اسلام آباد (ویب ڈیسک) معلوم ہوا ہے کہ جس وقت وفاقی وزیر برائے آبی وسائل فیصل واوڈا نے 2018ء کے عام انتخابات میں کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے اس وقت وہ امریکی شہری تھے اور یہ کہ ان کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جمع کرایا جانے والا حلف نامہ جعلی تھا کہ
ان کے پاس غیر ملکی شہریت نہیں ہے۔11؍ جون 2018ء کو کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت وہ امریکی شہری تھے۔ کاغذات کی اسکروٹنی کے وقت بھی ان کی امریکی شہریت برقرار تھی۔فیصل واوڈا نے اپنے کاغذات نامزدگی میں حلفاً کہا کہ وہ صرف پاکستانی شہری ہیں تاہم دستاویزات سے ثابت ہوا جب انہوں نے کاغذات جمع کرائے وہ امریکی شہری بھی تھے۔ قانونی ماہرین کا کہنا تھا کہ اگر ثابت ہوجائے کہ کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت وہ امریکی شہری تھے تو نااہل ہوجائیں گے ۔ پی ٹی آئی کے قانونی ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر ثابت ہوجائے کہ کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت وہ امریکی شہری تھے تو نااہل ہوجائیں گے ۔
ائیرلائن نے خاتون کا زبردستی ایسا ٹیسٹ لے لیا کہ جان کر خواتین بھی فضائی سفر کرنے سے کترائیں گی
ان حریف امیدوار نے سندھ ہائیکورٹ میں واوڈا کی دہری شہریت چیلنج کی لیکن دباؤ پر واپس لے لی، 2018ء میں سپریم کورٹ ن لیگ کے سینیٹرز سعدیہ عباسی اور ہارون اختر کو کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت دہری شہریت پر نااہل قرار دیا تھا۔ترجمان الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ وہ ازخودنوٹس نہیں لے سکتے، کسی رکن پارلیمنٹ کو دہری شہریت چیلنج کرنا ہوگی، بار بار رابطے پر فیصل واوڈا نے مؤقف نہیں دیا۔انہوں نے صرف اتنا جواب دیا کہ
ʼʼPlease go aheadʼ
ʼ (آپ آگے بڑھیں)۔ سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ فیصلے میں یہ واضح کر دیا تھا کہ کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت امیدواروں کے پاس غیر ملکی شہریت چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ ہونا چاہئے۔ اسی بات پر سپریم کورٹ نے کئی ارکان پارلیمنٹ کو نا اہل قرار دیا تھا جس میں نون لیگ کے دو سینیٹر بھی شامل ہیں۔
دونوں نے کافی عرصہ قبل ہی شہریت کی تنسیخ کیلئے درخواست دے رکھی تھی لیکن طویل طریقہ کار کی وجہ سے کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت ان کے پاس یہ سرٹیفکیٹ نہیں تھا۔واوڈا کے معاملے میں کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی آخری تاریخ 8؍ جون تھی جسے مزید تین دن کیلئے بڑھایا گیا تھا۔واوڈا کے معاملے میں کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی آخری تاریخ 8؍ جون تھی جسے مزید تین دن کیلئے بڑھایا گیا تھا۔ واوڈا نے اپنے کاغذات 11؍ تاریخ کو جمع کرائے اور ایک حلف نامہ بھی جمع کرایا جس میں ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس غیر ملکی شہریت نہیں ہے۔این اے 249؍ سے ریٹرننگ افسر نے ان کے کاغذات کی 18؍ جون 2018ء کو منظوری دی جس کے بعد 22؍ جون 2018ء کو واوڈا نے امریکی شہریت کی تنسیخ کیلئے شہر میں امریکی قونصل خانے میں درخواست جمع کرائی جس کا مطلب یہ ہوا کہ کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت وہ امریکی شہری تھے۔اگرچہ شہریت کی تنسیخ کا عمل مختلف محکموں سے کلیئرنس کے بعد کچھ ہفتوں میں مکمل ہوتا ہے لیکن دی نیوز کے پاس دستیاب دستاویزات کے مطابق قونصل خانے کی طرف سے انہیں شہریت کی تنسیخ کا سرٹیفکیٹ 25؍ جون 2018ء کو جاری کیا گیا۔واوڈا کی اپنی پارٹی سے تعلق رکھنے والے ماہرین قانون متفق ہیں کہ کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت جس امیدوار کے پاس غیر ملکی (دوہری) شہریت ہوگی وہ نہ صرف فوری طور پر نا اہل قرار دیا جا سکتا ہے بلکہ اسے جھوٹ بولنے پر سزا بھی ہو سکتی ہے۔ سابق وزیر قانون فواد چوہدری، علی ظفر اور عمران خان کے قانون کے امور پر مشیر (جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی) نے بھی دی نیوز کے ساتھ بات چیت میں اسی بات کی تائید کی۔ پیپلزپارٹی کے عبدالقادر مندوخیل نے واوڈا کیخلاف درخواست دی جو دباؤ پر واپس لے لی۔ واوڈا کی دہری شہریت کو کسی نے چیلنج نہیں کیا۔ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ووڈا کے مخالف امیدوار عبدالقادر مندوخیل نے واوڈا کی کی نامزدگی کو منسوخ کرنے کی درخواست دائر کی تاہم چند سماعتوں کے بعد مندوخیل نے اپنی درخواست واپس لے لی۔