور میں وقوع پذیر اہم تبدیلیوں کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے ان کی غزل گوئی کا محاکمہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
”حقیقت یہ ہے کہ مجاز نے جس انداز سے انفرادی دکھوں کو سماجی پس منظر میں جانچا ہے اور حقیقت و رومان کا سنگم تلاش کیا ہے اور ان کے یہاں جس خلوص اور سوز، محبت اور سیاست، تغزل اور تفکرکی خوبصورت امتزاج ملتا ہے وہ ان کی فنی صلاحیتوں کی دلیل ہے۔” صفحہ۔٢٣
مضمون ”دیارِ ہندی میں فیض” میںہندی رسم خط میں فیض کے شعری مجموعوں کی اشاعت، ہندی رسائل میں فیض پر خصوصی شماروں اور گوشوں کے علاوہ بے شمار تنقیدی مضامین کی تفصیل پیش کی گئی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ فیض احمد فیض ہندی قارئین کے حلقے میں کتنے مقبول ہیں۔
اسلوبیات ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی کا خاص میدان ہے اور اس موضوع پر اب تک ان کی دو کتابیں”اردوکے نثری اسالیب” اور ”اردو ناول کے اسالیب” شائع ہو چکی ہیں۔زیر نظر کتاب میں ایک نہایت اہم مضمون”اردو داستانوںکا اسلوبی مطالعہ” شامل ہے۔ اس میں ”سب رس”،قصہ مہر افروز دلبر”،”نوطرز مرصع”، ” عجائب القصص”، ”نوآئین ہندی” ، ” جذب عشق ”، ” باغ وبہار ”، ”طوطا کہانی ”،”آرائش محفل ”،”داستان امیر حمزہ ”،”بیتال پچیسی ”،”بحر عشق ”،”حسن و عشق ”،”سنگھاسن بتیسی ”، ” چار گلشن ”،”رانی کیتکی کی کہانی ” اور ” فسانہ ٔ عجائب ”کا اسلوبیاتی مطالعہ کیا گیا ہے۔مصنف نے ان تمام داستانوں کے اسالیب کا جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ داستانوں کی زبان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مشکل سے آسان، سادہ ، سلیس اور رواں ہوتی چلی گئی ہے۔اس سے زمانے کے مزاج اور حالات میں تبدیلی کا پتہ چلتا ہے۔بقول مصنف ” نئے علوم و فنون کے اثرات صرف فنی اور ادبی ہی نہیں تھے بلکہ ذہن و فکر کو بھی متاثر کر رہے تھے۔
چنانچہ سنسکرت ،ہندی ، عربی ،فارسی اور ہندوستانی زبانوں کی آمیزش سے جہاں مشرق و مغرب کے درمیان تہذیبی و تمدنی روابط مضبوط ہوئے وہیں زبان و ادب خاص کر اردو قصہ گوئی بھی متاثر اور مستفید ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور میں جو داستانیں تصنیف و ترجمہ ہوئیں وہ باوجود داستان کی فطری رومانیت اور عینیت کے حقیقت پسندی کی صلاحیت اور سادگی و دل آویزی کی خوبیوں سے بھی مالا مال ہیں۔….ان میں ہمارے تمدن کی روایات اور اقدار محفوظ ہوگئی ہیں۔” صفحہ۔١٠٧ ”ترقی پسند اردو ناول کے اسالیب ” بھی اس کتاب کا ایک قابل قدر مضمون ہے۔ اس میں اہم ترقی پسند ناول نگاروں مثلاًسجاد ظہیر، کرشن چندر، عزیز احمد،عصمت چغتائی وغیرہ کے ناولوں کے اسلوب کا جائزہ لیا گیا ہے۔ مصنف نے ترقی پسند ناولوںکے اسلوب کے بارے میں اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ان ناولوں میں واقعات کی کڑیاں جوڑنے والا سپاٹ بیانیہ نہیں ہے بلکہ اس بیانیہ میں سماجی پیچیدگیوں، زندگی کی کشمکش، نفسیاتی الجھنوں، طبقاتی کشمکش اور ملکی سیاست کا بھی احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اردو ادب کے عصری منظر نامے میں تانیثیت ایک اہم رجحان کے طور پر سامنے آیا ہے اورخواتین کی خاصی تعداد اس رجحان کے تحت شعروادب کی تخلیق میں منہمک ہے۔مصنف نے” تانیثیت اور اردو کی نئی افسانہ نگار خواتین” کے زیر عنوان اردو ادب میں تانیثیت کے آغازو ارتقا اور تانیثیت کے ابتدائی علم برداروں مثلاً رشید جہاں، ممتاز شیریں، عصمت چغتائی کے حوالے سے گفتگو کی ہے نیز ان قلم کاروں کا ذکر کیا ہے جن کے یہاں تانیثیت کے اثرات ملتے ہیں۔عصر حاضر کی اہم خاتون افسانہ نگاروں ترنم ریاض، غزال ضیغم،ذکیہ مشہدی، قمر جہاں، نگار عظیم، ثروت خاں، تبسم فاطمہ، اشرف جہاں، صبوحی طارق، شائستہ فاخری وغیرہ کے افسانوں میں تانیثیت کے مختلف ابعاد تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔
