تحریر: لالہ رشید
سنا اور پڑھا ہے کہ احساس کے رشتے خونی رشتوں سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں اور جب تک انسان کے دل میں احساس کا جذبہ زندہ ہے تب تک کائنات میں بھلائی، بہتری اور خلوص کی آبیاری ہوتی رہے گی۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ بازار میں سے گزر ہوا۔ پریشان بھی تھا۔ دماغ میں کئی طرح کے خیالات تھے۔ انہی سوچوں میں ڈوبا ہوا تھا کہ ایک بھکاری کو دیکھ کر میں جیسے سکتے میں آ گیا۔
بھکاری ٹانگوں سے معذور ،کمر مڑی ہوئی اور چلنے کے قابل نہ تھا۔ وہ اپنے ہاتھوں اور پیٹھ کے سہارے حرکت کر رہا تھا ، اس کے ساتھ دو بچے بھی تھے شائد وہ اس کے ساتھ تھے یا اس کی نگرانی پر معمور تھے اور صدا لگا رہا تھا” اللہ کے نام پر دے دے۔ اُسے دیکھ کر سوچتا رہا کہ اس کو جس نے جنم دیا ہے وہ اس کو کھلا نہیں سکتا،بے شک پاک ذات سب کو کھلاتی ہے مگر اس کو مانگنے کے لئے کیوں چھوڑ دیا گیاہے؟۔ کیا یہ ایک منظم گروہ کا حصہ ہے۔
پھر ذہن میں خیال آیا کہ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کے لئے ادارے قائم ہیں ۔کیا اس کے والدین کو پتہ نہیں؟ کیا اس کے والدین یہ نہیں چاہتے کہ یہ کسی ادارے میں آرام سے اپنی زندگی گزار سکے۔پھر ذہن میں خیال آیا کہ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کو ہمیشہ بُری نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ،جو بھیک مانگتے ہیں مگر یہ تو لاچار بھی ہے ۔ ہم اللہ کے نام پر خیرات کرتے ہیں مگر اس کے پیچھے ہماری خود غرضی شامل ہوتی ہے۔
ہم جنت کے لئے ثواب حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہم معاشرے میں اپنی واہ واہ چاہتے ہیں۔ ہم ایسے لوگوں کے لئے ہمدردی تو رکھتے ہیں مگر ان لوگوں کے لئے کچھ کر نہیں پاتے۔ پھر خیا ل آیا کہ عدل کے ایوانوں سے لے کر ہمارے ہر ادارے میں عام آدمی کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے ، جو نوکری تو سرکار کی کرتے ہیں مگر حکومت ہم پر کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ جوتنخواہیں سرکار سے لیتے ہیں وہ بھی ہمارے ادا کیے ہوئے ٹیکسز ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ وہ عیش رشرت کرتے ہیں ان پیسوں سے جو میرے اور آپ کی جیبوں سے جاتا ہے ۔ مگر عام آدمی کا کام کرنے لئے رشوت کی صورت میںبھتہ مانگتے ہیں۔ اس سے ہر آدمی واقف ہے۔
ریاست کے ہرادارے کا ملازم آپنے آپ کو ادارے کا حاکم خیال کرتا ہے۔ چپڑاسی سے لے کر اعلیٰ آفیسر تک رشوت کا بازار گرم ہے اورقانون صرف غریب آدمی کے لئے ہے ۔یہاں جس کے پاس پیسے ہیں وہ سب کچھ کر سکتا ہے ۔سڑک پر چالان عام آدمی کا ہوتا ہے ، رکشہ، موٹر سائیکل، پک اپ، ٹرک، ٹریکٹر وغیرہ کو پولیس والے ایسے روکتے ہیں جیسے اس پر بیٹھا ہو ا آدمی دُنیا کا سب سے بڑا گناہ گار ہے اوراس کی وجہ سے کرپشن کا بازار گرم ہے، اس کی وجہ سے لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے، ملک کا سا را قرضہ اسی کی وجہ سے ہے۔
مہنگائی کا یہی ذمہ دار ہے، ملاوٹ اسی کی کارستانی ہے، ملک اسی کی وجہ سے جہالت کا شکار ہے اور پوری دُنیا میں اسی کی وجہ سے ہمیں قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔لیکن ایک ایسا آدمی جو کسی مہنگی گاڑی میں ہو اس کو پوچھا تک نہیں جاتا ۔ اس کے لئے روڈ کلیئر کروایا جاتا ہے۔
چاہے کسی رکشہ میں کو ئی انسان جنم لینے کے لئے اپنی پہلی نظر اس معاشرے پر ڈالنے کے لئے تیار ہو۔ وی آئی پیز کا گزرنا لازمی ہے۔ بے حس معاشرہ ، کرپٹ لیڈر، ملاوٹ زدہ خوردونوش اور رشوت خوری اندھیرنگری کے سوا کچھ نہیں۔ سب جانتے ہیں مگر ہر شخص یہ سوچتا ہے کہ لیکن مجھے کیا ؟ میرا پیٹ بھرنا چائیے ہرکوئی اپنی فکر میں مست ہے۔۔
جانے کب کسی حکمران کو خیال آئے گا کہ ہمیں اس نظام کو بدلنا ہے اور ہمیں رشوت، نانصافی، ملاوٹ،معاشی استحصال اورجبرو تشدد کے خلاف کھڑا ہونا ہے۔ہمیں یہ خیال کب آئے گا کہ ایک عام آدمی کے لئے اس کے بہتر مستقبل کے لئے بھی ہمیں کچھ سوچنا ہے۔خدارا!۔۔۔۔ہمیں اپنے ضمیر کو جھنجھوڑنا ہو گا۔ ہمیں اپنے دل میں احساس کا جذبہ بیدار کرنا ہو گا۔
تحریر: لالہ رشید