اسلام آباد(یس اردو نیوز)وفاقی وزیر بحری امور علی زیدی نے سندھ حکومت کی طرف سے جاری کردہ عزیربلوچ اور نثار مورائی کے متعلق جے آئی ٹی رپورٹس کو مسترد کرتے ہوئے اسے نامکمل اور اصل جے آئی ٹی رپورٹ کے برعکس قرار دیتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ سندھ حکومت کی طرف سے جاری کردہ جے آئی ٹیز کاازخود نوٹس لیں اور تمام دستخط کنندہ کو بلائیں اوررپورٹس سےمتعلق پوچھیں،انھوں نے کہا کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ کا تعلق کراچی ہے انھوں نے یہاں کا حال خود دیکھا ہے میں خود بھی سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، وفاقی وزیر نے کہا آج صبح وزیراعظم سے ملاقات کی انھیں صورتحال سے آگاہ کیا، وزیراعظم نےکہاکوئی ساتھ ہو یا نہ ہو میں تمہارے ساتھ ہوں، اسی وجہ سے سینیٹر شبلی فراز بھی میرےساتھ موجود ہیں، وفاقی وزیربحری امور علی زیدی نے وزیراطلاعات ونشریات شبلی فراز کے ہمراہ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سندھ حکومت کی جے آئی ٹی رپورٹ پر سوالات اٹھا دیے۔ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کی جاری کردہ جےآئی ٹی کے4صفحات پر دستخط ہیں ، میرے پاس جو جےآئی ٹی ہے اس کے ہر صفحے پر دستخط ہے، ذوالفقار مرزا بہادر آدمی ہے سر پر قرآن رکھ کر سچ بولا۔ علی زیدی نے مزید کہا کہ پیپلزپارٹی میرے خلاف تحریک استحقاق لانے کا شوق پورا کر لے، چیف جسٹس پاکستان مجھ سمیت جے آئی ٹی ممبران کو طلب کریں، سپریم کورٹ سے سوموٹو ایکشن لینے کیلئے پٹیشن دائر کروں گا۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ قانون سب کے لئے برابر ہونا چاہئے، شرجیل میمن دہشتگردوں کےسہولت ہونےکےباوجودایم پی اےہے، سندھ حکومت کی جاری کردہ جے آئی ٹی رپورٹ نا مکمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت کی جاری کردہ جے آئی ٹی رپورٹس مختلف ہیں۔صرف چار صفحات پر دستخط ہیں، جبکہ اصل جے آئی ٹی کے ہر صفحے پر دستخط ہیں۔سندھ حکومت کی جے آئی ٹی رپورٹ میں بس یہ ہے کہ کس نے کس کو مارا؟جو لوگ قتل کرواتے رہے وہ پارلیمنٹ میں گھوم رہے ہیں۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے راہنما نبیل گبول نے بھی جے آئی ٹی رپورٹ کو نامکمل قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی میں دکھائی گئی رپورٹ پر آج بھی قائم ہوں۔ رپورٹ میں واضح ہے کہ ملزم 158 قتل کا اعتراف کرچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عزیز بلوچ نے بیان حلفی میں کہا کہ مجھے خدشہ ہے کہ انکشافات کے بعد مجھے اور میرے گھر والوں کو جان سے مار دیا جائے گا۔ جس کیلئے میں تحفظ کی ضمانت مانگتا ہوں، کیونکہ مجھے آصف زرداری اور دوسرے لوگوں سے انتقامی کاروائی کا خطرہ ہے۔ ہوا یہ ہے کہ سانحہ بلدیہ کی جے آئی ٹی حکومت سندھ نے جاری کی ہے، جے آئی ٹی کے آخری صفحے پر سب کے دستخط ہیں، اس میں بڑے مزے کی بات ہے۔ جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا کہ دوبارہ تحقیقات کروائی جائیں۔سندھ پولیس کے ایس پی ڈاکٹر رضوان ہیں،جب انہوں نے رپورٹ نکالی تو ان کا تبادلہ شکار پور کردیا گیا۔رپورٹ میں منشیات فروش اور جرائم پیشہ افرادکا ذکر ہے۔فرحان غنی منشیات فروشوں کا سہولتکار ہے، یہ اسی حلقے سے ایم پی اے بھی بنے ہیں۔ وفاقی وزیر بحری امور علی زیدی نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے عذیر بلوچ، بلدیہ فیکٹری اور نثار مورائی کی جے آئی ٹیز پر ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کردیا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ تہذیب یافتہ ممالک میں سیاسی مباحثے دائیں اور بائیں بازو کی ہوتی ہے لیکن پاکستان میں صحیح اور غلط کی سیاست ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم طویل جدوجہد کے بعد اقتدار میں آئے اور اقتدار میں آنے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے ہمیں وزیر بنانے کے قابل سمجھا لیکن اس ملک میں وزیر بننے کے بعد لوگ کیا کرتے رہے ہیں، ہم سب جانتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہم ملک بدلنے اور ملک کو صحیح راہ پر لگانے کے لیے آئے ہیں اور اس کے لیے بہت ضروری ہے کہ اللہ کے دیے ہوئے سزا اور جزا کے نظام پر عمل کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ یہ موٹر سائیکل اور گاڑی کی چوری کی بات نہیں ہے بلکہ 158افراد کے قتل کا عذیر بلوچ خود اعتراف کر چکا ہے اور جے آئی ٹی ریلیز کی گئی تو پیپلز پارٹی کے ترجمان نبیل گبول کہنے لگے کہ یہ جے آئی ٹی پوری نہیں ہے۔ پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے پیپلز پارٹی رہنماؤں کی عذیر بلوچ سے ملاقات سمیت مختلف ویڈیوز بھی چلائیں اور 4مارچ 2013 کا حکومت سندھ کا اعلامیہ بھی دکھایا جس میں حکومت سندھ نے عذیر بلوچ کی سر کی قیمت مقرر کی تھی۔ وفاقی وزیر علی حیدر زیدی نے عذیر بلوچ کا بیان حلفی سناتے ہوئے کہا کہ صفحہ نمبر 7 میں عذیر بلوچ نے کہا تھا کہ سینیٹر یوسف بلوچ کے کہنے پر وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ اور فریال تالپور سے ملا اور اپنے خلاف ہیڈمنی ختم کروانے کا کہا جسے آصف علی زرداری اور فریال تالپور کے حکم پر ہٹادیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آخری صفحے پر عذیر بلوچ نے کہا کہ مجھے خدشہ ہے کہ ان انکشافات کے بعد مجھے اور میرے گھر والوں کو جان سے ماردیا جائے گا جس کے لیے میں درخواست کرتا ہوں کہ مکمل حفاظت کی جائے کیونکہ مجھے آصف زرداری اور دیگر سیاسی لوگ بشمول ان کے جن کا ذکر میں نے بیان حلفی میں کیا ان کی جانب سے انتقامی کارروائی کا خطرہ ہے۔وزیر بحری امور نے کہا کہ گزشتہ روز حکومت سندھ نے اپنی ویب سائٹ پر بڑی مشکل سے بلدیہ فیکٹری کی جے آئی ٹی رپورٹ جاری کردی، اس میں جو انکشافات اور جن جن کے نام ہیں وہ آپ کو معلوم ہے۔ انہوں نے کہا کہ آخری صفحے پر سندھ پولیس، ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے، ایم آئی، ایس ایس پی ایسٹ، ڈی جی رینجرز سب کے دستخط ہیں جس میں لکھا ہے کہ بلدیہ فیکٹری کا خونی اقدام پولیس کی نااہلی کی واضح مثال ہے۔ انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی نے مذکورہ تفتیش پر تنقید کی اور نتیجہ اخذ کیا کہ خوف اور احسان کے غالب رہنے والے عناصر نے پولیس کی کارکردگی کو متاثر کیا اور یہ جے آئی ٹی غلط بنی تھی اور دوبارہ ایف آئی آر کاٹ کر تفتیش کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی میں یہ لکھا گیا تھا، اس طرح اداروں کو تباہ کیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر نے انکشاف کیا کہ سندھ پولیس کے ایس پی ڈاکٹر رضوان احمد نے جب یہ رپورٹ نکالی تو ان کا یہاں سے شکارپور ٹراسنفر کردیا گیا، وہاں انہوں نے دوسری رپورٹ نکال دی کہ وہاں ڈکیتیوں میں کون کون سیاسی لوگ ڈاکوؤں کی سرپرستی کرتے رہے۔