تحریر : عائشہ احمد
محبت کےا ہے؟ اور ےہ کس سے کرنی چاہے؟ ےہ وہ سوالات ہیں جو ہر انسان کے ذہن مےں گونجتے ہےں۔ اس کا جواب مختلف ادوار نے مختلف ادیبوں، شاعروں، لکھارےوں نے اپنے مختلف انداز میں دےا ہے ۔کوئی اسے عشق ھقیقی گردانتا ہے اور کوئی اسے عشق مجازی مانتا ہے۔محبت وہ پاکےزہ جذبہ ہے جو انسان کی روح مےں ہوتا ہے اور اےسا چاقتور ہتھیار ہے جو پتھر سے پتھر دل انسان کو بھی موم بنا دےتا ہے۔ہر دور میں محبت مختلف انداز سے کی جاتی ہے۔اﷲکی اپنے نبی پاکﷺ سے محبت،نبی پاکﷺ کی اپنی امت سے محبت، صحابی کرام کی نبی پاکﷺ سے محبت۔ وقت کے ساتھ ساتھ محبت کے تقاضے بھی بدلتے گئے اور پھر محبت کی مختلف داستانےں وجود مےں آنے لگیں۔ ہےرا اور رانجھا،سسی، پنوں۔ سوہنی، مہیوال۔ مرزا ،صاحباں، لےلی مجنوں، رومےو، جےولٹ، ےہ وہ تمام قصے اور کہانیاں ہیں جو آج تک لوگوں کی زبان پہ زدو عام ہیں۔آج بھی اگر محبت کی بات کی جاتی ہے تو ان کرداروں کی لازاوال محبت کا ذکرضرور آتا ہے۔
ےہ فرضی کردار ہیں ےا حقیقی ،بہر حال ان محبت کی داستانوں مےں پاکےزگی دکھائی دےتی ہے۔اس لےے کہ ان محبت کی لازوال داستانوں مےں محبت جسم سے نہیں بلکہ روح سے کی جاتی تھی ۔ےہی وجہ ہے کہ ےہ کردار آج بھی زندہ ہیں اور رہتی دنیا تک زندہ رہےں گے۔ےوں ےوں زمانہ ترقی کرتا گےا محبت کے انداز بھی بدل گئے۔بلکہ ےہ کہنا مناسب ہوگا کہ وہ لوگ ہی بدل گئے جن کیے نا صرف دل پاکےزہ ہوتے تھے بلکہ محبتیں بھی پاکےزہ ہوتی تھیں۔جو محبت کو آخری دم تک نبھانے کا عہد کرتے تھے تو اس پر مرتے دم تک قائم رہتے تھے۔آج کل کی محبت پانی کے بلبلے کی طرح ہے ۔چند لمحوں مےں ختم ہوجاتی ہے اور پھر تو نہےں تو اور سہی،اور نہےں تو اور سہی۔ اب محبت کم اوے بے حےائی زےادہ ہوگئی ہے۔محبت کے نام پہ لڑکے اور لڑکوں کا آزادانہ مےل ملاپ معاشرے کی تباہی کا باعث بن رہا ہے ۔مغرب کی نام کی محبت ہمارے معاشرے مےںناسور کی شکل مےں پنپ رہی ہے اور ہم حقیقت سے نظرےں چرائے تماشائی بنے معاشرے کی بربادی کا تماشہ دےکھ رہے ہیں ۔اور رہی سہی کسر مغرب کے نام نہاد تہوار وےلنٹائن ڈے نے پوری کر دی۔
پاکستان مےں پچھلے چند برسوں مےں ےہ تہوار قومی سطح پر مناےا جاتا ہے۔ ٹی وی چینلز اورریڈےو سٹیشنز پر باقاعدہ ٹرانسمیشنز دکھائی جاتی ہےں۔گھروں مےں تقاریب کا اہتمام کیا جاتا ہے۔سکولز،کالجز اور ےونیورسٹیز مےں لڑکے اور لڑکےاں اےک دوسرے کو پھول اور تحائف پیش کرتے ہیں۔اس دن ملک کے تمام ہوٹلوں اور ریسٹورینٹس مےں نوجوان لڑکے اور لڑکےوں کی بھرمار ہوتی ہے جو اپنے گھر والوں سے چھپ کر ےہ دن منانے آئے ہوتے ہیں۔اور والدین ان تمام باتوں سے قطع تعلق ےہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ان کے ہونہار بچے علم کے زےور سے آراستہ ہونے کے لیے پڑھنے گئے ہیں لےکن پائے وہ کہیں اور جاتے ہیں۔وےیلنٹائن ہے کےا ؟ اس بارے میں مختلف کہانیاں گردش کر رہی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ےہ اےک خالص رومی تہوار ہے۔جس کی ابتدا ئ1700 سال قبل ہوئی۔اور آج ےہ اےک مشہور و مقبول تہوار کے حوالے سے پاکستان سمیت تمام اسلامی ممالک اور پوری دیا میں منایا جاتا ہے۔مغرب کے لیے ایسے تہوار منانا غیر اخلاقی اور غیر قانونی نہیں ہے۔بے راہ روی تو ان کے معاشرے کا خاصہ ہے لیکن پاکستان جیسا اسلامی ملک جو حاصل ہی اسلام کے نام پہ کیا گیا ہو وہاں اس طرح کے تہوار منانے کا کےا جواز ہے۔انگریزوں کو یہ تہوار منانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔لیکن ہمارا معاشرہ بے راہ روی کی طرف جا رہاہے۔نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ا س تہوار کو منانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔مےرا سوال تمام مردوں سے ہیے کہ وہ جب کسی لڑکی کو ویلنٹائن وِش کرتے ہیں تو وہ ےی کیوں نہیں سوچتے کہ ان کے گھر میں بھی بہنیں اور بیٹیاں ہیں۔
کےا وہ ےہ برداشت کر لیں گے کی ان کی بہن سے کوئی محبت کا اظہار کرے ہرگز نہیں تو پھر دوسروں کی بہن بیٹیاں بھی تو کسی کی عزت ہےں۔عزت دو گے تو عزت لو گے۔اور لڑکیاں ےہ کﺅں نہیں سوچتی کہ چند دن کی ےہ محبت ان کے لیے زندگی بھر کا روگ بن سکتی ہے۔اور پھر معاشرے میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتیں۔ حےا دار آنکھیں مرد دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں کہ ےہ کسی عزت دار باپ کا بیٹا،غیرت مند باپ کا بھائی اور با حےا ماں کا بیٹا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔اور ےہی ان کے لیے پاکےزگی ہے۔اور لوگ جو کچھ کریں اﷲ تعالی سب سے باخبر ہے۔اور مسلمان عورتوں سے بھی کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دےںاور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں“۔
کےا ہمارے لےے اﷲ تعالی کا ےہ حکم کافی نہیں ۔ہم کیسے اﷲ پاک کے احکامات کو جھٹلا سکتے ہیں؟ کیسے اس کی آیتوں کا انکار کر سکتے ہیں ۔کےا ہم گذشتہ قوموں کی بربادی بھول گئے ہیں کہ جن انہوں نے اﷲ پاک کی آیتوں کا انکار کےا تو اﷲ نے ان کو صفحہءہستی سے مٹا دےا اور ان پہ اپنا عذاب نازل کر دےااور ہمارے لے عبرات کا نشان بنا دیا۔لےکن ہم پھر بھی اس سے سبق نہیں سیکھ رہے۔ہم کس طرف جا رہے ہیں۔دنیا کی رنگینیوں میں کھو کر ہم اپنے اصل مقصد سے ہٹتے جا رہے ہیں۔نام نہاد آزادی کہ نام پہ اپنے معاشرے میں وےلنٹائن کی صورت میں بے حےائی اور فحاشی کو عام کر رہے ہیں ۔اور عذابِ الہی کو دعوت دے رہی ہیں ”اگر کسی قوم کو بغیر جنگ کے شکست دینی ہو تو اس کے نوجوانوں میں فحاشی پھیلادو“۔ (صلاح الدین اےوبی)۔