ان کی تخلیقات میں کہیں عورت کے بنیادی مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے، کہیں مرد اساس معاشرے میں عورتوں کے استحصال اور ان پر ہونے والے ظلم و جبرپر بات کی گئی ہے،کہیں ان کی سوچ اور فکر میں تبدیلی کی عکاسی کی گئی ہے ، کہیں ان کے احتجاجی اور باغیانہ تیور دکھائے گئے ہیں اور کہیں انھیں نئے دور کے نئے مسائل سے نبرد آزما ہوتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
عصر حاضر میں اردو فکشن کے میدان میں ریاست بہار سے تعلق رکھنے والے تخلیق کاروں کی خاصی تعداد ہے۔عبدالصمد، حسین الحق، مشرف عالم ذوقی، پیغام آفاقی، غضنفر،شفق ،شموئل احمد،قاسم خورشید،احمد صغیر ،شوکت حیا ت ،خورشید حیات،اختر آزادغیرہ نے اپنی منفرد شناخت قائم کی ہے۔ ان کے شانہ بہ شانہ خواتین قلم کاروں کی بھی ایک بڑی تعداد اردو فکشن کی خدمت میں مصروف ہے۔شہاب ظفر نے مضمون”بہار کی افسانہ نگار خواتین” میںناول ”اصلاح النسا ”کی مصنفہ رشید ةالنسا کو Mother of Urdu fiction قرار دیا ہے۔ان کا ناول 1881میں منظر عام پر آیا تھا۔ اس کے بہت عرصے بعد تک بہار میں کوئی خاتون ناول نگار یا افسانہ نگار نظر نہیں آتی۔1936میںشکیلہ اخترکا پہلا افسانہ ”رحمت” ادب لطیف ، لاہور میںشائع ہوا۔ شکیلہ اختر بہار کی پہلی خاتون افسانہ نگار ہیں۔
ان کے بعد رضیہ رعنا،شاہدہ اختر،اعجاز شاہین،عصمت آرا، نصرت آرا وغیرہ نے افسانہ نگاری شروع کی۔بیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں نزہت نوری،شمیم صادقہ اور نزہت پروین نے تجریدی اور علامتی افسانے لکھے۔ 1980 کی دہائی میں ابھرنے والی خاتون افسانہ نگاروں میں ذکیہ مشہدی،قمر جہاں، کہکشاں انجم، اشرف فاطمہ، تبسم فاطمہ، نوشابہ خاتون،کہکشاں پروین، تسنیم کوثر، صبوحی طارق، عنبری رحمٰن، نسرین بانو وغیرہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔مصنف نے اس مضمون میں ان تمام کے افسانوں کی فنی و فکری خصوصیات، موضوعات، اسالیب اور کردار نگاری کا اجمالی جائزہ لیا ہے۔
اس کتاب کے دیگر مضامین میں پریم چند کے ناولوں کے اسلوب،شموئل احمد کی ناول نگاری(ندی کے تناظر میں)،قاسم خورشید ،اسلم جمشیدپوری ،اشرف جہاں اور انور امام کی افسانہ نگاری پر بھی سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے ۔پرویز شاہدی کی نظم نگاری،قدسی مصباحی کی غزل گوئی اورشمیم قاسمی اور جاوید ندیم کی شاعری کا تنقیدی جائزہ بھی ان کے شعری مجموعوں کی روشنی میں پیش کیا گیاہے۔
شاعری اور فکشن کے علاوہ غیر افسانوی ادب پربھی شہاب ظفر نے توجہ مرکوز کی ہے اور ”منفرد مزاح نگار :مشتاق احمد یوسفی ” کے زیر عنوان عصر حاضر کے سب سے بڑے مزاح نگار یوسفی کی تخلیقات کو موضوع بحث بنایا ہے۔ مضمون اچھا ہے لیکن یوسفی جیسے قدآورفنکار کی مزاح نگاری کا احاطہ مزید تفصیلات کا متقاضی تھا۔
بحیثیت مجموعی شہاب ظفر اعظمی کے تنقیدی مضامین متاثر کرتے ہیںاور ان کے مطالعے سے قاری کو کسی مخصوص قلم کار یا فن پارے سے متعلق ایک رائے قائم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ وہ اس کی خوبیوں اور خامیوں سے بخوبی واقف ہوجاتا ہے۔ ان کی تنقیدی تحریروں کی خوبی یہ ہے کہ ان میں دو ٹوک اور واضح انداز ملتا ہے۔کہیں کسی قسم کا الجھائو یا ابہام نہیں ہے۔وہ اپنی بات معروضیت اور قطعیت کے ساتھ کہتے ہیں اور پھر اس کی دلیل بھی دیتے ہیں۔ وہ الفاظ کے بے دریغ ،بے محل او ر بے محابا استعمال کے قطعی قائل نہیں۔
وہ ایک ایک لفظ سوچ سمجھ کر استعمال کرتے ہیں اور تخلیق کاروں کے مقام کے تعین میں غیر جانبداری سے کام لیتے ہیں۔ انھوںنے اسلوبیات کو اپنا خاص میدان ضرور منتخب کیا ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ وہ صرف اسی کے حصار میں مقید ہو گئے ہیں ۔”متن اور معنی” کے مضامین اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ نثر اور شاعری، افسانوی ادب اور غیر افسانوی ادب سب کا مطالعہ یکساں رغبت اور دلچسپی سے کرتے ہیںاور اپنی تنقیدی تحریروں میں موضوع کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ان کی زبان سادہ اور عام فہم ہے اور اپنے مضامین میں جذب و کشش برقرار رکھنے کے ہنرسے شہاب ظفر واقف ہیں۔
یحریر:ڈاکٹر فیروز عالم