علی زیدی نے کہا کہ اس رپورٹ میں لکھا ہے کہ چنیسر گوٹھ، محمودآباد میں مجرموں، منشیات فروشوں کی تفصیلی رپورٹ اور اب یہ میرا حلقہ ہے، پی ایس-104 اور یہ سندھ پولیس کی رپورٹ ہے جس میں ایک ایماندار پولیس والا آ گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس رپورٹ میں ایک نام فرحان غنی ہے جو منشیات فروشوں کے سہولت کار ہیں اور وہ سعید غنی کے بھائی ہیں اور اس رپورٹ کے بعد انہیں فارغ کردیا گیا۔ وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ ایس ایس پی کی رپورٹ میں فرحان غنی کا ذکر ہے جو ان کی سرپرستی کرتا ہے، فرحان غنی سندھ کے وزیر تعلیم سعید غنی کا بھائی ہے ، میں نے 2017میں چیف سیکریٹری سندھ کو خط لکھا تھا ، چیف سیکریٹری سندھ نے میرے خط کا دوبار جواب نہیں دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد میں سندھ ہائی کورٹ چلا گیا کیونکہ ماڈل ٹاؤن کی جے آئی ٹی رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت پبلک ہو چکی تھی، اکتوبر 2017 سے یہ کیس چلتا رہا اور ججز بدلتے رہے، بالآخر رواں سال 28جنوری کو سندھ ہائی کورٹ نے رپورٹس پبلک کرنے کا حکم جاری کردیاانہوں نے کہا کہ حکومت سندھ نے اعتراض اٹھایا کہ ہمارا اس میں کوئی نقصان نہیں ہوا اور دوسری بات یہ کہ اس سے نیشنل سیکیورٹی کو خطرات لاحق ہو جائیں گے لیکن ہائی کورٹ نے اسے پڑھنے کے بعد بند لفافے میں واپس کرتے ہوئے کہا کہ اس سے نیشنل سیکیورٹی کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ انہوں نے کہا کہ میں جے آئی ٹی رپورٹ رکھنے لگا ہوں اور واٹس اپ گروپس پر وائرل کردوں گا، اس کے ہر صفحے پر دستخط ہے لیکن یہ وہ رپورٹ نہیں جو انہوں نے ریلیز کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عذیر بلوچ کی جے آئی ٹی میں 6 لوگ تھے، ایک اسپیشل برانچ سے تھے جو سندھ حکومت کے زیر انتٖظام آتی ہے، دوسرے سی آئی ڈی سے تھے اور وہ بھی سندھ حکومت کے زیر انتظام ادارہ ہے، ایک آئی ایس آئی سے تھے جو وفاقی حکومت کے زیر انتظام ہے، ایک انٹیلی جنس بیورو سے تھے، وہ بھی وفاقی حکومت کے زیر انتظام ہے، ایک پاکستان رینجرز اور ایک ملٹری انٹیلی جنس سے تھے اور یہ دونوں بھی وفاقی حکومت کے زیر انتظام ادارے ہیں، اس جے آئی ٹی رپورٹ کے ہر صفحے پر ان ان چاروں کے دستخط ہیں اور سندھ حکومت کے زیر انتظام کام کرنے والوں کے دستخط نہیں ہیں اور یہ چاروں اپنے موقف پر قائم ہیں۔ علی حیدر زیدی نے کہا کہ جو رپورٹ حکومت سندھ نے ریلیز کی ہے وہ بھی بہت تفصیلی 35صفحات پر مشتمل ہے لیکن اصل رپورٹ جس پر ڈیڈ لاک ہو گیا تھا، وہ 43صفحات پر مشتمل ہے لیکن اس پر کسی کے دستخط نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جس رپورٹ پر چار آدمیوں کے دستخط ہیں، اس میں دوستوں کے نام لکھے ہوئے ہیں، پہلے چھ نام میں سے ایک نام ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کا بھی ہے، اس کے علاوہ فریال تالپور، عبدالقادر پٹیل، ڈاکٹر نثار مورائی، سینیٹر یوسف بلوچ اور شرجیل میمن کا بھی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جو رپورٹ حکومت سندھ نے جاری کی ہے اس میں شروع کے چھ نام نکالے ہوئے ہیں اور یہ وہی بات ہے جو نبیل گبول صاحب کل رات کہہ رہے تھے کہ یہ رپورٹ نامکمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس رپورٹ پر آئی ایس آئی، ایم آئی، رینجرز اور آئی بی کے دستخط ہیں، اس کے مطابق ملزم نے انکشاف کیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے قادر پٹیل نے ملزم کو رزاق کمانڈو کو قتل کرنے کی ذمے داری سونپی کیونکہ اس نے قادر پٹیل کے کوآرڈینیٹر ایدھی امین کا قتل کیا تھا۔ عذیر بلوچ نے کہا کہ ملزم نے اصل رپورٹ میں مزید انکشاف کیا کہ 2011 میں ذوالفقار مرزا کے استعفے کے بعد معاملات بگڑ گئے تو اویس مظفر ٹپی اور شرجیل میمن سارے کام مجھ سے کرواتے رہے۔ وزیر بحری امور نے کہا کہ میں وفاقی وزیر کی حیثیت سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس سے اپیل کرتا ہوں کہ 184(3) کے تحت اس معاملے پر آج آپ سوموٹو نوٹس لیں اور آپ مجھ سے بھی جے آئی ٹی لیں اور ان سے بھی مانگیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جن لوگوں نے جے آئی ٹی پر دستخط کیے ہیں، انہیں چیف جسٹس عدالت طلب کر کے پوچھیں کہ کیا یہ ان کے دستخط ہیں اور اس جے آئی ٹی میں یہ چیزیں کیوں تھیں۔انہوں نے کہا کہ اگر کوئی پٹیشن نہیں کرے گا تو اپنے طور پر بھی جا کر 184(3) کے تحت ایک پٹیشن کر دوں گا کہ سپریم کورٹ اس پر سوموٹو نوٹس لے کیونکہ جن لوگوں کے احکامات پر قتل ہوتے رہے، وہ ابھی بھی پارلیمنٹ میں گھوم رہے ہوتے ہیں۔ علی زیدی نے کہا کہ یہ قومی اسمبلی میں بیٹھے ہوتے ہیں، ٹیکس کے پیسے پر رہ رہے ہوتے ہیں، قبضوں، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، اور جوئے کے اڈوں میں ملوث ہیں اور یہ سب جے آئی ٹی میں لکھا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے جو بھی نتائج ہوں گے میں ان کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوں، میں نے آج صبح وزیر اعظم اور اور کابینہ کو بتا دیا تھا اور انہوں نے مجھے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ آپریشن ضرب عضب کے بعد ملک بھر میں آپریشن شروع کیا گیا اور دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا لیکن بہت بہت سارے سہولت کار تو اسلمبلیوں میں بیٹھے ہیں، صوبائی وزارتیں لے کر بیٹھے ہیں، شرجیل میمن کا نام ہے، وہ دوبارہ صوبائی وزیر بننے والے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے کوئی الزام نہیں لگایا کیونکہ جے آئی ٹی میری حکومت میں تو بنی نہیں ، نہ ہم اس وقت فیڈرل میں تھے، نہ صوبے میں تھے، یہ جے آئی ٹی تو 2016 میں بنی تھی۔ علی زیدی کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کے ماتحت اداروں کے جےآئی ٹی پر دستخط نہیں، سندھ حکومت نے عزیربلوچ کی جو جےآئی ٹی جاری کی وہ مختلف ہے ، جےآئی ٹی کی اصل رپورٹ 43صفحہ پر ہے، جس پر کسی کے دستخط نہیں، ایک جےآئی ٹی میں 4 اور دوسری پر 6لوگوں کے دستخط ہیں، 4 لوگوں کے دستخط والی جے آئی ٹی میں دوستوں کے بھی نام ہیں جبکہ سندھ حکومت کی جاری رپورٹ میں سے 6 نام موجود نہیں۔ انھوں نے مزید کہا سندھ حکومت نے جو رپورٹ جاری کی وہ 35صفحےپر مشتمل ہے جبکہ دوسری جے آئی ٹی رپورٹ میں سرفہرست یوسف بلوچ، شرجیل میمن ، قادرپٹیل شامل ہیں۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت رپورٹ کے مطابق عزیر بلوچ نے اعتراف کیا جلیل کو قتل کیا، جس رپورٹ پر آئی ایس آئی،ایم آئی،رینجرز کے دستخط ہیں وہ مختلف ہے، اصل رپورٹ میں رزاق کمانڈو کو مارنے کیلئے قادر پٹیل کے احکامات کا ذکر ہے، جبار لنگڑا اور بابالاڈلہ نے جلیل کو اغوا کرکے قادرپٹیل کو آگاہ کیا اور رپورٹ کے مطابق قادرپٹیل نے براہ راست رزاق کمانڈوکےبھائی جلیل کو قتل کرنے کا کہا۔ انھوں نے کہا اصل جےآئی ٹی میں قادرپٹیل،نثارمورائی ، اویس مظفر نے عزیر بلوچ کی حمایت کاذکر ہے اور ذوالفقار مرزا کے استعفے کے بعد شرجیل میمن، اویس مظفر سارے کام کراتے تھے ، سندھ حکومت میرے خلاف عدالت ضرور جائےجو کرنا چاہیں کریں۔