ےہ وہ کڑوا سچ ہے جس سے سن کر ہم نہیں چونکتے۔مغرب جس طرح ہمارے نوجوانوں میں بے راہ روی پھیلا رہا ہے ےہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔محبت کے لیے صرف ایک دن ہی کیوں؟ محبت صرف اےک لڑکے اور لڑکی کے درمےان ہی کیوں؟ ارے محبت کرنی ہے تو اُس خالق کائنات سے کرو کہ جو ہمیں ستر ماﺅں سے زےادہ پیار کرتا ہے جو ہماری ہر غلطی اور گناہ کو ہمارے ندامت کے ایک آنسو کے بدلے معاف فرما دیتا ہے۔جو ہمیں دن میں پانچ بار کامیابی کی طرف بلاتا ہے۔محبت کرنی ہے تو اُس مالک کائنات سے کرو جس کی عطا کی حد تو دیکھو کہ اپنا محبوب ہمےں بخش دیا۔ورنہ کون دیتا ہے کسی کو محبوب اپنا۔محبت کرنی ہے تو اُس سرورِ کونین حضرت محمدﷺ سے کرو جو ہماری بخشش کے لیے راتوں کو اٹھ کر روتے تھے۔جو اپنی جلوتوں اور خلوتوں میں ہماری مغفرت کی دعائیں مانگتے تھے۔ارے محبت کرنی ہے تو ضلفائے راشدین سے کرو جو راتوں کو اٹھ کر گلیوں میں گشت کرتے تھے کہ کوئی بھوکا تو نہیں ہے۔
محبت کرنی ہے تو اپنے ماں باپ سے کرو جو ہماری خاظر اپنا سکھ چین ہم پہ قربان کر دیتے ہیں۔محبت کرنی ہے تو اپنی بہن سے کرو جو اپنے بھائی کی عزت کی خاطر اپنا آپ قربان کر دےتی ہے ۔محبت کرنی ہے تو اپنے بھائی سے کرو جو اپنی بہن کی آنکھوں میں اےک آنسو نہیں آنے دےتا۔محبت کرنی ہے تو اُس بوڑھے آدمی سے کرو جو سخت گرمی اور سردی میں اپنے ناتواں کندھوں پہ بوری اٹھائے مزدوری کر رہا ہے تاکہ اپنے بچوں کا پیٹ بھر سکے۔محبت کرنی ہے تو اُس ماں سے کرو جو اپنے بھوکے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لےے اپنی عزتبیچ دیتی ہے۔محبت کرنی ہے تو اپنے رشتہ داروں سے کرو جو آپ کا نارواں سلوک کی وجہ سے آپ کے گھر نہیں آتے۔محبت کرنی ہے تو اُس پڑوسی سے کرو جو رات کو بھوکا سو گےا،جس کے بچے بھوک سے بلکتے رہے۔محبت کرنی ہے تو اُس ےتےم سے کرو جو ہماری امداد کا منتظر ہے۔
محبت کرنی ہے تو اُس فٹ پاتھ پہ پڑے بچے سے کرو جو پڑھنا چاہتا ہے لیکن وسائل نہہونی کی وجہ سے پڑھ نہیں پایا اور بھےک مانگنے پر مجبور۔محبت تو وہ سمندر ہے جس میں انسان ڈوب کر بھی تیرتا ہے۔جس کے طلاطم میں گم ہو کر وہ اپنی ذات کی نفی کر کے صرف اپنے ب کی رضا کی خاطر محبت کے سمندر میں ڈوب کر دوسروں کے دکھ درد سمیٹ لیتا ہے۔اور وہ اس سمندر سے پھر سر خرو ہو کر نکلتا ہے جس سے نا صرف اس کی دنیا سنورتی ہے بلکہ آخرت بھی سنور جاتی ہے۔ےہ اےک دن کی محبت صرف تھوڑی دیر کی لذت کے لیے ہے۔چند دن کی دیناوی زندگی میں کھو کر آخرت کو بھول جانا کہاں کی عقل مندی ہے۔اصل محبت تو اپنے رب سے اور اس کے احکامات کی پیروی کرنے سے ہے۔ےہی سےدھا راستہ ہے ےہی صراط مستقیم ہے۔آﺅ کامیابی کی طرف ،آﺅ کامیابی کی طرف۔آﺅ روشنی کی طرف۔آخر کار ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
ہوس نے کر دےا ٹکڑے ٹکڑے نوعِ انسان کو
اخوت کا بےان ہو جا ، محبت کی زبان ہو جا
تحریر : عائشہ احمد
Email: urdu.article@gmail.com